منتخب کردہ کالم

احتساب عدالت میں رینجرز اور سول ملٹری تعلقات۔مزمل سہروردی

احتساب عدالت میں رینجرز اور سول ملٹری تعلقات۔مزمل سہروردی

احسن اقبال کے واقعہ کے نتائج ابھی سامنے نہیں آئے لیکن حقیقت یہی ہے نتائج پر کام شروع ہے۔ احتساب عدالت میں رینجرز کا آنا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بڑا بنا دیا گیا ہے۔ رینجرز تو پاکستان میں ہر جگہ موجود ہے۔ کراچی میں رینجرز ہے، کے پی کے میں بھی رینجرز ہے بلوچستان میں بھی رینجرز ہے۔ پنجاب میں بھی رینجرز آپریشن کر رہے ہیں۔ محرم میں رینجرز۔ الیکشن میں رینجرز۔ عید پر رینجرز۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں رینجرز۔ غرض ہماری سول حکومت ہر موقع پر خود ہی رینجرز کو بلاتی ہے۔

لیکن شائد ان کا احتساب عدالت میں آنا پسند نہیں آیا۔ اب جہاں تک احتساب عدالت میں آنے کا سوال ہے تو یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ایس ایس پی اسلام آباد نے رینجرز کو مدعو کیا تھا۔ اور وہ ایس ایس پی کی دعوت پر وہاں پہنچے تھے ۔ اب اگر احسن اقبال کے ذہن میں تھا کہ رینجرز کو مدعو نہیں کرنا تو شائد وہ ایس ایس پی اسلام آباد کو بتانا بھول گئے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اسی احتساب عدالت میں میاں نواز شریف کی پہلی سماعت پر میڈیا کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ خود میاں نواز شریف کو اس پر میڈیا سے اپنی پریس کانفرنس پر معافی مانگنی پڑی تھی۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو رینجرز کا احتساب عدالت آنا اتنا بڑا غیر معمولی واقعہ نہیں تھا جتنا بڑا بنا دیا گیا۔ شائد احسن اقبال اپنے آپ کو روکے جانے پر غصہ میں آگئے۔

ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب عمران خان نے دھرنا دیا تھا تب یہی فوج اور اسی رینجرز کے جوان اسلام آباد کی حساس عمارتوں کی حفاظت پر ن لیگ کی اسی حکومت نے مامور کیے تھے۔ جب عمران اور طاہر القادری کے کارکنوں نے پی ٹی وی پر حملہ کر دیا تھا تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پی ٹی وی کی عمارت اس فہرست میںشامل نہیں تھی جس کی حفاظت پر فوج کو مامور کیا گیا تھا۔ لیکن تب اسی فوج نے عمران اور قادری کے کارکنوں سے پی ٹی وی کی عمارت کو خالی کروایا تھا۔ لیکن شائد ہمیں وہ یاد نہیں اور اب احتساب عدالت میں احسن اقبال کو روکے جانے نے ایک نیا ایشو بنا دیا ہے۔ بس ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا کے مصداق سب ختم ہو گیا۔ کیا یہ درست ہے۔ کراچی میں رینجرز کی جانب سے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر پیپلزپارٹی نے بھی اتنا ہی شور مچایا تھا لیکن تب تو ن لیگ رینجرز کو کراچی سے واپس بلانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ جب کہ پیپلزپارٹی اس کے لیے تیار تھی۔

موجودہ حالات میں تو ہمیں ہر موقع رینجرز کی مدد کی ضرورت ہے۔ ہم تو کرکٹ میچ پر بھی رینجرز کو بلانے پر مجبور ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس وقت ن لیگ کی قیادت سخت غصہ میں ہے۔ خود مسلم لیگ مرکزی مجلس عاملہ سے خطاب میں میاں نواز شریف نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ وہ منافقت نہیں کرتے اس لیے یہ درست ہے کہ وہ غصہ میں ہیں۔ جب لیڈر غصہ میں ہے تو متوالوں کا غصہ میں آنا فطری عمل ہے۔

