اسلامی فلاحی ریاست…علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
14 اگست کو قیام پاکستان کے 71سال مکمل ہو جائیں گے۔ 71سالوں کے دوران ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ ان تمام امور پر ٹھنڈے دل سے غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کا مقصد درحقیقت ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد مکار ہندو مسلمانوں کی آزادی پر شب خون مارنا چاہتا تھا اور ان کو مذہبی ‘ سیاسی‘ اقتصادی اور سماجی اعتبار سے مغلوب رکھنا چاہتا تھا۔ مسلمانانِ ہند انگریز سامراجیت کے بعد مکار ہندو ؤں کی مکاری کی وجہ سے شدید تشویش کا شکار تھے۔ ان حالات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے دوراندیش قائدین کی قیادت سے نوازا۔ قائد اعظم محمد علی جناح‘ علامہ محمد اقبال‘ مولانا ظفر علی خاں‘مولانا محمد علی جوہر اور دیگر اکابرین نے برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں کی تشویش اور خلش کو بھانپتے ہوئے ان کو ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کے لیے تحریک چلانے کا پیغام دیا۔ وطن عزیز کا قیام آسانی سے نہیں ہوا ‘بلکہ اس کے لیے بڑی تعداد میں ہجرتوں کو کیا گیا‘ ہنستے بستے گھروں کو چھوڑا گیا ‘ قیمتی جانوں کی قربانیاں دی گئیں‘عزت او ر آبرو کو لٹوایا گیا۔ بڑی تعداد میں نوجوان شہید ہوئے اور معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر تڑپایا گیا۔ ان تمام قربانیوں کے بعد برصغیر کے مسلمان اس بات پر مطمئن تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو ایک آزاد مملکت سے نواز دیا۔ آزادی کی اس نعمت ِبے پایاں کے حصول سے قبل ‘اگر قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کا مطالعہ کیا جائے اور علامہ اقبال کی شاعری سے استفادہ کیا جائے‘ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے اور اس میں کتاب وسنت کی عملداری چاہتے تھے۔ قائد اعظم نے اپنی بہت سی تقاریر میں پاکستان کا دستور قرآن مجید کو قرا ر دیا اور علامہ اقبال نے کئی مقامات پر اس امرکا اظہار کیا کہ اُمت کی پستی اور زوال کو دور کرنے کا واحد راستہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین سے وابستگی ہے۔ علامہ اقبال کے اس حوالے سے دو شعر درج ذیل ہیں:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
قیام پاکستان کے بعد بعض عناصر نے اس ملک کو سیکولر ریاست قرار دینے کی بات کی۔ اس کے بالمقابل مذہبی جماعتوں اور دائیں بازو کے سیاسی عناصر نے اس کو ایک مذہبی ریاست کے طور پر چلانے کی بات کی۔ سیکولر عناصر کے مطابق مملکت کا آئین مغربی ممالک کی طرح عوام کی مرضی کے مطابق تشکیل پایا جانا چاہیے تھا ‘جبکہ مذہبی عناصر اور دائیں باز و کی قیادت کے مطابق یہاں پر کتاب وسنت کی عمل داری ہونی چاہیے تھی۔ آئین کی جہت کے حوالے سے یہ کشمکش طویل عرصے تک جاری رہی ‘لیکن قرار داد مقاصد اور اس کے بعد 1973ء کے متفقہ آئین کے ذریعے اس بات کو واضح کر دیا گیا کہ اس ملک میں کتاب وسنت کو سپریم لاء کی حیثیت حاصل ہو گی۔
پاکستان کا قیام جہاں پر ملک وملت کے بہی خواہوں کے لیے ایک پرمسرت پیغام تھا‘ وہیں پر دشمنان ملک وملت پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد بنگال میں قومیت اور لسانیت کا نعرہ لگایا گیا اور ملک کی یکجائی اور واحدت کو بنگالی قومیت کے نعرے سے ضرب لگانے کی کوشش کی گئی۔ 1970ء کے الیکشن میں بنگالی رہنما قومی پرستی کی بنیاد پر انتخابات میں اترے ۔پاکستان کی دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے عوام کے سامنے اپنے اپنے منشور کو پیش کیا۔
بدنصیبی سے پاکستان کے محب سیاسی رہنما اور ریاست کے ذمہ دار عناصر قوم پرستی کی عصبیت پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔ پاکستان کا دولخت ہونا ہر محب وطن اور ملت کے بہی خواہوں کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا۔ پاکستان کے مشرقی بازو کے کٹ جانے کے بعد بچی ہوئی ریاست کو مجتمع کرنے کے لیے محب وطن عناصر نے بھرپور جدوجہد کی اور پاکستان سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران سے نکل گیا۔
