اداروں کی لوٹ سیل…عندلیب عباس
اگر آپ چلا نہیں سکتے تو بیچ دیں، اگر آپ بندوبست نہیں کرسکتے تو کسی اور کے ساتھ ضم کردیں، اگر آپ بہتر نہیںکر سکتے توبدتر کردیں، اگر آپ سنبھال نہیں سکتے تو خراب کردیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نج کاری کے جادوگروں اور ماہرین کے پاس یہی نسخہ مستعمل ہے ۔ سرکاری شعبے میں چلائے جانے والے کاروباری اداروں کی حالت کبھی بھی حوصلہ افزا نہیں رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں مزید خرابی آتی جارہی ہے ۔ لیکن جب مشیر برائے مالیاتی امور، مفتاح اسماعیل غیر سنجیدگی سے بیان دیں کہ اگر کوئی پی آئی اے خرید لے تو اُسے پاکستان اسٹیل بھی ساتھ مفت میں دے دی جائے گی، تو اس پر سنجیدہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر یہ مذاق تھا تو بھی گہرے مضمرات کا حامل ہے ۔ اگر یہ با ت زبان سے بلاارادہ پھسل گئی تو خطرنا ک ہے ۔ ایسی باتیں پالیسی سازوں کے فکری الجھائو کا بے ساختہ اظہار ہوتی ہیں۔ یہ بیان ان اداروں کی خرابی کا کوئی حل نکالنے میں مکمل ناکامی کا اعتراف ہے ۔ یہ سرکاری شعبے میں کسی احتساب اور پیشہ ورانہ مینجمنٹ کی تباہی کو سرجھکاتے ہوئے تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
سرکاری شعبے میں چلنے والے کاروباری ادارے سفید ہاتھی ثابت ہوتے ہوئے معاشی وسائل کے مسلسل زیاں کا باعث بن رہے ہیں۔وزیر برائے نج کاری دانیال عزیز کے مطابق ان کاروباری اداروں کو چلائے رکھنا ناممکن ہوچکا ہے ۔ یہ ٹیکس دھندگان کے سالانہ 700 بلین روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ان کا حل یہ ہے کہ کوئی خریدار تلاش کریں اور ان سے جان چھڑائیں، لیکن انہیں اونے پونے نہ بیچ دیں۔ مفتاح اسما عیل کی پاکستان اسٹیل ملز کو کوڑیوں کے دام دینے کی پیش کش اسی سوچ کی غمازی کرتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ ریاستی ادارے اس نہج تک کیسے پہنچے کہ یہ کاٹھ کباڑ بن گئے جبکہ کبھی پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے منافع کمانے والے ادارے تھے۔
زیادہ تر سیاسی جماعتیں سرکاری شعبے میں چلنے والے کاروباری اداروں کے بارے میں دہری پالیسی رکھتی ہیں۔ جب وہ حکومت میں ہوں تو ان پر اٹھنے والے بھاری اخراجات پر آہ و زاری کرتی ہیں کہ کس طرح ان پر ٹیکس دہندگان کی رقم ضائع ہورہی ہے ، اور وہ انہیں نجی شعبے کے ہاتھ فروخت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دوسری طرف جب یہی جماعتیں اپوزیشن میں ہوں تو وہ ان کی نج کاری کے تصور کی بھرپور مخالفت کرتی ہیں ۔ اُن کا موقف ہوتا ہے کہ ا س کی وجہ سے ہزاروں افراد کی ملازمتیں ختم ہوجائیں گی ۔ موقف کا یہ دہرا پن موجودہ حکومت کی فعالیت سے بھی عیاںہے ۔ اس نے اپنے منشور میں ان اداروں میں بہتری لانے کا ایک مختلف منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس منشور پر ایک نظر ڈالنے سے 2013 ء میں موجودہ حکومت کے اس عزم کا پتہ چلتا ہے ۔۔۔” پی آئی اے، پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز اور واپڈا جیسے اداروں کو انتظامی ڈھانچے کی مضبوطی اور نج کاری کے ذریعے بہتر بنایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے آزاداور پیشہ ور بورڈز کو تعینات کیا جائے گا، جو ماہرسی ای اوز تعینات کریں گے ۔ یہ تقرریاں صرف اور صرف پیشہ وارانہ مہارت اور صلاحیت کی بنیاد پر کی جائیں گی۔ ‘‘
اگر ہم ان اداروں کی بہتری کے لیے کبھی کوئی عظیم منصوبہ بنانا چاہے تھے تو اس کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتوں، خاص طور پر پی ایم ایل (ن) کے منشور کا جائزہ لیں۔ پالیسی اعلامیہ اور منصوبہ سازی بہترین ، لیکن عملی اقدامات ان سے لگا نہیں کھاتے ۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ چار یا پانچ برسوں کے دوران اُنھو ںنے اپنے اعلان کردہ منشور کے بالکل برعکس کام کیا ہے۔ پیشہ وربورڈ ز کا کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دیا، او ر سی ای اوز کی تعیناتی حکومت کے بااثر افراد کی منشا اور مرضی سے ہوئی۔پی آئی اے سے لے کر پی ٹی وی تک، چیئرمین او ر سی ای اوز کی تعیناتیاںایک خوفناک کہانی سناتی ہیں۔ پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی باقاعدہ تشہیر کے بغیر عمل میں لائی گئی، اور ایک صبح اعلان کیا گیا کہ ایک جرمن Bernd Hildebbrandt کو سی او او ، اور پھر سی ای او تعینات کردیا گیا ہے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ صاحب بمشکل ہی گریجوایٹ ہیں، اور اُن پر اسلام آباد ، لندن سروس ، جو ناکام ثابت ہوئی، میں اربوں روپے کی بدعنوانی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا، لیکن تعجب ہے کہ وہ پی آئی اے کا ایک طیارہ لے کر ملک سے فرار ہوگئے۔ سٹینڈنگ کمیٹی برائے مالیاتی امور ابھی تک جرمنی کے کسی عجائب گھر میں اس طیارے کو تلاش کررہی ہے۔
