احتساب نہیں، انتخابات؟….خورشید ندیم
انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے لازم ہے کہ احتساب کے نام پر جاری عمل کو فوری طور پر روک دیا جائے، یہاں تک کہ عام انتخابات ہو جائیں اور نئی حکومت اپنی ذمہ داری سنبھال لے۔
تاثر قائم ہو چکا کہ انتخابات سے پہلے نون لیگ کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات عقلاً محال ہے کہ پاکستان کے تمام بدعنوان ایک جماعت میں پائے جاتے ہیں‘ جس طرح یہ محال ہے کہ سب نیک لوگ کسی ایک گروہ میں جمع ہیں۔ جب یہ دکھائی دینے لگے کہ اس دنیا میں لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں، ایک نیک اور ایک بد تو مان لینا چاہیے کہ یہ غیر فطری تقسیم ہے۔ اس وقت منظر کچھ ایسا ہی ہے۔ آئے دن معلوم ہوتا ہے کہ نون لیگ سے وابستہ کوئی ‘بد عنوان‘ گرفتار ہو گیا ہے یا طلب کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف لوگوں کو برأت کا پروانہ بھی جاری ہو جاتا ہے۔
کیا کسی کو عزیر بلوچ کا اعترافی بیان یاد ہے؟ کون سا جرم ہے جس کا اس نے اعتراف نہیں کیا؟ دو اور دو چار کی طرح بتایا کہ کن کے کہنے پر، اس نے قتل اور فساد جیسے جرائم کا ارتکاب کیا۔ آج وہ سب صادق اور امین ہیں اور سیاسی عمل کا فعال حصہ۔ دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جن کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کارروائی جاری ہے، یہاں تک کہ وکیل دُہائی دے رہے ہیں کہ وہ اس کارروائی کی رفتار سے چلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ سب کچھ انتخابی عمل کو مشکوک بنا رہا ہے۔
عزیر بلوچ کے اُس بیان کی کیا حیثیت ہے جو اس نے پولیس اور دوسرے اداروں کی حراست میں دیا؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے، اس لیے محض اس بیان کی بنیاد پر کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس بیان کے سامنے آنے کے بعد، کیا اس کی سچائی کو جانچنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی؟ کیا ان ناموں کو شاملِ تفتیش کیا گیا جن کا ذکر عزیر بلوچ نے کیا تھا؟ گوندل برادران کے مقدمات کا کیا ہوا؟ نیب میں ان کے خلاف جو مقدمات قائم تھے، ان کی روزانہ کی بنیاد پر کیوں تحقیق نہیں ہوئی؟ نواز شریف صاحب کے معاملے میں ہمیں فیصلے کے لیے جو عجلت دکھائی دیتی ہے، وہ دیگر لوگوں کے مقدمات میں کیوں نظر نہیں آ رہی؟
تمام سروے یہ بتا رہے ہیں کہ نون لیگ آج بھی سب سے بڑی انتخابی قوت ہے۔ اس قوت کو کچلا نہیں جا سکا۔ نواز شریف صاحب اور مریم نواز انتخابی مہم سے باہر ہیں۔ اس کے باوجود ان کے حق میں عوامی حمایت کی ایک لہر ہے جو بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ریاستی اداروں کی غیر جانب داری پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر کوئی مجرم بھی قانون کی گرفت میں آتا ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ جانب داری کا شکار ہوا ہے۔ اس لیے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ منتخب حکومت کے قیام تک، ان معاملات کو التوا میں ڈالا جائے۔
عام انتخابات میں ایک ماہ باقی ہے۔ نئی حکومت کا قیام دو ماہ کی مسافت پر ہے۔ اگر احتساب کا یہ عمل دو مہینوں کے لیے مؤخر ہوتا ہے تو اس سے آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا لیکن اگر انتخابی عمل مشتبہ ہو گیا تو یہ احتمال موجود ہے کہ آسمان ٹوٹ پڑے۔ 1977ء کے انتخابات مشکوک ہو گئے تھے۔ حزب اختلاف نے نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔ پھر ہم نے آسمان ٹوٹتے دیکھا۔ مارشل لا آیا اور گیارہ سال مسلط رہا۔
انجینئر قمرالاسلام کا معاملہ بہت سے شکوک پیدا کر رہا ہے۔ ایک دن انہیں نون لیگ کا ٹکٹ جاری ہوا اور اگلے دن وہ گرفتار ہو گئے۔ یہ سب کچھ اس بد ذوقی کے ساتھ ہوا کہ ان کے مخالف آزاد امیدوار چوہدری نثار علی خان صاحب نے بھی اسے انتخابی عمل کو متنازعہ بنانے کے مترادف قرار دیا۔ بے موقع قدم اٹھانے والوں نے چوہدری صاحب کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ چوہدری صاحب یہ انتخابات اپنے بل بوتے پر لڑنا چاہتے ہیں۔ قمرالاسلام کے خلاف اس مرحلے پر قدم اٹھا کر یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے مقتدر قوتیں چوہدری صاحب کی پشت پر ہیں۔
