منتخب کردہ کالم

اختتام کی بھیانک شروعات ……..محمد بلال غوری

اختتام کی بھیانک شروعات ……..محمد بلال غوری

المیہ یہ ہے کہ نہ ہماری تاریخ بدلتی ہے ناں ماضی کے تاریک واقعات غیر متعلق ہوتے ہیں۔چونکہ ہمارے ہاں ماضی اورتاریخ سے کچھ سیکھنے کا چلن نہیں اس لیئے جب بھی ”پرانی شراب‘‘ نئی بوتل میں پیش کی جاتی ہے،ہم بغیر کسی توقف یا تامل کے ”ٹُن‘‘ ہو جاتے ہیں اور جب نشہ اترتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر دھوکہ ہو گیا ۔29برس ہوتے ہیں ،وزیراعظم جونیجو 29مئی 1988ء کو فلپائن کے سرکاری دورے سے واپس لوٹے ۔انہوں نے منیلا میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کے دوران دعویٰ کیا کہ پاکستان میں مکمل آئینی حکومت قائم ہے،عدالتیں آزاد ہیں اور پارلیمنٹ کو مکمل خود مختاری حاصل ہے۔بظاہر سیاسی آب و ہوا معتدل تھی اور کسی جوار بھاٹا کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔سہ پہر کے وقت پی آئی اے کا طیارہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترا تو جونیجو وزیر اعظم کی حیثیت سے مسکراتے ہوئے نمودار ہوئے۔وی آئی پی لائونج میں اخباری نمائندے ان کی بریفنگ کے منتظر تھے۔جب جونیجو اپنے دورے کی تفصیلات بیان کررہے تھے تو بعض باخبر صحافیوں کی نظریں اپنی گھڑیوں پر ٹکی ہوئی تھیں اور وہ ایک بڑے فیصلے کے منتظر دکھائی دیتے تھے شاید انہیں بتا دیا گیا تھا کہ کھیل ختم ہونے کو ہے۔وزیر اعظم اپنے کامیاب غیر ملکی دورے کی تفصیلات بتانے کے بعد رُخصت ہوئے تو اخباری نمائندے ایک اور اہم پریس کانفرنس سننے کے لیئے روانہ ہو گئے۔ایک دن بعد صدر ضیا ء الحق نے چین کے دورے پر روانہ ہونا تھا اور اس ہنگامی پریس کانفرنس کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ صدر ضیاء الحق اپنے مجوزہ دورہ چین کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے ۔لیکن جب پریس کانفرنس شروع ہوئی تو ضیا الحق نے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس کی مدد سے یہ ”تاریخی فیصلہ‘‘ صادر کرکے سب کو ششدر کر دیا کہ قومی اسمبلی کو آئین کی دفعہ 58(2b)کے تحت تحلیل کیا جا رہا ہے کیونکہ وزیر اعظم جونیجو توقعات پر پورا نہیں اترے۔
جونیجو کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نہ تھے ،سادہ طبیعت کے حامل منکسر المزاج جونیجو کا بطور وزیر اعظم انتخاب ہی یہ سوچ کر کیا گیا تھا کہ وہ کٹھ پتلی اور نمائشی وزیر اعظم کا کردار بخوبی ادا کر سکیں گے لیکن یہ وزیر اعظم کی کرسی بہت ناہنجار ،حد درجہ گستاخ اور انتہائی بے ادب واقع ہوئی ہے ۔اس پر جونیجو اور جمالی جیسے مرنجا ںمرنج اور عاجز افراد کو بھی لا کر بٹھا دیا جائے تو وہ خود کو ملک کا سربراہ سمجھنے لگتے ہیں۔جونیجو سے بھی یہی غلطی ہوئی۔20مارچ 1985 ء کی شام ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ارکان اسمبلی سے ملاقاتوں کے بعد محمد خان جونیجو کو شرف باریابی بخشا اور انہیں یہ خوشخبری دی کہ وزیر اعظم کی نامزدگی کا قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔مسٹر جونیجو کمال شان بے نیازی سے ضیا ء الحق کی باتیں سنتے رہے ۔ضیا ء الحق کے ہمدم دیرینہ جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب ”ورکنگ ود ضیاء‘‘ میں اپنی خفت کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا ہے”انہیں رسمی طور پر ہی سہی ضیاء کا شکریہ تو ادا کرنا چاہئے تھالیکن اظہار تشکر کا ایک بھی لفظ ادا کیئے بغیر انہوں نے ضیا ء سے معاً سوال کیا،جناب صدر مارشل لاء اٹھانے کا کب ارادہ ہے؟اس سردمہری اور اخلاقی بے حسی پر جنرل ضیاء بھونچکے رہ گئے ،چنانچہ روز اول سے ہی صدر اور ان کے نامزد وزیر اعظم کے مابین تعلقات کا آغاز بے مہری اورترش روی سے ہوا‘‘جونیجو نے دوسری گستاخی کا ارتکاب پارلیمنٹ سے پہلے خطاب کے دوران ببانگ دہل یہ کہہ کر کیا کہ مارشل لاء اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔وزیر اعظم کے لیئے ملٹری سیکریٹری اور اے ڈی سی کی روایت بھٹو نے ڈالی لیکن ”گاڈ فادرز‘‘ کا خیال تھا کہ یہ صرف ان کے چیف کا ہی استحقاق ہے اس لیئے جونیجو کو یہ پروٹوکول نہ دیا گیا۔ چنانچہ جونیجو کے اس مطالبے کو بھی گستاخی سمجھا گیا کہ اس نے اپنے لیئے اے ڈی سی اور ملٹری سیکریٹری کا مطالبہ کیا ۔ہر سال 23مارچ کو تینوں مسلح افواج کی پریڈ ہوا کرتی تھی جس میں جنرل ضیا ء الحق مہمان خصوصی ہوتے۔جونیجو نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی ضیاء الحق کے ساتھ شاہی بگھی میں بیٹھ کرپریڈ گرائونڈ میں داخل ہونگے اور پریڈ کا معائنہ کرنے کے بعد چاق چوبند دستے سے سلامی لیں گے۔جونیجو کی خواہش سے اس احساس کو تقویت ملی کہ یہ صاحب خود کو وزیر اعظم سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے ہیں۔ان کا یہ مطالبہ تو کسی صورت نہ مانا گیا البتہ یہ لالی پاپ دیا گیا کہ 14اگست کو ہونے والی پریڈ میں آپ کو مہمان خصوصی بنایا جائے گا۔قومی اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر ضیاء الحق نے خواجہ محمد صفدرکا انتخاب کیا تھا مگر جونیجو نے وزیر اعظم بننے کے بعد کھیل بگاڑ دیا اور سید فخر امام اسپیکر منتخب ہو گئے۔جنرل ضیا ء نے اپنی سابق کابینہ کے ارکان کو سینیٹر منتخب کروا نے کے بعد جونیجو کو حکم دیا کہ ان نومنتخب سینیٹرز کو وزارتیں دی جائیں۔جونیجو نے ضیاء کے دو چہیتوں کو تو کابینہ میں شامل کر لیا مگر ڈاکٹر اسد نامی سینیٹر کو وزیر بنانے سے معذرت کر لی ۔لہٰذا جونیجو کے خلاف چارج شیٹ میں ایک اور نکتے کا اضافہ ہو گیا۔اکتوبر 1986ء میں ضیاء الحق کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈئیر محمود علی دُرانی نے وزیر اعظم سے ملاقات کی تو انہیں، ان کے لب و لہجے سے ایک مرتبہ پھر یہ تاثر ملا کہ وہ خود کو سچ مچ وزیر اعظم سمجھ بیٹھے ہیں۔جونیجو نے کہا”میں ملک کو آئین کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہا ہوں ،اگر صدر کو یہ آئین پسند نہیں تو وہ سری لنکا کی طرز کاکوئی آئین نافذ کر سکتے ہیں‘‘ایک اور خطا یہ ہوئی کہ جونیجو نے مسلسل اصرار کر کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمان کو ان کے عہدے سے فارغ کروا دیا اور اس کے بعد سانحہ اوجڑی کیمپ ہوا تو اس کی انکوائری یعنی شیرپر سواری کرنے کی کوشش بھی کی۔یہ اقدام اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ ”گاڈ فادرز‘‘ نے اس شخص کو نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر لیا جس نے خود کو وزیر اعظم سمجھنے کی غلطی کی۔
بھلے وقتوں میں یہ کام 58(2b)کے ذریعے ہو جایا کرتا تھا ۔صدر کوئی بھی ہو اس کے کندھا استعمال کرکے یہ توپ چلائی جا سکتی تھی لیکن اب کسی گستاخ وزیر اعظم کو سزا دینے کے لیئے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ن لیگ والوں کا خیال ہے کہ184(3)کے تحت فیصلے میں 62،63کی ضرب لگائی گئی ہے۔جونیجو کی طرح نوازشریف بھی مالدیپ میں اپنے میزبانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ ملک کی عنان اقتدار منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کے ہاتھ میں ہے لیکن سرکاری دورے سے واپس لوٹے تو فیصلہ ہو چکا تھا۔سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے فیصلہ تو جمعہ کی دوپہر کو سنایا وگرنہ فیصلہ تو جمعرات کی شام ہی سنادیا گیا تھا جب چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کی اور پھرکچھ دیر بعد سپلیمنٹری کاز لسٹ سے معلوم ہوا کہ جو فیصلہ تین ججوں نے محفوظ کیا تھا وہ پانچوں جج مل کر سنائیں گے۔یوں لگتا ہے جیسے ہم دائروں میں گھوم رہے ہیں، بظاہر لگتا ہے سفر کٹ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گھوم پھر کو وہیں لوٹ آتے ہیں۔عدالت نے تو فیصلہ دیدیاہے اب ایک فیصلہ تاریخ اور عوام نے کرنا ہے اور ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عدالتوں نے جتنے بھی تاریخی فیصلے دیئے ،وہ سب کسی کی خواہش یا فرمائش کے زیر اثر تھے اور آخرکار عدلیہ کے گلے کا طوق بن گئے۔کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ،بلکہ کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے ۔بقول چرچل،نہ تو یہ انجام ہے اور نہ ہی انجام کا آغاز،یہ تو اختتام کی بھیانک شروعات ہیں۔