منتخب کردہ کالم

’’احتسابی موسم‘‘…!! …الیاس شاکر

ایک اسکول میں ہیڈمسٹریس نے تمام اساتذہ کو طلباء سے تصویربنوانے کی مد میںدس روپے جمع کرنے کی ہدایت کی ۔اساتذہ نے بیس روپے جمع کرنا شروع کئے ۔طلباء نے گھر جاکر والدہ سے تیس روپے لئے ۔انہوں نے اپنے شوہر کی جیب سے پچاس روپے نکال لئے ۔شوہر سرکاری ملازم تھا اس نے دفتر میں پچاس روپے کے ”ریٹ ‘‘پانچ سوروپے کردیئے ۔اس طرح ایک طالبعلم کو وہ تصویر پانچ سوروپے کی پڑی۔یہ ہمارے ملک میں کرپشن کی انتہائی مختصر مگر جامع کہانی ہے ۔
منگل کا ”دنیا اخبار ‘‘احتساب کی خبروں سے بھرپورتھا۔لیڈ اورسپرلیڈ سمیت پورا ”اپر ہاف‘‘کرپشن کیخلاف کارروائی کی خبروں سے بھرا ہواتھا۔ ایک جانب شرجیل میمن سمیت 12افراد کی گرفتاری کی خبر چیخ رہی تھی تو دوسری جانب اسحق ڈار کے بیس ارب روپے کے اثاثے ضبط ہونے کی خبر نمایاں تھی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ کے عمران خان کے بارے میں ریمارکس بھی ایک بڑی خبر کے ذریعے معلوم ہورہے تھے ۔میٹرو بس ملتان اور پی آئی اے کے طیارے اونے پونے فروخت کرنے کی انکوائری کی خبریں بھی ”احتسابی موسم ‘‘ شروع ہونے کی گواہی دے رہی تھیں۔
نئے چیئرمین نیب کی آمد نے سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔احتساب کی چھوٹی چھوٹی ”پھلجھڑیاں‘‘ بڑے ”دھماکوں ‘‘میں تبدیل ہورہی ہیں۔وفاق اور سندھ میں جس برق رفتاری سے اچانک کارروائیاں شروع ہوئی ہیں۔ لگتا ہے اب کوئی نہیں بچے گا۔پاکستان میں آرمی چیف اورچیف جسٹس کے عہدے ہمیشہ طاقتور رہے ہیںلیکن ملکی تاریخ میں پہلی بار تیسرا طاقتور عہدہ چیئرمین نیب کا ہونے جارہا ہے ۔جسٹس (ر)جاوید اقبال کی شخصیت سے جو لوگ واقف ہیں وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ کتنے سخت سربراہ ہیںجس کا ثبوت انہوں نے نیب میں انکوائری شروع کرکے دیا۔چیئرمین نیب نے میگا پروجیکٹس کے تمام مقدمات پر رپورٹ تین ماہ میں طلب کرلی ہے ۔اور قائد اعظم کا فرمان کام ‘کام اور صرف کام دہرا کر کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی نیندیں اڑادی ہیں۔
سندھ میں احتساب کا عمل تو طویل عرصے سے جاری ہے لیکن بڑی گرفتاری پیر کو ہوئی ہے۔ پی پی کی ماضی کی وفاقی اور موجودہ سندھ حکومت کا ”بوجھ ‘‘تنہا ڈاکٹرعاصم نے اٹھا رکھا تھا۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سابق ڈی جی منظور قادر کاکا تو کینیڈا فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔لیکن ڈی جی کے ڈی اے ناصر عباس کئی ”بڑوں‘‘کی یقین دہانیوں پر بری طرح پھنس گئے ہیں۔پیشیوں پر پیشیاں چل رہی ہیںاور مقدمات کی تعداد میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔
سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو پونے چھ ارب روپے کی کرپشن کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔وہ عبوری ضمانت پر تھے ۔جو ”کنفرم ‘‘نہ ہوسکی اور وہ کمرہ عدالت سے اس وقت تک باہر نہ نکلے جب تک چوکیدار نے عدالت بند کرنے کا ”اعلان ‘‘نہ کردیا۔اطلاعات ہیں کہ سندھ کابینہ کے سابق اراکین اور بیوروکریٹس کی بڑی تعداد نیب کے شکنجے میں آنے والی ہے ۔سندھ حکومت نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح نیب سے جان چھوٹ جائے۔اس کیلئے سندھ اسمبلی میں قانون سازی بھی کی گئی ۔لیکن ” زندہ عدالتی نظام ‘‘اس قانون کے آڑے آگیا جو کرپشن کو ”صوبائی صنعت ‘‘کا درجہ دینا چاہتا تھا۔
پاکستان میں کرپشن کی داستان کافی طویل ہے ۔کرپشن کی بنیاد پر کئی حکومتیں برطرف کی گئیں۔ اٹھاون ٹو بی کا استعمال بار بار ہوتا رہا تاکہ ملک کومزید کرپشن سے بچایا جا سکے ۔کرپشن پورے ملک میں ناسو ر کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔قیام پاکستان سے اب تک کرپشن کیخلاف59 قوانین بن چکے ہیں۔لیکن اب بھی ملک میں روزانہ 12سے15ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے ۔نیب میں اس وقت دوہزار کے قریب مقدمات زیر سماعت ہیں ۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بھی کرپشن کی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کے مطابق تین سو سے ساڑھے تین سو ارب روپے ہر روز بدعنوانیوں کی نذر ہو جاتے ہیں ۔