منتخب کردہ کالم

ادھر بڑا سکون ہے! .. کالم حسنین جمال

ادھر بڑا سکون ہے! .. کالم حسنین جمال

بہت زیادہ نہیں لیکن چند مرتبہ ملک سے باہر جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ یار قسم سے موت پڑ جاتی ہے۔ آپ نے فلائیٹ سے کم از کم ڈھائی گھنٹے پہلے پہنچنا ہے۔ اس کا مطلب ساڑھے تین گھنٹے پہلے گھر سے نکل جائیں‘ اور یہ وقت بھی تب ممکن ہو گا جب آپ پانچ گھنٹے پہلے نیند پوری کر چکے ہوں۔ اکثر باہر کی فلائیٹیں بہت الٹے وقت کی ہوتی ہیں۔ رات دو بجے، صبح پانچ بجے یا کچھ بھی ایسا ہی ٹائم ہو گا۔ اب صبح پانچ کا سیدھا سیدھا یہ سمجھیے کہ رات کالی ہو گئی۔ نہ سو سکتے ہیں نہ جاگ سکتے ہیں۔ جیسے تیسے ائیرپورٹ پہنچ جائیں۔ وہاں ایک اور عذاب ہے۔ کم از کم آٹھ دس کاؤنٹر پار کرنے ہیں۔ ہو گئے، یہ بھی ہو گئے۔ اڑ گئے آپ، اب چار گھنٹے سے زیادہ کی فلائٹ ہے تو ناک ڈرائے ہونا شروع ہو جائے گی، پھر عجیب سی بوریت ہو گی، ایک آدھ گھنٹہ سو مر لیے، اب شوقین ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ سوکھی سکرین سامنے کریں اور دیکھتے رہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے، چلے گا۔ لینڈنگ ہو گئی۔ اب پھر امیگریشن کی ایک لمبی لائن ہے۔ تین چار گھنٹے تک وہ سزا کاٹیں اس کے بعد کہیں ولایت میں اترنے کا پروانہ ملے گا۔ اس سے بہتر بندہ یہاں نہیں ہے؟ دفتری کام کے علاوہ آپ کچھ بھی کرنے باہر جائیں پچیس برس کی عمر تک چلتا ہے، اس کے بعد بیٹری فارغ ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ وہ تجسس مر جاتا ہے جو نوجوانی کا ہوتا ہے۔ خیر یہ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے۔ فقیر قدرتی طور پہ سڑیل واقع ہوا ہے۔
رمشا اشرف بڑی زبردست انگریزی شاعر ہیں۔ مشکل والی زبان میں شاعری کرتی ہیں۔ جو گھٹن‘ جو تکالیف اپنے آس پاس بحیثیت ایک خاتون انہیں نظر آتی ہیں، وہ اس کا اظہار شاعری میں کر دیتی ہیں۔ ایک بین الاقوامی پروگرام کے تحت باہر گئیں، کافی عرصہ لگا کے، مزید پیچیدہ انگریزی سیکھ کے آ گئیں۔ قسمت سے کل ریڈنگز پہ زاہد ڈار اور اکرام اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ابھی ایک آدھ گھنٹہ بات ہوئی تھی کہ رمشا وہاں آ گئیں۔ مزے کی نشست رہی۔ سب سے زبردست سین یہ تھا جب ان سے پوچھا کہ بھائی خدا خدا کرکے گئی تھیں، واپس کیوں آ گئیں؟ کہنے لگیں، ”یار وہاں جا کے ساری شاعری سارا آرٹ بے مقصد ہو جاتا ہے۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آتا، کوئی پابندی ہی نہیں ہے تو بندہ لکھے گا کیا؟ وہاں بات کرنی ہوتی ہے تو وہ لوگ سپیس دے دیتے ہیں، احتجاج کرنا ہوتا ہے تو جگہ مل جاتی ہے، شور مچانا ہوتا ہے تو کہتے ہیں آؤ بھئی، جو کرنا ہے کر لو، تو جب کتھارسس ہو گیا، اندر کوئی بات رہ ہی نہیں گئی تو کدھر کی شاعری اور کہاں کا ادب؟ ہر چیز اتنی زیادہ قانون کے دائرے میں ہے کہ الجھن ہونا شروع ہو جاتی ہے، وہاں تو احتجاج تک کرنے کا مزہ نہیں آتا، تو بس پھر میں آ گئی‘‘۔ اس بات پہ اپنی ٹیوب لائٹ ایک دم جل گئی، واقعی بہت بڑا مسئلہ حل ہو گیا۔
ہوتا یہ تھا کہ یہ تو جیسے تیسے تین چار ماہ کاٹ آئیں مجھے چوتھے دن غش پڑنا شروع ہو جاتے تھے کہ بس بھئی اب واپس نکل لو، بہت ہو گئی، وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔ یہ لگتا تھا کہ جس شہر میں سکائے لائن تک صاف نہ ہو، آسمان کی جگہ بلڈنگز ہی بلڈنگز ہوں وہاں کتنا رہا جا سکتا ہے۔ تو عمارتوں کے سر پہ قصور لاد کے فقیر ٹکٹ کٹا لیتا تھا، بلکہ اکثر تو پہلے ہی پانچویں دن کی روانگی طے ہوتی تھی۔ بات ادھر بیٹھے بیٹھے سمجھ میں آئی کہ معاملہ کچھ اور تھا۔ واقعی وہاں زندگی اس قدر مشینی ہوتی ہے، ہر چیز ایسی پلانڈ ہوتی ہے کہ انسان روبوٹ نما محسوس کرتا ہے۔ یار آپ پیدل جا رہے ہیں اور آپ کے لیے بھی سبز بتی جلے گی تو آپ سڑک کراس کریں گے، یہ کوئی بات ہے؟ کہیں سڑک پہ ریپر گرے ہوئے نظر نہیں آ رہے، سگریٹ تک پینے کو سو دفعہ سوچنا پڑ رہا ہے کہ بھئی کہیں پابندی نہ ہو، کوئی مرد کسی جاتی عورت کو گھور کے نہیں دیکھ رہا، ساحل سمندر پہ بھی اپنے گرائیں آنکھیں سینکتے نظر آتے ہیں، حرام ہے جو کوئی ان کا بندہ اپنی طرح فل کپڑوں میں بیچ پہ آنکھیں پھاڑے گھوم رہا ہو۔ عجیب بے کار لوگ ہیں۔ ٹیکسی والا بات نہیں کرتا، نائی بھی چپ رہنے کے شوقین، لفٹ والا ٹپ نہیں مانگتا، بھکاری لوگ پتہ نہیں کہاں ہوتے ہیں، یا نہیں ہوتے، نہ کوئی نہاریاں نہ پائے نہ تلی ہوئی مصالحے دار مچھلی، کچھ بھی نہیں ہوتا، شوارما تک عربی ویسا نہیں بناتے جیسے اپنے والے ساٹھ روپے میں پکڑا دیتے ہیں۔ یقین کر لیں وہ جو بابر نے کہا تھا، سو فیصد ٹھیک تھا کہ جنت اگر کہیں ہے تو بابو ادھر ہی ہے۔ بالکل یہاں جہاں آپ دھوپ سینکتے ہوئے اخبار پڑھ رہے ہیں۔ سوچیں، اندازہ لگائیں، جہاں کسی دھماکے کی خبر نہ ہو، کوئی دنگا فساد نہ ہو، گھر کے اندر یا گھر سے باہر، دونوں جگہ نکلنے میں کوئی خطرہ نہ ہو، کسی سے بچنا نہ ہو، کوئی دھڑکا نہ ہو، ٹریفک تک منحوس لائنوں میں رینگ رہی ہو ادھر بندہ کتنا زندہ رہ سکتا ہے؟ کتنا کری ایٹو ہو سکتا ہے؟ نہ کوئی ٹینشن ہے نہ کوئی پابندی ہے، یار دل کرے تو جا کے ڈانس بھی کر آئیں، ساری مستی ختم؟ تو ایسے میں واقعی ادب، شاعری، کالم، بلاگ کہاں سے اترے گا؟
