منتخب کردہ کالم

استعفے…؟…رئوف طاہر

پی ایس ایل فائنل اور کراچی!.

استعفے…؟…رئوف طاہر

زیادہ دن نہیں گزرے‘ ٹی وی چینلز کے کروڑوں ناظرین نے دیکھا‘ شیخ نے جیب سے ”استعفیٰ‘‘ نکالا اور اسے لہراتے ہوئے کہا‘ میں اس پارلیمنٹ پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہوں‘ تین بار پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کے بعد ”اس جمہوریت‘‘ پر لعنت بھیجی‘ پھر یہ سوغات وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے نام کی۔ عمران خاں سے اس کا مطالبہ تھا کہ وہ بھی استعفیٰ دے۔ حاضرین سے کہا‘لاٹھیاں اٹھائو‘ نیزے اٹھائو اور جاتی امراء کا رخ کرو۔ خان کو بھی اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے سے اتفاق تھا ”جس نے ایک مُجرم کو پارٹی کا سربراہ بنانے کا قانون منظور کیا‘‘ خان نے وعدہ کیا کہ اپنی پارٹی کا اجلاس بلا کر استعفوں کی تجویز پر غور کریں گے۔
ایک دوست نے استفسار کیا‘ کیا شیخ واقعی سیریس ہے؟ ہمارا جواب تھا‘ دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے‘ لیکن ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو یہ بھی ایک اور ڈرامہ لگتا ہے…یہ حقیقت ہو سکتا تھا اگر سامنے جی پی او چوک تک‘ اور اطراف میں کوئنز روڈ‘ بیڈن روڈ‘ ٹیمپل روڈ اور ہال روڈ پر انسانوں کا جم غفیر ہوتا۔ یہاں تو خالی کرسیاں ہیں ۔طاہر القادری سے قربت اور اعتماد کا رشتہ رکھنے والے ایک دوست سے چند روز قبل ہم نے استفسار کیا تھاکہ ”شیخ الاسلام‘‘ کہاں تک جا سکتے ہیں؟”جاتی امراء یا کم از کم ماڈل ٹائون کی رہائش گاہوں کی طرف ”مارچ‘‘کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ظاہر ہے اس صورت میں قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے لاتعلق نہیں رہیں گے‘ شہدائے ماڈل ٹائون کا خون رنگ لے آئے گا اور ”گاڈ فادر II ‘‘ کی بھی چھٹی ہو جائے گی۔ لیکن اگست 2014ء کے دھرنوں والی تاریخ نے خود کو دہرایا…تب بھی ہم نے محرمِ رازِدرونِ خانہ سے پوچھا تھا‘ امپائر نے انگلی کھڑی کیوں نہ کی؟…”مطلوبہ تعداد میں بندے جمع نہیں کئے جا سکے تھے‘‘ ۔شریفوں سے بیزار ہمارے دوست کے لہجے میں مایوسی نمایاں تھی۔ اللہ مغفرت کرے‘ ہمارے وژنری جرنیل (جنہیں پیر صاحب پگاڑا مرحوم‘‘ فاتح جلال آباد‘‘ کہتے) فرمایا کرتے تھے کہ پچاس ہزار لوگ اسلام آباد اور پنڈی میں جمع ہو جائیں تو پولیس ناکام ہو جائے گی‘ تعداد ایک لاکھ ہو گئی تو فوج گولی چلانے سے انکار کر دے گی… اور تبدیلی آ جائے گی۔دھرنوں کے دنوں میں ایک تقریب میں جاوید ہاشمی سے فرمایا‘ آخری وقت آ پہنچا۔ شاید یہ آخری رات ہو… ہاشمی نے ہاتھ جوڑدئیے ‘رحم کریں‘ بیچاری جمہوریت کو کچھ مہلت اور دے دیں۔تو کیا اب 17 جنوری کی شب بھی وہی ہوا‘ بندے پورے نہ ہوئے… اُدھر خان کنٹینر پر زرداری کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہ تھا۔پارلیمنٹ پر لعنت نے فاصلے مزید بڑھا دیئے۔ اگلے روز پارلیمنٹ میں وہی دھرنوں کے دنوں جیسا منظر تھا‘ ۔تب پیپلز پارٹی جمہوریت کیخلاف سازش کو ناکام بنانے کے لئے پرعزم تھی اور اب قائد حزب اختلاف پارلیمنٹ کیخلاف بدزبانی کرنے والوں کے منہ میں خاک ڈال رہے تھے…