یعنی ہرسال قومی دولت کے 4سے 5 ہزار ارب روپے کرپشن کی بھٹی میں جل کر کسی کیلئے ”کوئلہ‘‘ اور کسی کیلئے ”کندن ‘‘بن جاتے ہیں۔زرعی ریونیو، قبضہ مافیا، بینک قرضے ‘ کسٹمز ڈیوٹی، لوڈ شیڈنگ کے نقصانات، اختیارات کا ناجائز استعمال‘ سرکاری وسائل کا ضیاع اور دیگر شعبوں میں بدعنوانیاں شامل کی جائیں تو کرپشن کا حقیقی حجم اندازوں سے کہیں زیادہ ہوجاتا ہے۔قرضوں میں جکڑے غریب ملک سے ایک ماڈل گرل پانچ‘ پانچ لاکھ ڈالر باہر لے جاتی رہتی ہے۔ایک صوبائی وزیر کے گھر پر دوارب روپے جلائے گئے۔ سابق صدر کی کرپشن کا کیس نیب نے ان ریمارکس پر بند کر دیاتھا کہ فوٹو اسٹیٹ پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔بلوچستان کے ایک بیوروکریٹ کے گھر سے کرپشن میں لوٹے گئے57کروڑروپے نقدبرآمد ہوئے۔ عوام نے یہ بھی دیکھا کہ ان نوٹوں کی گنتی کرنے والی کئی مشینیں بھی گرم ہوکر جل گئیں۔ نیب نے مذکورہ بیوروکریٹ پرستر ارب کی کرپشن ثابت کی لیکن آخر میں تین ارب روپے کی پلی بارگین ہوئی اور ضمانت منظور ہو گئی۔ موجودہ حکومت کے ایک حاضر وزیر کی رشوت لیتے ہوئے ویڈیو منظر عام پر آئی۔ لیکن وہ معاملہ بھی شایدفائلوں میں بند ہے ۔سپریم کورٹ کے حکم پرنیب کے سربرا ہ نے کرپشن کے ایک سو پچاس میگا کیسز کی فہرست پیش کی جس میں وزیر اعظم کا بھی نام شامل ہے۔ شایداب نیب کے ہاتھوں ان مقدمات کے کھلنے کا وقت بھی قریب ہے ۔
پوری دنیا میں کرپشن ہوتی ہے ۔لیکن پاکستان میں کرپشن ایک ” صنعت ‘‘کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔کرپشن ترکی اورسنگاپور میں بھی ہوتی ہے ۔بھارت کرپشن میں بہت آگے ہے لیکن ان ممالک کی معیشت پر کرپشن کے اثرات اتنے گہرے نہیں ہوتے، اس کی وجہ استنبول میں ایک ترک وزیر نے بتائی کہ ”ہمارے ملک میں کرپشن ضرور ہوتی ہے لیکن پیسہ ملک سے باہر نہیں جاتا اس لئے کرنسی نیچے نہیں جاتی ‘‘۔ایک بھارتی صحافی نے بھی انکشاف کیا تھاکہ ”ہمارے وزراء کرپشن کرتے ہیں لیکن کک بیک لیتے وقت کوالٹی پر سمجھوتہ نہیں کرتے ۔ اس لئے وہ اپنا کمیشن تو کم کرلیتے ہیں لیکن کوئی ایسا سامان ملک میں نہیں لاتے جس کاعوام اور ملک کو کوئی بڑا نقصان ہو ‘‘۔
چین میں قانون ہے کہ کوئی بھی شخص جوپندرہ لاکھ زیان یا اس سے زیادہ کرپشن کرے اس کے لیے موت کی سزا ہے۔اس قانون کے تحت بننے والے مقدمات پرکرپشن ثابت ہونے پرننانوے فی صد لوگوں کو سزا مل جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت سیاسی رہنماؤں‘ فوجیوں اور بیوروکریٹس کوکرپشن ثابت ہونے پرموت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عبرت حاصل کرنے کے لیے حکومتی اہلکاروں کو اس جیل کی سیرکرائی جاتی ہے جہاں پر کرپشن کے جرم میں لوگ سزا بھگت رہے ہوتے ہیں۔یہ حقائق ہیں کہ چین میں اب تک عدالتوں اور کمیونسٹ حکمران پارٹی کی طرف سے تین لاکھ لوگوں کو سزا سنائی گئی ہے۔افریقہ کے ملک نائجیریا میںکرپٹ اہلکاروں نے تیل کی آمدنی کے چار سو ارب ڈالر لوٹ لئے تھے۔وہاں کے صدر نے اعلان کیا کہ جو بھی شخص کرپشن کی نشان دہی کرے گا اسے ریاست تحفظ کے ساتھ کرپشن کی مد میں وصول ہونے والی رقم کا پانچ فی صدحصہ بھی دے گی۔اس اسکیم کے تحت دو سال میں ملک کو تیل آمدنی کی مد میں تیس فی صد کا اضافہ ہوا۔ ملک میں مختلف محکموں میں چوبیس ہزار گھوسٹ ملازمین کو نکالنے سے ماہانہ80 لاکھ ڈالر کی بچت ہوئی۔دیگر ممالک کرپشن پر قابو پانے میں مددکرنے والے کو انعام دیتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ انعام اسی کرپٹ شخص کی ”پلی بارگین‘‘کی صورت میں ملتا ہے ۔وہاں گھوسٹ ملازمین نکالے جانے سے بچت ہوتی ہے لیکن ہمارے سیاستدان خود گھوسٹ ملازمین بھرتی کراتے ہیںاور پھر کئی جلسوں میں یہ اعلان بھی ہوتے ہیں ”اگر نوکری دینا جرم ہے تو ہم یہ جرم کرتے رہیں گے‘‘۔قوم کی نظریں چیف جسٹس سپریم کورٹ اورچیئرمین نیب کی جانب ہیں ۔اگر ان دو شخصیات نے ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کی قسم کھالی تو ہمیں آرمی چیف کی جانب دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی ۔