منتخب کردہ کالم

اسلامک ملٹری الائنس اور پاکستان…کرنل غلام جیلانی خان

’’اسلامک ملٹری الائنس‘‘ کا اردو ترجمہ ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس اصطلاح کا پورا نام ’’اسلامی فوجی اتحاد برائے انسداد دہشت گردی‘‘ ہے۔ انگریزی میں مخفف کرکے اسے (IMAFT) کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ اس اتحاد کے بارے میں جو معلومات اب تک منظر عام پر آئی ہیں وہ یہ ہیں کہ اسے 15دسمبر 2015ء کو تشکیل دیا گیا تھا۔۔۔ اس کے بانی محمد بن سلمان السعود ہیں۔۔۔ اس کا مقصد دہشت گردی کی سرکوبی ہے۔۔۔ اس کا ہیڈکوارٹر ریاض (سعودی عرب) ہوگا۔۔۔ اس کے ذیلی دفاتر افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا (پاکستان) میں ہوں گے۔۔۔ اس میں اب تک 39اسلامی ممالک شریک ہونے کی حامی بھر چکے ہیں جن میں سعودی عرب، پاکستان، مصر اور ترکی قابلِ ذکر ہیں۔۔۔ اس میں شامل فوجی دستوں کے لئے دو زبانیں (عربی اور انگریزی) اس کے رابطہ کی زبانیں کہلائیں گی۔۔۔ ملائیشیا اگرچہ اس اتحاد میں شریک ہو گا لیکن اپنا کوئی فوجی دستہ نہیں بھیجے گا۔۔۔ اس کے کمانڈر انچیف پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہوں گے۔۔۔ اس کے مقاصد میں مسلم ممالک کو ہر قسم کی دہشت گردی سے بچاناشامل ہوگا اور اس میں کسی مسلک کا امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا یعنی یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کس ملک کا دین کس مسلک کا پیروکار ہے۔۔۔ یہ اتحاد اقوام متحدہ اور او آئی سی کے منشوروں کے مطابق آپریٹ کرے گا۔۔۔ اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس کی فورسز شام میں جا کر داعش سے برسرپیکار ہوں گی اور شام کو اس داعش (IS) کی دہشت گردی سے محفوظ بنائیں گی۔

اس اسلامی اتحاد کی جو حدود (کنٹورز) منظر عام پر نہیں آئیں وہ یہ سوال ہیں کہ اس فورس کا حجم کیا ہوگا۔۔۔ اس کی تنظیم کیا ہوگی۔۔۔ کون سا ملک کتنی فورس فراہم کرے گا۔۔۔ کمانڈسٹرکچر کیا ہوگا۔۔۔ بجٹ کہاں سے آئے گا۔۔۔ ٹریننگ سٹرکچر اور اس کا ہیڈکوارٹر کیا اور کہاں ہوگا۔۔۔ اسلحہ اور گولہ بارود کون مہیا کرے گا۔۔۔ فرسٹ لائن اور سیکنڈ لائن فورسز کہاں رکھی اور ڈیپلائے کی جائیں گی۔۔۔ لاجسٹک سسٹم کیا ہوگا۔۔۔ جو ملک دہشت گردی کا شکار ہوگا وہ اس اتحادی فورس کو کیسے آواز دے گا اور جب یہ فورس اس ملک میں پہنچے گی تو کیا اس کے آپریشن وہاں کی مقامی فوج / افواج سے مل کر کئے جائیں گے یا یہ اتحاد آزادانہ اور خود مختارانہ اپنے کمانڈسٹرکچر کے تحت آپریٹ کرے گا۔۔۔ آپریشنل پلان کہاں بنائے جائیں گے۔۔۔ کیا اس فورس میں صرف آرمی شامل ہوگی یا ائر فورس اور نیوی کو بھی شامل کیا جائے گا۔۔۔

یہ اور اس قسم کے درجنوں سوال ایسے ہیں جو جواب طلب ہوں گے لیکن یہ سب جزوی اور ذیلی تفصیلات ہیں جو اب تک (شائد) طے کی جا چکی ہوں گی اور ان کو باوجوہ منظر عام پر لانا مناسب نہیں سمجھا گیا ہوگا۔ ویسے پرسپشن یہ بھی ہے کہ اس کے بجٹ کا بیشتر بوجھ سعودی عرب برداشت کرے گا۔اس کی دو وجوہات بتائی جا رہی ہیں ایک تو یہ ہے کہ یہ سعودیوں ہی کا ’’طفلِ دماغ‘‘ ہے اور دوسرے دہشت گردی کا براہ راست نشانہ بننے والوں میں اب سعودی عرب کی باری آنے والی ہے۔ افغانستان، شام، عراق، لیبیا، یمن اور پاکستان تو اس دہشت گردی کی وباء سے’’حسبِ استطاعت‘‘ درجہ بدرجہ متاثر ہو چکے ہیں۔ اب ترکی زیرعتاب ہے اور آنے والے کل میں کون جانے یہ برقِ تپاں کن کن علاقوں پر جا گرے۔