پی ٹی وی کے چیئرمین کی تعیناتی مزید شرمناک ہے ۔ اُنہیں وزیر ِاعظم نے تمام قانونی لوازمات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ذاتی طور پر تعینات کیا تھا۔ موصوف کی تنخواہ اور دیگر مراعات کی مد میں وصول کی جانے والی رقم کی گنتی ستائیس کروڑ تک پہنچی ہے ، لیکن تاحال اُن سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی ۔ اُنھوںنے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود کو پی ٹی وی کا ایم ڈی بھی مقرر کرلیا تھالیکن میڈیا کے دبائو کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
پارٹی کا منشور صرف یہ خدوخال واضح نہیں کرتا کہ کیا کرنا ہے، بلکہ یہ بھی کہ کس سے گریز کرناہے ۔ یہ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ ان اداروں میں سیاسی مداخلت کوکسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا، نیز کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے باقاعدہ جانچ پڑتال کی جائے گی ۔ لیکن عملی طور پر کسی بھی ادارے کی کارکردگی کی جانچ اُس وقت ہوتی ہے جب بجٹ پیش کیا جاتا ہے یا کوئی بڑا اسکینڈل سراٹھاتاہے ۔ پاکستان اسٹیل ملز اس وقت ایک آسیب زدہ مل ہے جہاں احتجاج کرتے ہوئے مزدور اور پنشنر ہر ماہ اپنی تنخواہوں ، یا کسی اور معاونت کے منتظر ہوتے ہیں۔ حکومت کی بے حسی اور لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ اب کوئی بھی اس معاملے کو چھیڑنا نہیں چاہتا۔ وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ حکومت کو کی جانے والی پیش کش کو مسترد کردیا گیا۔
پی پی پی کے عثمان فاروقی ، جنہوں نے پاکستان اسٹیل ملز پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا، پر نیب کیس تھالیکن وہ بدنام ِ زمانہ این آر او کے ذریعے بچ نکلے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 2007-08 میں دس بلین روپے نفع کمانے والا ادارہ اس نہج تک کیسے پہنچا۔ مختلف حکومتوں کی بدعنوانی اور نااہلی کی وجہ سے اس کا 2017 میں خسارہ اور واجب الادا رقم 450 بلین تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس نقصان کو روکنے کی کوشش دکھاوے کے طور پر بھی نہیں کی جارہی ۔ پاکستان اسٹیل ملز کا دس رکنی بورڈ اس وقت صرف چار ممبران پر مشتمل ہے ۔ اس کے ڈائریکٹوریٹس میں سات کی بجائے صرف دو افراد کام چلا رہے ہیں، اور اس کا کوئی مستقل چیف ایگزیکٹو آفیسر نہیں ہے ۔ اگر چہ نیب انکوائری کررہا ہے ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سٹیل مل کباڑے خانے میں ہی جائے گی۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریاست کے کاروباری اداروں کی بظاہر خستہ حالی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ہے ۔ وہ ماضی میں چند اداروں کی نج کاری کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ ان اداروں کو غیر فعال ظاہر کرتے ہوئے نہایت کم قیمت پر فروخت کردیا گیا۔ اب نئے مالکان انہیں نہایت نفع بخش طریقے سے چلارہے ہیں۔ اس مقام پر قواعد وضوابط میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ اگر شیئرز کو رعایتی نرخوں پر فروخت کرنا”انسائیڈر ٹریڈنگ ‘‘کہلاتا ہے تو کوڑیوں کے دام فروخت کے لیے ”انسائیڈر سیلنگ ‘‘ کی اصطلاح درکار ہوگی ۔ سکیورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان جیسی ریگولیٹری اتھارٹیز کو ایسے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ایسی طے شدہ مالیاتی ڈیلز کی روک تھام کرسکیں۔ لیکن اگر ریگولیٹر کو خود ہی درست کرنے کی ضرورت ہو، توپھر آسمانی طاقتیں ہی قومی وسائل کی لوٹ سیل کو روک سکتی ہیں۔