1949ء میں جب نیٹو قائم ہوئی تو اس کے پہلے سیکرٹری جنرل لارڈ اسمے نے اس تنظیم کا بنیادی مقصد بیان کیا: To keep the Russians out, Americans in and Germans down (روسیوں کو باہر رکھنا، امریکیوں کو اندر لانا اور جرمنوں کو نیچے لگانا)۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد نمودار ہونے والے یہ سیاسی حقائق اور عزائم ہیں‘ جنہوں نے نیٹو کو جنم دیا۔ یہ کوئی اچانک پیدا ہو نے والا خیال نہیں تھا‘ جس نے اس ادارے کو صورت بخشی۔ جو دنیا کی قیادت کا خواب دیکھ رہے تھے، انہوں نے آنے والے خطرات کو محسوس کیا، اپنی کمزوریوں کا ادراک کیا اور یوں ایک نئے جہاں کی صورت گری کے لیے ایک منصوبہ بنایا۔ آج ہم اسی جہاں میں زندہ ہیں، جس کا خواب بیسویں صدی کے پانچویں عشرے میں دیکھا گیا اور جس کی تعبیر کے لیے نیٹو جیسے ادارے بنے۔ اسلامک نیٹو بنانے والوں نے کیا خواب دیکھا؟ وہ جس جہاں کی صورت گری کرنا چاہتے ہیں، وہ کیسا ہے؟ کس کو اندر رکھنا ہے اور کس کو باہر؟ پھر نیچے کسے لگانا ہے؟
اگر یہ تصور مشہود ہوتا ہے تو اس کے ابتدائی ارکان ہی سے معلوم ہو جائے گا کہ کس کو باہر رکھنا مطلوب ہے۔ جو بجٹ کا بڑا حصہ فراہم کرے گا، ظاہر ہے کہ اسی کو ویٹو کا حق بھی ہو گا۔ اسلامک نیٹو میں امریکہ کی حیثیت کسے حاصل ہو گی، اس وقت، قیاس کیا جا سکتا ہے۔ جنہیں باہر رکھا جائے گا، کیا وہ چپ رہیں گے؟ اسلام کے نام سے بننے والا اتحاد اگر مسلکی امتیاز کے ساتھ نمودار ہو گا‘ تو اس اعتبار سے پاکستان جیسے مخلوط معاشروں کے داخلی اضطراب کا حل کیا ہو گا؟ پھر یہ کہ کیا وہ خارجی دشمن متعین ہے‘ جس کے خلاف یہ اتحاد بننے جا رہا ہے؟ اس پیش رفت پر اس کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ سوالات کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ ہے جو اس تصور کے نمودار ہوتے ہی چل نکلا ہے۔
ابھی تو یہ کہا گیا کہ اس کا ہدف دہشت گردی ہے۔ یہ بڑی حد تک مسلم معاشروں کا داخلی معاملہ ہے۔ دہشت گردی کو غیر ریاستی عناصر کی مسلح کارروائیوں سے نسبت ہے۔ کسی ریاست کے اقدامات کو دنیا دہشت گردی نہیں کہتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خارج میں تو کوئی دشمن نہیں۔ تو پھر نیٹو بنانے کی ضرورت کیا ہے؟ دہشت گردی کے خلاف مسلم ممالک پہلے ہی ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ 9/11 کے بعد ہم نے بہت سے عربوں کو پکڑا جن کے بارے میں یہ شبہ تھا کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے اور پھر انہیں عرب ملکوں کے حوالے کر دیا۔ اس پس منظر میں بہت سے باہمی معاہدے ہو چکے۔ اس کے بعد اسلامی نیٹو کی ضرورت کیا ہے؟
ہم فرض کرتے ہیں کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف بن رہا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف پاکستان میں سعودی عرب کی فوج بروئے کار آئے گی؟ قطر میں مصر کی فوج لڑے گی؟ اسی سے متصل سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے کیا عسکری وسائل اور وافر انفرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے؟ ہم ایک معرکہ لڑ چکے۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس کے لیے وسائل سے زیادہ سیاسی اور ایک خاص طرز کی تربیت لازم ہے۔ یہ لڑائی انسانی آبادیوں کے اندر لڑی جاتی ہے۔ یہ ہمہ جہتی ہے۔ اس میں مسلح افراد ہی کو نہیں خیالات کو بھی موضوع بنانا پڑتا ہے۔ کیا اس مقصد کے لیے ہمیں دوسرے ملکوں کی افواج سے مدد کی ضرورت ہو گی۔
اگر مسئلہ دہشت گردی ہے تو ہمیں اسلامک نیٹو کی نہیں، عالم اسلام کی سطح پر ایک بیانیے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک پر بھی الزام ہے کہ وہ ریاستی مقاصد کی آبیاری کے لیے غیر ریاستی گروہوں کو مسلح کرتے ہیں۔ پھر اس سے بڑھ کر تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ معاملہ مسلم ممالک کے درمیان باہمی اضطراب اور کشیدگی کا بھی باعث ہے۔ جب تک ہم اس بارے میں ایک واضح موقف نہیں رکھتے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ اس کا فکری پس منظر کیا ہے؟ اس وقت تک ہم کوئی حکمت عملی نہیں بنا سکتے۔ یہ ایک نظری اور فکری مشقت ہے جس کے لیے مسلح افواج کی نہیں سپاہ دانش کی ضرورت ہے۔ آج مسلمان ملکوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کو اپنے اپنے ریاستی مفادات کے تحت دیکھ رہے ہیں۔ جب تک مسلم دنیا کے ذمہ دار اس مخمصے سے نکل نہیں پائیں گے، وہ اس جرم کے خلاف لڑ نہیں سکیں گے۔
اس ضمن میں ایک اور پہلو بھی توجہ طلب ہے۔ شام عراق اور یمن اس وقت سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہیں۔ جو مجوزہ نیٹو ہے، اس میں آثار یہی بتاتے ہیں کہ شام اور ایران اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔ ان ممالک کے باہر رہنے سے یہ کیسے ممکن ہو گا کہ عالم اسلام سے دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ شام میں کہا جاتا ہے کہ ہر ملک کے حمایتی جنگجو موجود ہیں۔ سعودی عرب، ایران، ترکی، قطر اور بہت سے مسلمان ممالک کے نام لیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کے پس منظر میں، بعض مسلم ریاستوں کے مفادات ہیں۔ یہی نہیں ، اب تو سعودی عرب کے جنگی جہاز ترکی پہنچ چکے ہیں۔ خیال ہے کہ اب شام میں زمینی جنگ ہو سکتی ہے، جس میں سعودی عرب اور ترکی شامل ہوں گے۔ یوں دہشتت گردی کے خلاف معرکہ آرائی اس بات کے تمام تر امکانات رکھتی ہے کہ ریاستوں کے مابین جنگوں میں بدل جائے۔ کیا اسلامک نیٹو کا تصور پیش کرنے والوں کے پاس اس بات کا جواب ہے؟
میں یہاں یہ سوال اٹھانے سے بھی نہیں رک سکتا کہ کیا اسلامک نیٹو اسرائیل کے خلاف بروئے کار آئے گا؟ عالم اسلام کے اکثر ممالک کا موقف یہی ہے کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے‘ اور یہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر قائم کی گئی ہے۔ کیا اسلامک نیٹو فلسطینیوں کو ان کا حق دلائے گی؟ کیا وہ یہودیوں کو الٹی میٹم دے گی کہ وہ فلسطینیوں کے علاقے خالی کر دیں۔ کیا اسلامک نیٹو بھارت سے بھی کہے گی کہ وہ کشمیر سے نکل جائے۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہو گا تو پھر اسلامک نیٹو کس کام کی؟
اگر یہ اتحاد عالمِ اسلام کو درپیش اصل مسائل کو مخاطب ہی نہیں بناتا تو پھر اس کی اخلاقی ساکھ کیا ہو گی؟ مسلم حکمران اسے تسلیم کر لیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم عوام بھی اسے قبول کر لیں؟ گویا اس تصور کو جس زاویے سے بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے، ایک نیا ابہام ہمارا منتظر ہوتا ہے۔ ابہام کیوں پیدا ہو تے ہیں؟ اس کا یک لفظی جواب ہے: فکری پراگندگی۔ جب ہم ایک معاملے کو پوری طرح سمجھے اور جانے بغیر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ تو پھر الجھتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر ایسے جال میں پھنس جاتے ہیں‘ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اسلامک نیٹو ایک اچھا تصور ہو سکتا ہے اگر اس کے لیے مطلوب فکری مشقت سے گزرا جا سکے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے لیے ایک ورکنگ پیپر بنے گا۔ لازم ہے کہ اس پیپر میں ان سوالات کو پیش نظر رکھا جائے جن کا اس کالم میں ذکر ہوا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے سوالات ہوں گے۔ بنیادی سوال البتہ چند ہی ہیں۔ اس اتحاد کا ہدف کون ہے؟ داخلی یا خارجی مسلم ممالک کے موجودہ تنازعات کے ہوتے ہوئے یہ تصور متشکل کیسے ہو گا؟ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کا حل اس کے پاس کیا ہے؟ اگر ان سوالات کے جواب مل سکیں تو اس تصورکے مبارک ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