اج ڈاکو چڑھے چناب تے…نذیر ناجی
جب برصغیر کی تقسیم نہیں ہوئی تھی تو پورے کا پورا برصغیر‘ عشق ومحبت کی کہانیوں سے بھر پورتھا۔ اچانک ان کہانیوں کے توسط سے‘ مٹی اور خون میں جو کچھ مل گیا‘ اس کی پہچان کسی کو نہ رہی۔ خون کا رنگ مٹیالا ہو گیا۔کبھی کبھی لہو اور مٹی کے رنگ کی جگہ‘اچانک کوئی تیسرا رنگ دکھائی دینے لگتا ہے۔ کہیں آنسو بہتے ہیں اور کہیں خون۔ کچھ دن پہلے بھارت کے ایک سابق کرکٹر‘ نوجوت سنگھ سدھو‘ نو منتخب وزیراعظم‘ عمران خان کی تقریب حلف برداری کے لئے تشریف لائے جہاں انہیں موقع مل گیا کہ وہ پاکستانی ٹیم کے ہم عصر کھلاڑیوں کی تلاش میں‘ لاہور اور پاکستان کے دوسرے شہروں اورگلیوں میںگھومیں پھریں۔ا نہیں دیکھ کر ایک بار پھر سے سوئے ہوئے ارمان جاگ اٹھے۔ سدھو خوش نصیب ہیں کہ وہ جب بھی پاکستان آئے‘ انہیں کوئی نہ کوئی‘ ہنستا ہوا بچھڑا چہرہ دکھائی دے گیا۔ سدھو کے بار ے میں کیا کہا جائے؟ وہ نہ صرف بھارت ‘بلکہ پاکستان کی بھی ہر دلعزیز شخصیت بن چکے ہیں۔ دونوں ملکوں میں ان کے مداح پائے جاتے ہیں ۔ سدھوکے پرستار جہاں بھی انہیں دیکھتے ہیں‘ سڑکوں‘ گلیوں اور چوراہوں میں روک کر بیتے دنوں کو یاد کر کے‘ محبت سے آنسو بہانا شروع کر دیتے ہیں‘ لیکن تقسیم ہند کے دکھ بھلانا بھی چاہیں تو کبھی نہیں بھلائے جا سکتے۔جن بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا‘ ان کا ذکر کرتے ہوئے ‘دل آج بھی خون کے آنسو روتا ہے اور قلم رکھنا پڑتا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد ‘بہنے والے آنسو دیر تک نظر آرہے تھے اور ان آنسوئوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔بارہا ایسا ہوا کہ دونوں طرف سے شہریوں کی آنکھیں ‘اپنے اپنے شناسائوں کی پہچان ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتیں‘ لیکن پاکستانیوں کی آنکھیں‘ اپنوں کی جدائی میں خشک اور ویران ہی رہیں۔وہاں سے زندہ بچ کر آنے والے کم تھے۔ جو بچ گئے ‘ ان کے پاس زخموں ‘ سسکیوں ‘ آہوںاور جدائیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ دوسری طرف سے آنے والے‘ میلوں میں بچھڑے ہوئے گمشدگان کی طرح‘ اپنوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور جہاں کوئی شناسا نظر آجاتا‘ اسے لپک کر گلے ملتے اور بعض کے رونے کی آوازیں دیر تک سنائی دیتیں۔ بھارت سے آنے والے صرف سکھ بھائی بہنیں ہوتے ہیں‘ جن کے آنسو بھرے میلے میں بھی آسانی سے دکھائی دے جاتے ہیں۔انہی آنسوئوں کو امریتا پریتم نے اپنی شہرہ آفاق نظم میں کچھ یوں بیان کیا ہے۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تُوں لِکھ لِکھ مارے ووین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ دردمندا دیاں دردیا اٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وِچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دِتی زہر رِلا
تے انہاں پانیاں نے دھرت نُوں دِتا پانی لا
ایس زرخیز زمین تے لُوں لُوں پُھٹیا زہر
گٹھ گٹھ چڑھیاں لالیاں پُھٹ پُھٹ چڑھیا قہر
ویہو ولسّی وا فیر وَن وَن وگی چھگ
اوہنے ہر اِک وانس دی ونجھلی دِتی ناگ بنا
ناگاں کِیلے لوک مُونہہ بَس فیر ڈنگ ہی ڈنگ
پل او پل ای پنجاب دے نیلے پے گے انگ
وے گلے اوں ٹُٹے گیت فیر‘ ترکلے اوں ٹُٹی تند
ترنجنوں ٹٹیاں سہیلیاں چرکھڑے کُوکر بند
سنے سیج دے بیڑیاں لُڈن دِتیاں روڑھ
سنے ڈالیاں پینگ اج پپلاں دِتی توڑ
جتھے وجدی سی پُھوک پیار دی اوہ ونجھلی گئی گواچ
رانجھے دے سب وِیر اج بُھل گئے اوہدی جاچ
دھرتی تے لہو وسیا قبراں پیاں چوون
پرِیت دِیاں شاہ زادیاں اج وِچ مزاراں رون
وے اج سبھے قیدو بن گئے‘ حُسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائیے لبھ کے وارث شاہ اِک ہور
اَج آکھاں وارث شاہ نُوں کتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول