ہم نعرے لگانے والی قوم ہیں ۔ مزاج بھی شاعرانہ ہے۔ شاعری ہمارا مضبوط نکتہ ہے ۔ نثر میں ہم تھوڑا سا کمزور ہیں ۔ اختصار سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہمارے لئے عموماً مشکل ثابت ہوتا ہے کیونکہ جو تیاری کرنی چاہیے وہ نہیں کرتے۔ ہماری بات لمبی ہو جاتی ہے اور اس میں دہرانے کا عنصر بھی زیادہ ہوتا ہے۔
چکوال میں میرے ایک سیاسی ساتھی ہوا کرتے تھے جو تقریر کرتے ہوئے کہتے ”آخر میں…‘‘ پھر پانچ بار کہتے ”آخر میں…‘‘۔ قومی اسمبلی میں ہمار ے نامور پارلیمنٹیرین چوہدری نثار علی خان کا بھی یہی پرابلم ہے۔ اُن کی مختصر ترین تقریر بھی دو گھنٹے سے کم نہیں ہوتی۔ ایک بات کہی تو کم از کم دو تین بار دہرائی ۔ پھر وہی ”آخر میں…‘‘ جو کئی بار دہرایا جاتا ہے۔
امریکی صدور جب سال کے شروع میں سٹیٹ آف دی یونین (state of the union) خطاب کرتے ہیں تو وہ اٹھارہ بیس منٹ کے دورانیے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ہفتوں پہلے تقریر کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ تیاری میں کئی سپیچ رائٹر شامل ہوتے ہیں۔ کئی ڈرافٹ بنتے ہیں۔ بارک اوباما جیسا دانشور صدر ہو تو تقریر کی نوک پلک خود سے ٹھیک کرتا ہے۔ جن موضوعات پہ رائے زنی کرنی ہوتی ہے جامع طریقے سے اُن خیالات کو الفاظ میں سمونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فالتو الفاظ سے اجتناب کیا جاتا ہے تاکہ تقریر کا اثر کمزور نہ پڑے۔ ہمارے ہاں بھی تقریر نویس ہوتے ہیں لیکن بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ سرکاری تقریر اِس پائے کی ہو اور اظہار اُس طرز کا کہ ذہن میں رہ جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو فی البدیہہ تقریر بہت عمدہ کرتے تھے۔ بلند پائے کے مقرر تھے ۔ اُن کے سپیچ رائٹر یوسف بچ بھی عمدہ لکھنے والے تھے‘ لیکن اکثریت ہمارے لیڈروں کی ایسی ہے کہ جلسوں میں آتے ہیں، خاطر خواہ تیاری نہیں کی ہوتی، اسی لئے بات شروع کرتے ہیں تو لمبی ہو جاتی ہے ۔ لمبے پن میں وہ اَثر نہیں رہتا جو اختصار میں ہے۔
ونسٹن چرچل بلا کے مقرر مانے جاتے تھے لیکن وہ اپنی تقریروں پہ بہت محنت کرتے تھے اور آخری پراڈکٹ اُن کا اپنا ہی ہوتا تھا۔ 1940ء میں جب جرمن فوجوں کے ہاتھوں فرانس کو شکست ہو چکی تھی تو چرچل نے وہ مشہور تقریر ہاؤس آف کامنز (House of Commons) میںکی جس کے آخر میں وہ ولولہ انگیز الفاظ تھے کہ ہم میدانوں میں لڑیں گے ، ساحل پہ لڑیں گے ، ہواؤں میں لڑیں گے لیکن کبھی ہار نہیں مانیں گے ۔ چرچل کو آپ پسند کریں یا نہ کریں، جہاں اُن کے مداح بہت ہیں وہاں ناقدین کی بھی کمی نہیں ، لیکن وہ پوری تقریر اب بھی پڑھی جائے تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اُس تقریر میں اُنہوں نے پہلے جنگی صورتحال کے بارے میں بتایا اور ایک جگہ یہ بھی اعتراف کیا کہ جرمن قوم ایک بہادر قوم ہے اور پھر آخر میں وہ الفاظ کہے جن کا ذکر ابھی ہوا ہے ۔ وہ تقریر اچھا خاصا وقت لگا کے تیار کئی گئی تھی ۔ ہر لفظ اپنی جگہ پہ موزوں ہے ۔ کوئی فالتو لفظ نہیں ملتا۔ کوئی دہرائی جانے والی چیز نہیں ۔ اسی لئے تاریخ عالم میں بہترین تقریروں میں اُس کا شمار ہے۔
ابراہم لنکن کی سب سے مشہور تقریر جسے جیٹسبرگ ایڈریس (Gettysburg Address) کہتے ہیں صرف دو منٹ پہ محیط ہے ۔ جو کہنا تھا چند جملوں میںکہہ دیا ۔ نپولین کے اپنی فوج کو احکامات (Orders of the Day) ایک پیراگراف پہ مشتمل ہوتے تھے ۔ آج بھی پڑھیں تو خون کا بہاؤ تیز ہو جائے۔
نومبر 1941ء میں جرمن فوجیں ماسکو کے قریب کھڑی تھیں ۔ جرمن توپوں کی بمباری کی آواز ماسکو میں سُنی جا سکتی تھی۔ 7 نومبر کو اُن کا یوم انقلاب تھا۔ سوال پیدا ہوا کہ حالت جنگ میں اور جب جرمن فوجیں ماسکو سے اتنا قریب ہیں تو ریڈ سکوائر میں کریملن کے سامنے یوم انقلاب کے موقع پر روایتی پریڈ منعقد کی جائے یا نہیں۔ سٹالن نے فیصلہ کیا کہ پریڈ ضرور ہو گی ۔ ٹینک اور بھاری توپیں سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزریں اور وہیں سے سیدھا محاذ جنگ کی طرف روانہ ہو گئیں ۔ اُس موقع پہ سٹالن نے تقریر کی۔ روس اور کمیونسٹ انقلاب شدید خطرے سے دوچار تھا۔ سٹالن نے رُوسی تاریخ میں اہم جنگوں کا حوالہ دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم جنگ میں فاتح ہوں گے۔ اُن کی تقریر سات منٹ سے لمبی نہ تھی۔
سٹالن فنِ تقریر میں اتنے اچھے نہ تھے ۔ اُن کے برعکس ہٹلر البتہ اعلیٰ پائے کا مقرر تھا۔ اُس کی پالیسیوں سے آدمی لاکھ اختلاف کرے وہ الگ بات ہے ۔ لیکن بطورِ سیاست کے طالب علم کے اُن کی تقریروں کا مطالعہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ۔ بڑے سے بڑے موقعوں پہ اُن کی تقاریر چھ سات آٹھ منٹ یا بہت طویل ہو تو بھی دس منٹ سے لمبی نہ ہوتی تھی ۔ کوئی پارٹی لیڈر آتا تھا اور صرف ہٹلر کے نام کا اعلان کیا جاتا تھا ۔ پھر جو کہنا ہوتا، جامع طریقے سے کہہ کے ہٹلر سٹیج سے رخصت ہو جاتے اور سامعین ہاتھ سامنے اُٹھا کے ہٹلر سلیوٹ دیتے ۔ ہٹلر کی بہت ساری تقاریر یو ٹیوب پہ موجود ہیں ۔ مطالعے کے طور پہ دیکھی جا سکتی ہیں۔
شیکسپیئر کے ڈرامہ ‘جولیس سیزر‘ میں مارک اینتھنی (Marc Anthony) کی وہ مشہور تقریر ہے جو اِن الفاظ سے شروع ہوتی ہے: فرینڈز ، رومنز ، کنٹری مین (Friends, Romans, countrymen)۔ اتنی لمبی تقریر نہیں لیکن کیا کمال کا اَثر رکھتی ہے۔ بڑے بڑے اداکاروں نے سٹیج یا فلموں میں اس تقریر کو ادا کیا ہے‘ لیکن اِس تقریر کی ادائیگی میں عظیم امریکن اداکار مارلن برینڈو (Marlon Brando) کے قریب کوئی نہیں پہنچتا۔
11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے سامنے جناح صاحب کی مشہور تقریر فی البدیہہ اور بغیر کسی تحریر کے تھی ۔ لیکن کیا جامع انداز تھا۔ کوئی نکتہ دہرایا نہیں گیا ۔ جو کہنا چاہتے تھے‘ صاف اور آسان لفظوں میں کہہ دیا ۔ اُس سے معنی خیز خطاب ہماری تاریخ میں نہیں ملتا‘ یہ الگ بات ہے کہ مذہبی حلقوں کے سامنے اِس تقریر کے مندرجات کا حوالہ دیا جائے تو اُن کے گال غصے سے سرخ ہو جاتے ہیں ۔ اہل منبر و محراب کو وہ تقریر ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔
عطا اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری الگ قسم کے مقرر تھے۔ گھنٹوں بول سکتے تھے اور سامعین کی توجہ ذرہ برابر بھی نہ ہٹتی ۔ لیکن لوگ اُنہیں سُننے کے لئے ایسے ہی آتے تھے‘ جیسے کسی بڑے فنکار کو دیکھنے آئے ہیں ۔ سیاسی پیغام سے زیادہ مقصد محظوظ ہونا ہوتا تھا۔ اسی لئے عطا اللہ شاہ بخاری نے ایک بار کہا کہ سُننے مجھے آتے ہو اور ووٹ کسی اور کو دیتے ہو۔ 1964ء کی صدارتی مہم‘ جس میں مادرِ ملت فاطمہ جناح فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف کھڑی تھیں، اہم کردار انقلابی شاعر حبیب جالب کا تھا۔ مادرِ ملت کے جلسوں میں عوام حبیب جالب کی پُرسوز آواز میں اُن کی نظمیں سُن کے عجیب کیفیت میں ہو جاتے تھے۔ لیکن 1970ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے لئے نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر وہ کچھ زیادہ ووٹ نہ لے سکے ۔ سیاست کے رموز الگ معنی رکھتے ہیں ۔
البتہ یہ بات سند کا درجہ رکھتی ہے کہ سیاست میں پیغام جتنا مختصر اور واضح ہو اِتنا ہی اثر رکھتا ہے ۔ 1970ء کے انتخابات کا ہنگام گزر چکا لیکن پیپلز پارٹی کا نعرہ… روٹی ،کپڑا اور مکان… اب بھی ذہنوں میں گونجتا ہے ۔ مشرقی پاکستان بننے کا ہنگام بھی گزر چکا لیکن شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی بازگشت آج بھی سُنی جا سکتی ہے ۔ نکات تھوڑے ہوں یا زیادہ اس انداز میں ہونے چاہئیں کہ ذہنوں میں گھر کر جائیں۔