1970ء کے بعد پاکستان کی سیاست میں معاشی ترقی اور قیام امن کو بنیادی اہمیت دی گئی اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ترقیاتی کاموں کے جال بچھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ ملک میں روٹی‘ کپڑا اور مکان کی فراہمی کا نعرہ بھی لگا یا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بوجوہ پاکستان بین الاقوامی قرضوںکے دباؤ سے باہر نہیں نکل سکا اور ہمسایہ ممالک میں ملک دشمن عناصر کی تخریبی منصوبہ بندیوں کی وجہ سے تاحال پاکستان میں مثالی امن قائم نہیں ہو سکا۔ ترقیاتی کاموں کے اعتبار سے مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے انداز میں کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کی‘ لیکن گو ان کاموں کے نتیجے میں انفراسٹریچر میں تو مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں‘ لیکن اقتصادی اعتبار سے پاکستان بحرانوں سے باہر نہ نکل سکا۔ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ہم ایک آزاد وطن میں رہتے ہیں ‘جہاں ہمیں اپنی اپنی مرضی کے ساتھ زندگی گزارنے کی آزادی ہے اور یہاں پر ہم اپنی عبادات‘ معاملات اور مذہبی رسومات کو اپنی مرضی کے ساتھ بجا لاتے ہیں‘ لیکن تحریک پاکستان کے دوران کیے جانے والے بہت سے وعدے تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے۔ ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے جن باتوں پر عمل کرنا ازحد ضروری ہے۔ وہ درج ذیل ہیں:۔
1۔نظام صلوٰۃ کا قیام: ایک اسلامی ریاست میں نظام صلوٰۃ کی افادیت مسلّم ہے‘ لیکن اس حوالے سے کوئی مضبوط پلاننگ کو مرتب نہیں کیا جا سکا۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں نمازوں کے اوقات کے دوران کاروبار اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کو موقوف کر دیا جاتا ہے‘ لیکن پاکستان میں اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
2۔ زکوٰۃ وعشر کا نظام: قرون اولیٰ میں مرکزی بیت المال کے ذریعے امراء کی زکوٰۃ اور عشر کو وصول کرکے غریب افراد کی بحالی کے لیے منظم منصوبہ بندی کی گئی‘ جس کے نتیجے میں اسلامی سلطنت سے غربت اور محرومیوں کا خاتمہ ہو گیا‘ لیکن پاکستان میں تاحال ایسا نہیں ہو سکا۔ ٹیکس کے پھیلاؤ پر توجہ دی گئی جس سے لوگوں کی اکثریت بچنا چاہتی اور زکوٰۃ اور عشر کے نظام پر توجہ نہ دی گئی‘ جس پر باآسانی اہل خیر کو آمادہ وتیار کیا جا سکتا ہے۔
3۔سودی معیشت کا خاتمہ:سودی نظام معیشت نے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود تاحال ہم سود کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جب تک ہم اپنی معیشت اور کاروبار میں سے سود کے عنصر کو باہر نہیں نکالیںگے ‘پاکستان حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔
4۔فواحش اور منکرات کی حوصلہ شکنی:پاکستان میں فواحش اور منکرات کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے ایک منظم اور مربوط نظام کو تاحال قائم نہیں کیا جا سکا اور کلچر اور ثقافت کے نام پر بے حیائی اور اختلاط کا فروغ کرنے والے عناصر پاکستان میں مختلف ادوار میں سر گرم رہے ہیں‘ اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں‘ تو یہاں پر فواحش اور منکرات کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور حیاء اور پاک دامنی کے کلچر کو عام ہونا چاہیے۔
5۔ تعلیم ‘ علاج اور بنیادی سہولیات کا اہتمام: اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ ایک فلاحی ریاست کے قیام کے لیے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ تعلیم‘ علاج اور بنیادی ضروریات کو عوام کے گھروں تک پہنچایا جائے؛ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے یورپی اور عرب ممالک میں اپنے شہریوں کے لیے ان سہولیات کو مفت فراہم کیا جا تا ہے‘ لیکن تاحال پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکا اور یہاں کے کمزور فلاحی اور اقتصادی ڈھانچے کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی فرق بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے‘ جس کی وجہ سے معاشرے کو زبردست محرومیوں کا سامنا ہے۔
14 اگست کا دن ہمیں یقینا قیام پاکستان کے ان عظیم واقعے کی یاد دلاتا ہے کہ جب ہم انگریز سامراجیت اور ہندوؤں کی مکاری سے آزاد ہوئے‘ لیکن یہ دن ہماری توجہ اس سمت بھی مبذول کرواتا ہے کہ ہمیں پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلا می فلاحی ریاست کے طور پرقائم کرنے اور باقی رکھنے کے لیے اپنی توانائیوں کو مرتکز کرنا چاہیے‘ تاکہ قائدین تحریک پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