شیخ نے پارلیمنٹ ہائوس جا کر استعفیٰ جمع کرانے کی بجائے اگلے روز دبئی کا رُخ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ طبیعت ناساز ہے‘ استعفے کی بات وہ واپسی پر کرے گا… دبئی میں شوکت خانم کیلئے فنڈ ریزنگ گالا تھا۔ کسی ستم ظریف نے پھبتی کسی‘ فنڈ ریزنگ محض بہانہ ہے‘ اصل مقصد آئندہ لائحہ عمل کیلئے پرانے حکمت کار سے مشورہ اور رہنمائی ہے (ایک ریٹائرڈجنرل ‘ جو ان دنوں متحدہ عرب امارات میں کسی اہم ڈیوٹی پر ہیں، 2012ء کے اوائل میںجب خان کی تحریک انصاف بھرپور اڑان پر تھی‘ چوہدری برادران‘ جنرل کیانی کے پاس ان کیخلاف باقاعدہ شکایات کا انبار لے کر پہنچے۔ تب جنرل سے قربت کے دعویداروں کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کے مداح ہیں‘ اور انہیں صدر زرداری کے سامنے بھی اس کے اظہار میں تامل نہیں ہوتا۔)
دبئی میں اخبار نویسوں کے استفسار پر شیخ نے جواب دیا‘ یہ ایسا استعفیٰ نہیں کہ چپکے سے جا کر جمع کروا دیں‘ وہ اپنے حلقے میں جلسہ کریں گے اور اس کے بعد ہزاروں افراد کے ساتھ استعفیٰ پیش کرنے جائیں گے اور تازہ فرمان کے مطابق‘ استعفیٰ مریل اور بے جان ہو چکا۔ مزید یہ کہ خان نے منع کر دیا ہے اور یہ بھی کہ اس ایک استعفے سے کیا فرق پڑے گا؟مزید فرمایا‘ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے‘ جب چاہوں‘ دیدوں گا… فرزند لال حویلی بھول گیا کہ خلقِ خدا کے سامنے اعلان کرنے کے بعد یہ اس کا ذاتی معاملہ نہیں رہا… پھر اس نے راز کی بات بھی کہہ دی‘ 31 جنوری کے بعد استعفیٰ دوں گا‘ تاکہ یہاں ضمنی انتخاب نہ ہو سکے…ہمیں یقین ہے کہ شیخ 31 جنوری کے بعد بھی استعفیٰ نہیں دے گا‘ وہ اپنے ”شیخ‘‘ ہونے کی یاد دہانی کراتا رہتا ہے‘ جسے اپنے ایک ایک پیسہ کا خیال رہتا ہے‘ وہ 31 مئی تک قومی اسمبلی کی تنخواہ اور دیگر مراعات سے محروم کیوں ہو؟
ضمنی انتخابات کے حوالے سے شیخ کا تجربہ ویسے بھی بہت تلخ رہا ہے۔ اکتوبر 2002ء کا الیکشن اس نے پنڈی کے دو حلقوں (این اے 55 اور 56 ) سے آزاد امیدوار کی حیثیت میں لڑا۔ لاہور کے ایک بزرگ ایڈیٹر کی زبردست خواہش پر میاں صاحب شیخ کو شاید پارٹی ٹکٹ دینے پر آمادہ ہو جاتے لیکن پنڈی کے کارکنوں کی مزاحمت بہت شدید تھی۔ جلاوطنی سے قبل میاں صاحب جیل میں تھے اور بیگم صاحبہ ڈکٹیٹر کیخلاف مہم میں سڑکوں پر ۔ وہ پنڈی پہنچیں تو شیخ نے اخباری بیان میں جن الفاظ کے ساتھ ان کا ”خیرمقدم‘‘ کیا‘ میاں صاحب کے وفادار کارکن انہیں فراموش نہ کر پائے تھے۔ آزاد امیدوار کے طور پر شیخ کی حکمت عملی زبردست تھی‘ ”مجھے ووٹ دو‘ میں یہ دونوں نشستیں میاں صاحب کے قدموں میں ڈال دوں گا‘‘…لیکن جیتنے کے بعد شہر والوں کا مینڈیٹ وزارت کے عوض مشرف کی جھولی میں ڈال دیا اور اس بے وفائی کی قیمت حلقہ 56 میں اپنے بھتیجے کی حنیف عباسی کے ہاتھوں شکست کی صورت میں ادا کی۔ فروری 2008ء کے انتخابات میں وہ این اے 55 اور56 میں جاوید ہاشمی اور حنیف عباسی کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ این اے 55 کے ضمنی انتخاب (2010)میں اسے شکیل اعوان کے ہاتھوں شکست کا سامنا تھا حالانکہ اب اسے پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔ وہ ہر شب اپنی انتخابی مہم کا آغاز بینظیر بھٹو کی یادگار پر حاضری سے کرتا…مئی 2013ء کا انتخاب اس نے پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتا اور 2018ء میں بھی اس کا واحد سہارا عمران خان اور اس کی پی ٹی آئی ہے۔
بنی گالا میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد خاں کا دعویٰ تھا کہ ارکان اسمبلی نے استعفے اس کے پاس جمع کرا دیئے ہیں‘ لیکن داوڑ کنڈی نے تردید میں تاخیر نہ کی۔رکن قومی اسمبلی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ خٹک نے بھی معذرت کر لی ہے… اور یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے‘وزیراعلیٰ ‘ان کی کابینہ اور پارلیمانی پارٹی اپنی آئینی مدت کے آخری چار ماہ بھی کیوں “Enjoy” نہ کریں‘ خصوصاً اس صورت میں کہ گزشتہ ساڑھے چار سال میں بیشتر عرصہ ”سیاست‘‘کی نذر ہو گیا۔ ایک انٹرویو میں خود خان کے منہ سے سچی بات نکل گئی تھی‘ خدا کا شکر ہے‘ وفاق میں ہماری حکومت نہ بنی ورنہ یہاں بھی کے پی والا حشر ہوتا۔ دہشت گردی کی جنگ میں کے پی پولیس کی قربانیاں اپنی جگہ لیکن عام آدمی کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے حوالے سے مخالفین مردان یونیورسٹی میں مشال خاں کے بہیمانہ قتل (مقتول کے والد گزشتہ دنوں لندن میں انصاف کی دہائی دے رہے تھے) ڈیرہ اسماعیل خاں میں حوا کی ایک بیٹی کو سرعام برہنہ گھمانے اور مردان کی کمسن عاصمہ کے سانحہ کی بات کرتے ہیں۔ہماری ایماندارانہ رائے میں یہ شرمناک واقعات چاروں صوبوں میں ایک سنگین المیہ ہیں‘ پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کی بجائے ان کے اسباب کا جائزہ لینے اور تدارک کی ضرورت ہے۔
کے پی میں تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے اگرچہ بہت دیر سے شروع کئے گئے لیکن پرویز خٹک کی حکومت باقی ماندہ چار ماہ میں جتنا کچھ ممکن ہے‘ اس سے بھی دستبردار کیوں ہو؟اونٹ کے منہ میںزیرہ ہی سہی۔