آرمی چیف کی جانب سے یک دم اسپیشل کور کمانڈر کا اجلاس بلایا جانا کوئی معمول کی کاروائی نہیں ہے۔ یہ ایک غیر معمولی عمل ہے۔ پھر اس اسپیشل کور کمانڈر کانفرنس کا سات گھنٹے طویل اجلاس بھی ایک غیر معمولی کارروائی تھی۔ شائد کسی نے محسوس نہیں کیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کور کمانڈر کانفرنس منعقد ہوتی ہے اس کے بارے میں آئی ایس پی آر سے پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے۔ پریس ریلیز چھوٹی ہو یا بڑی لیکن اس سے کورکمانڈر کے ایجنڈے اور فیصلوں کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے لیکن میرے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس طویل کور کمانڈر اجلاس کی آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی ہے۔ ویسے تو احسن اقبال کی گفتگو کے فوری بعد اسپیشل کور کمانڈر کانفرنس کا بلایا جانا غیر معمولی نہیں تھا۔ لیکن اس کے بعد اس پر مکمل خاموشی اس سے بڑی غیر معمولی بات ہے۔یہ خاموش فیصلے پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہوشیار۔

یہ درست ہے کہ کورکمانڈر کانفرنس میں آرمی چیف کا دورہ کابل پر بھی بات ہوئی ہو گی۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت پر بھی بات ہوئی ہو گی اور دیگر معاملات بھی زیر بحث آئے ہو نگے۔ لیکن قیاس ہے کہ رینجرز والا معاملہ اس کور کمانڈر کانفرنس میں زیر بحث نہیں آیا مشکل ہے۔ لیکن اس پر جو بھی فیصلہ آیا ہے وہ آگے مستقبل میں سامنے آجائے گا۔ پاکستان میں فوج اور سول حکومت کے تعلقات بھی عجیب ہیں۔ دونوںکا ایک دوسرے کے بغیر گزارا نہیں۔ نہ فوج اکیلی ملک چلا سکتی ہے اور نہ ہی سول حکومت فوج کی مدد کے بغیر ملک چلا سکتی ہے۔دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ اس لیے ملک کا وسیع تر مفاد یہی ہے کہ دونوں اکٹھے چلنے کے راستے بند نہ کریں۔ یہ دونوں اور ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔

مجھے احسن اقبال کی نواز شریف سے وفاداری پر کوئی شک نہیں ہے۔ اس پر تو کسی پر کوئی شک نہیں۔ لیکن احسن اقبال نے بطور وزیر داخلہ ایک حلف بھی اٹھایا ہوا ہے۔ انھیں اس حلف کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ دوسری طرف سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ احسن اقبال کا عدالت میں جانا کس حد تک جائز ہے۔ عدالت میں جا کر احسن اقبال نے خود کو فریق بنا لیا ہے۔ اب قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے ساتھ کیا بات کر سکتے ہیں۔ بطور وزیر داخلہ ان کا عدالت میں جانا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ نواز شریف کو اپنے ساتھیوں کو اپنے ساتھ عدالت میں لے جانے کا حق نہیں۔ لیکن وزراء کے ساتھ جانے پر سوالیہ نشان ضرور ہے۔ ن لیگ کو اپنی سیاست اور حکومت کو الگ الگ چلانا ہو گا۔ بے شک ن لیگ کے ہزاروں وفادار سماعت پر پہنچیں اور اپنے لیڈر کے ساتھ اظہار عقیدت کریں لیکن وزرا کی فوج ظفر موج کے ساتھ جانا درست نہیں ہے۔ کارکن آزاد ہیں۔ عوام آزاد ہیں ۔ لیکن وزراء تو حلف میں ہیں۔

مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ احتساب عدالت میں رینجرز کی تعیناتی اور احسن اقبال کے معاملہ نے نیوز لیکس سے زیادہ سنجیدگی اختیار کر لی ہے۔ اب دوسری طرف بھی غصہ ہے۔ جو پاکستان اور جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ احسن اقبال کی جانب سے یہ اعلان کہ معاملہ آرمی چیف کے نوٹس میں لایاجائے گا۔ فضول بات ہے کیوںکہ معاملہ ان کے نوٹس میں ہے۔ اور مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس پر فوج کسی باضابطہ اجلاس میں ایک موقف کے ساتھ سامنے آئے گی۔ جیسے نیوز لیکس کے معاملہ پر فوج باقاعدہ موقف کے ساتھ سامنے آئی تھی۔ فوج کا یہ مسئلہ ہے کہ بیان کے جواب میں بیان نہیں دے سکتی۔ اسی لیے فوج کے بیان نہیں فیصلے بولتے ہیں۔ اور ہمیں اب فیصلوں کی گونج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