مجھے قمرالاسلام کی صفائی میں کچھ نہیں کہنا۔ میں ان الزامات کی حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں جو ان پر عائد کیے گئے ہیں۔ میرے لیے اہم سوال یہ ہے کہ جب ایک فرد نون لیگ کا امیدوار بنتا ہے تو اس کے عیب یک دم کیوں نمایاں ہونے لگتے ہیں؟ کرپشن کے نام پر آخر کب تک سیاست سے من پسند نتائج حاصل کیے جا تے رہیں گے؟
لوگوں کو شاید یاد نہ ہو کہ عمران خان نے جب کرپشن کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا تھا تو ان کا سب سے پہلا ہدف گجرات کے چوہدری تھے۔ اُن کو کائنات کا سب سے کرپٹ کردار ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ آج وہی چوہدری عمران خان کے انتخابی حلیف ہیں۔ تلہ گنگ میں چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریکِ انصاف نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا اور وہ نون لیگ کے مقابلے میں ان کا ساتھ دے رہی ہے۔
کرپشن کے نام پر اس ملک کو عدم استحکام کی نذر کر دیا گیا ہے۔ لوگ اندازہ نہیں کر رہے کہ شریف خاندان سے زیادہ ہمارے ریاستی ادارے اس مہم کا ہدف بن چکے۔ اب معرکہ دو سیاسی قوتوں کے مابین نہیں، نون لیگ اور ریاستی اداروں کے درمیان ہے۔ نگران حکومت کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت کوئی سیاسی قوت اقتدار کا حصہ نہیں۔ یہ عدلیہ ہو، فوج ہو یا نیب، سب ریاستی اور حکومتی ادارے ہیں۔ ملک کی باگ ڈور اب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بات کسی ملک کے لیے نیک شگون نہیں کہ ریاستی اداروں کے بارے میں سیاسی حریف ہونے کا تاثر قائم ہو جائے۔
اس تاثر کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ احتساب کے نام پر جاری عمل کو اگلی حکومت تک اٹھا رکھا جائے۔ آئیڈیل تو یہی تھا کہ ریاستی اداروں کے بارے میں یہ تاثر قائم ہی نہ ہوتا۔ بد قسمتی سے اگر ایسا ہو گیا تو پھر زیادہ ضروری ہے کہ ملک کو اس کے منفی اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ نئی حکومت قائم ہو گی تو چند ماہ میں عدلیہ میں بھی تبدیلی آ چکی ہو گی۔
الیکشن کمیشن بھی ان اداروں میں شامل ہے جو شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ پہلے تحریک انصاف اس پر تنقید کرتی تھی، آج کل دوسرے حلقے۔ میرے لیے بھی بعض باتیں کسی طرح قابلِ فہم نہیں۔ مثال کے طور پر تحریکِ انصاف کی فارن فنڈنگ کا معاملہ چار سال سے التوا کا شکار ہے۔ الیکشن کمیشن اس کا کوئی ایسا قابلِ قبول جواز پیش نہیں کر سکتا کہ اسے معرضِ التوا میں کیوں ڈالا گیا؟ کیا یہ کسی ادارے کی نااہلی نہیں کہ دوسرے عام انتخابات کا وقت آ گیا اور وہ چار سال میں یہ طے نہیں کر سکا کہ ایک سیاسی جماعت کو ملنے والے فنڈ قانون کے مطابق تھے یا نہیں؟
جب ریاستی اداروں کے ساتھ اس طرح شکوک کی آکاس بیل لپٹ جائے تو پھر ان کی جڑیں سوکھنے لگتی ہیں۔ اس وقت اہم ان اداروں کی زندگی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اس شکوک کی آکاس بیل کی گرفت سے آزاد کرایا جائے۔ احتساب کے موجودہ عمل سے ریاستی اداروں کا وقار خطرات کی زد میں ہے۔ اسے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے انعقاد تک اسے روک دیا جائے۔
عزت مآب چیف جسٹس کی اِس وقت تمام قومی معاملات پر نظر ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ اس اہم ترین معاملے پر بھی ایک نظر ڈالیں اور سوئوموٹو ایکشن لیتے ہوئے، نئی حکومت کے قیام تک، احتساب کے اس عمل کو روک دیں۔ احتساب اگر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی ایک کوشش بن گیا تو اس کے نتائج بہت سنگین ہو سکتے ہیں۔ درخواست ہے کہ 1977ء کی یادوں کو ایک بار تازہ کر لیا جائے۔