ہم جانتے ہیں کہ اس دہشت گردانہ کلچر کی ابتداء امریکہ سے ہوئی۔ اس نے نو گیارہ کے بہانے سارے مشرق وسطیٰ کو برباد کر ڈالا۔ برباد شدہ ممالک کی برباد شدہ افواج کی بچ یا بھاگ جانے والی افرادی عسکری قوت کو وابستہ مفادات نے استعمال کیا اور القاعدہ، داعش اور درجنوں ایسی تنظیمیں وجود میں آ گئیں جن کے ناموں سے قارئین اچھی طرح واقف ہیں اور جن کے ’’کارہائے نمایاں‘‘ صبح شام دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ پاکستان تادیر اس دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور ابھی تک یہ خطرہ پوری طرح ٹلا نہیں۔ لیکن پاکستان نے اس خطرے کا جس طرح ادراک کیا اور پھر جس منظم طریقے سے اس کا انسداد کیا اس نے جنرل راحیل کو ساری دنیا میں ایک سربرآوردہ فوجی شخصیت کے طور پر متعارف کروایا اور سعودیوں نے بھی ان کا انتخاب کرکے بڑی دوراندیشی اور بڑی گہری سٹرٹیجک بصیرت کا مظاہرہ کیا۔

افواہوں کو تو کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔ کہا جا رہاہے کہ جن دو جرنیلوں کو سپرسیڈ کرکے جنرل قمر جاوید باجوہ کو 29نومبر 2016ء کو آرمی چیف بنایا گیا تھا ان دونوں (جنرل اشفاق ندیم اور جنرل رمدے) کو جنرل راحیل کی سفارش پر اس ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ میں کلیدی عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔دوسرے سعودیوں نے امریکہ سے ماضئ قریب و بعید میں جو جدید ترین سلاحِ جنگ خریدے تھے اور جو ماڈرن اور سٹیٹ آف دی آرٹ سازو سامانِ جنگ حاصل کیا تھا، اس کا استعمال اس اتحادی فورس میں کیا جائے گا۔ یہ افواہ بھی ہے کہ اس مجوزہ اتحاد کا زیادہ حصہ پاکستان فراہم کرے گا اور یہ بھی کہ پاکستان کا کوئی حاضر سروس آفیسر یا جوان اس اتحاد میں شریک نہیں ہو گا بلکہ یا تو ریٹائرڈ نفری سے کام لیا جائے گا یا نئی بھرتی کرکے اس کو ٹریننگ دی جائے گی۔

پاکستان میں اس اتحاد کی سپورٹ میں اتنے دلائل نہیں آ رہے جتنے اس کی مخالفت میں آ رہے ہیں۔ اس کی ’’بسم اللہ‘‘ ہو چکی ہے۔ میں کل (اتوار) جیوز نیوز پر ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا جس میں ڈاکٹر مصدق، نفیسہ شاہ، شفقت محمود اور مبشر زیدی (تجزیہ کار) بلوائے گئے تھے۔ ان میں سے تین اصحاب اس اتحاد کی مخالفت میں ’’رطب اللسان‘‘ تھے۔ مجھے نفیسہ شاہ اور شفقت محمود کی مخالفت کی تو سمجھ آتی ہے کہ یہ ان کی سیاسی مجبوریاں ہیں۔ لیکن مبشر زیدی جو سوال اٹھا رہے تھے اور جن شکوک کا اظہار کر رہے تھے ان کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مثلاً یہ سوال کہ جنرل راحیل کی تقرری کی SOP کیا تھی؟اس کو پبلک کیوں نہیں کیا گیا اور کیا یہ سب کچھ حکومتِ وقت کی ایما پر یا اس کی مرضی سے کیا گیا ہے؟ حکومت کی طرف سے ڈاکٹر مصدق اپنا نقطہ ء نظر پیش کرتے رہے اور فرماتے رہے کہ یہ جنرل راحیل کا ذاتی فیصلہ تھا ’’سرکار‘‘ کی مرضی یا مخالفت اس میں شامل نہیں تھی۔ پھر یہ سوال اٹھایا گیا کہ بطور آرمی چیف، جنرل راحیل کے سینے میں مملکت کے کئی راز پوشیدہ ہوں گے جن کے افشا ہونے کا خطرہ جنرل صاحب کے اس تقرر سے بڑھ گیا ہے۔ (بندہ پوچھے کہ جنرل راحیل یہ راز کیوں افشا کریں گے اور آرمی چیف بنتے بنتے ان کو جو تین عشرے لگے کیا ان کی ٹریننگ انہی خطوط پر کی گئی تھی کہ ریاستی رازوں کو ذرا سا موقع ملتے ہی طشت ازبام کر دیں؟ اس راز پر سے کسی صاحب یا صاحبہ نے پردہ نہ اٹھایا)۔ جنرل راحیل بارہ روز گزارنے کے بعد کل سعودی عرب سے واپس آئے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان ایام میں اس اتحاد کی نوک پلک (Nity Gity) ایک حد تک سنواری جا چکی ہوگی۔

اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ اس فورس کا قیام اپنی طرز کا پہلا تجربہ ہے اور مسلم ممالک کا ماضی و حال دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔یہی انجام اگرسامنے آیا تو ہم پاکستانی یہی کہیں گے: آئے وہ یوں خدا کرے پر نہ خدا کرے کہ یوں۔۔۔

دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے اور اگرچہ اس اسلامی اتحاد کو امریکہ کی آشیرباد حاصل ہے لیکن امریکہ کی متلون مزاجی سے کون واقف نہیں۔ اور آج سعودیوں کو جس امریکی تلون کیشی کا سامنا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ سب سے بڑا اور مشکل سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کسی ایسے پلان پر آمنّا کہہ سکے گا جس میں اس کا مفادشامل نہ ہو؟ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ کا مفاد اس میں نہیں کہ اسلامی ممالک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کا تو نہائی مقصود ہے ہی یہی کہ اسلامی دنیا میں نفاق و انتشار پیدا کیا جائے اور کسی بھی مسلم فورس کو اس مقام تک پہنچنے سے روکا جائے جہاں وہ اہل مغرب کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ امریکیوں نے سعودیوں سے جو ’’بے وفائی‘‘ حالیہ ایام میں کی ہے اس سے شاہ سلمان اور ان کے فرزندارجمند محمد بن سلمان بخوبی واقف ہیں۔ کاش محمد بن سلمان جیسے شہزادے آج سے چالیس پچاس سال پہلے پیدا ہو جاتے اور پھر پیدا ہوتے رہتے۔مجھے شہزادے کے ارادوں کی ’’نیکی‘‘ میں کوئی شبہ نہیں، مجھے تو ان کے مخالفین کی ’’بدی‘‘ پر یقین ہے۔ دیکھتے ہیں یہ معمہ کس طرح حل ہوتا ہے۔ سعودی عرب کو ایک ایسی پروفیشنل مسلح فورس کی جو تمام تر مقامی سعودیوں پر مشتمل ہو، ہمیشہ سے اشد ضرورت رہی ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سعودی ’’کرائے کی فوج‘‘ ڈھونڈتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہتھیاراور گولہ بارودوغیرہ تو خریدا جا سکتا ہے، اس کو چلانے والا نہیں خریدا جا سکتا۔ کاش آج سعودی فوج اتنی پروفیشنل ہوتی کہ جتنی وہ فوج ہے جو ان کی جگہ بطور پراکسی عراق و شام میں لڑ رہی ہے۔ پاکستان کا کوئی جنرل راحیل اگر اس انتہائی مشکل مشن میں کودا ہے تو میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔ خداکرے جنرل صاحب سعودی قوم کو ایک جنگجو اور پیشہ ور فوج بننے کی راہوں پر ڈال سکیں۔ میرے خیال میں ’’اسلامک ملٹری الائنس‘‘ کا فوکس اگر ایک طرف انسداد دہشت گردی پر ہونا چاہیے تو دوسری طرف سعودی معاشرے کو ملٹرائز کرنے پر ہو۔ جب تک سعودی (بلکہ تمام عرب) معاشرہ ملٹرائز نہیں ہوگا اور فوجی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوگا تب تک اس نوع کے ’’ملٹری اتحاد‘‘ شائد عارضی علاج تو ہوں لیکن مستقل علاج وہی ہے کہ پوری عرب دنیا کو سپاہ گری کا درس دیا جائے۔
تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے
مغرب نے سکھایا انہیں فن،شیشہ گری کا
اس ’’اسلامک اتحاد‘‘کو ایک اور بڑا چیلنج اس رقیبانہ اور حریفانہ کشا کش کا بھی ہے جو ایران اور سعودی عرب کے درمیان پائی جاتی ہے۔ افواہ یہ بھی ہے کہ ایران نے اس اتحاد کی تشکیل میں اگرچہ شرکت نہیں کی لیکن اس کی مخالفت بھی نہیں کی۔ ایک اور ’’انہونی خبر‘‘ یہ بھی ہے کہ شائد مستقبل قریب میں ایران بھی اپنے دوستوں (عراق، شام، لبنان، یمن، تاجکستان، ازبکستان، کرغستان وغیرہ) سمیت اس اتحاد میں شامل ہو جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ اسلامی دنیا میں21ویں صدی کا ایک معجزہ ہوگا۔ ہم جیسے قلمکار اس معجزے کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ ہاں اگر جنرل راحیل اس معجزے کو برپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ صحیح معنوں میں ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کا آغاز ہوگا!