اپنے ملک میں بڑی موج ہے بھائی! قسم سے، جو مرضی کر لیں، مجال ہے کوئی پوچھ لے۔ سڑک کی فاسٹ لین میں گاڑی چالیس کی سپیڈ پہ چلائیں، پیچھے والا ایک آدھا ہارن دے کے آرام سے ادھر ہو کے نکل جائے گا، نمبر پلیٹ اتار کے گھومیں، گاڑی ٹرانسفر نہ کرائیں، برسوں پہلے مالک کے نام پہ چلتی رہے، شاہی قلعے میں جا کے مارکر سے دیواروں پہ امجد + صبیحہ لکھ دیں، مسجد وزیر خان میں نمازیوں کی فوٹو بنائیں، میناروں کے اندر سے اینٹیں چرا لیں، سڑک پہ لچھے کھا کے شاپر پھینکیں، پان کی پیک تھوکیں، چیونگم یا کیلے کا چھلکا بھی راستے میں بچھا دینا مباح ہے۔ کچھ بھی کر لیں استاد کوئی نہیں روکنے والا۔ ایسی آزادی کہاں ملتی ہے؟
آن اے ویری سیریس نوٹ، ہم لوگ دنیا کی خوش قسمت ترین قوم ہیں۔ ہمیں بجلی‘ گیس‘ پانی کے بغیر رہنا بھی آتا ہے۔ ہمارے مستری 1970ء کی گاڑی کو زیرو میٹر بنا سکتے ہیں۔ ہم پچاس روپے میں بال کٹوا سکتے ہیں۔ ہم چالیس روپے کے بارہ کیلے خرید سکتے ہیں۔ مہنگے سے مہنگا سگریٹ دو ڈھائی سو میں آ جاتا ہے (باہر چودہ پندرہ سو میں بھی پڑتے ہیں)، تیس روپے میں اخبار پڑھتے ہوئے شیو بنوا سکتے ہیں، بیس کے پکوڑے اور دس کے نان سے پیٹ بھر سکتے ہیں، لنڈے سے تین سو روپے میں بابو بن سکتے ہیں، گرما گرم روٹی آٹھ روپے میں خرید کر مفت کا نمک لگا کے کھا سکتے ہیں، دس بارہ روپے کا پان مل جاتا ہے، بیس روپے کی چائے پی سکتے ہیں، عرب جیسی گرمی، کینیڈا جیسی سردی اور لندن جیسی منحوس مسلسل بارش ہمارے یہاں نہیں ہوتی، نئے 150 گانے تیس روپے کی سی ڈی پہ مل جاتے ہیں، نیا موبائل چارجر ڈیڑھ سو روپے کا مل جاتا ہے۔ اچھی سے اچھی جینز ایکسپورٹ کوالٹی مال میں چار پانچ سو کی مل جاتی ہے، اور کیا چاہئے بھائی؟ جان لیں گے کیا؟
اپنے لوگ بھی بہت اچھے ہیں۔ ادھر باہر کوئی راستہ تک نہیں سمجھا سکتا، وہ بس آپ کو ٹیکسی، بس، سب وے کا بتا دیں گے، یا پھر گوگل زندہ باد، ادھر والوں کی طرح کھڑے ہو کے فراغت سے ٹکر پہ سیدھے ہاتھ مڑنے کی بات کوئی نہیں سمجھائے گا۔ ایکسیڈنٹ ہو جائے، مجال ہے جو کوئی وہاں رکے، ایمبولینس ضرور ترنت آ جائے گی لیکن یار وہ جو چالیس گاڑیاں آپ کے لیے رک جاتی ہیں وہ پروٹوکول بھی ادھر نہیں ملے گا۔ کچھ بھی نہیں ہے‘ قسم سے کچھ نہیں ہے۔ ایویں گلاں ای بنیاں نیں۔ ایک آدھ بار پھیرا مار آئیں، ارمان نہیں رہنا چاہئے لیکن اگر آپ پاکستان میں تھوڑا سا بھی کما رہے ہیں تو اسے کم از کم دس سے ضرب ملنے کا چانس ہو تو باہر جائیں ورنہ یقین کر لیں ادھر بڑی عیاشی ہے، بڑی آزادی ہے، بڑی زندگی ہے، بڑی ہلچل ہے، بڑا سکون ہے


اگلا کالم
..