بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ۔یہ خبر کہ سعودی شہر حفرالباطن میںہو نیوالی سب سے بڑی مشقوں میں شریک 20ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، ان لو گوں کے لیے حیران کن نہیں ہے جو پہلے ہی سے محسوس کر رہے تھے کہ دال میں کچھ کالاضرور ہے ۔وزیراعظم میاں نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے اکٹھے سعودی عرب جانے اور وہاں اعلیٰ سعودی حکام سے ملاقات کے حوالے سے یہ تا ثر دینے کی کو شش کی گئی کہ ہم تو سعودی عرب اورایران کے درمیان ثالثی کرارہے ہیں اورشیعہ عالم شیخ النمر کی پھانسی کے بعد جو صورتحال پیدا ہو ئی اس سے تہران اور ریاض کے درمیان سفارتی تعلقا ت ختم ہو گئے ہیں لہٰذا ہم دونوں ملکوں کی صلح کرانے جا رہے ہیں۔اس وقت بھی با خبر لو گوں کا ما تھا ٹھنکا تھا کہ فریقین کے درمیان ثالثی کرانے والے ملک کی غیر جانبداری کے حوالے سے تو حیثیت مسلمہ ہو نی چا ہیے لیکن صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب توہمیشہ پاکستان کا قریبی دوست ،حلیف،اور مددگا ر رہا ہے۔شہنشاہ ایران کے دور میں ایران کے ساتھ بھی ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے لیکن اسلامی انقلاب کے بعد یہ قربت دوریوں میں بدلتی چلی گئی۔ اب ثالثی مشن کے دوران بھی میاں نواز شریف سعودی عرب سے واپسی پر صرف چند گھنٹوں کے لیے ہی تہران تشریف لے گئے تھے ۔ اس کے با وجو د کہ بطور وزیراعظم جن کے پا س خارجہ امور کا قلمدان بھی ہے دنیا بھر کی خاک چھانتے رہتے ہیں ۔ انھیں ابھی تک ایران کے باضابطہ سرکاری دورے کا وقت نہیں ملا ۔اس ثالثی مشن کے دوران ہی سعودی عرب نے یہ کہہ کر کہ ہمیں کسی کی ثا لثی قبول نہیں ہے‘ ہماری مصالحا نہ کوششوں کا بھا نڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ۔
یمن میں حو ثی قبائل کے خلا ف سعودی عرب کی یلغا ر ، ولی عہد دوم اور نا ئب وزیراعظم پرنس محمد بن سلمان السعود کی کو ششیں اور سعودی وزیر خا رجہ عادل الجبیر کے پاکستان کے دورے رنگ لا ئے اورمیاں نواز شریف نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم اصول کو نظر انداز کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ۔ ہمارے دفتر خا رجہ نے سفید جھوٹ بولتے ہو ئے یہ دعویٰ کیا ہے، یہ جنگی مشقیں پاک سعودی دفاعی معاہدوں کے تحت روٹین کی کارروائی ہے لیکن زمینی حقا ئق قطعاً بر عکس ہیں۔مسلمان ملکوں کے با ہمی جھگڑوں میں نہ پڑنے کی روایت روز اول سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیا د ی جزو رہا ہے لیکن ان فو جی مشقوں میں دامے درمے سخنے شرکت کر کے ہم نے اس پا لیسی کی نفی کر دی ہے ۔ پہلے یہ دعویٰ کیا گیا کہ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلا ف بننے والے نام نہا د اتحا دجس میں عرب ممالک کے علا وہ پاکستان،ترکی اوربعض افریقی ممالک بھی شامل ہیںبغیر بتا ئے ہی ہمارا نام شامل کر دیا ہے لیکن اگرایسا کیا بھی گیا تھا توبعد از خرا بی بسیارشاید ہم نے اپنی اقتصادی مجبوریوں اور وقتی مصلحتوں کے باعث اس میں بھر پو ر رو ل ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرنے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ان کا ملک شام میں داعش کے خلا ف آپریشن کے لیے زمینی فو جی دستے بھیجنے کو تیار ہے۔ اگر پاکستان بھی اس کھیل میں شامل ہو گیاہے تو ہما رے ملک کی بہت بڑی بد قسمتی ہو گی اور پاکستان قبل ازیں بھی سیٹو (CETO) اورسینٹوCENTO) ( جیسے نام نہا د اینٹی کمیو نزم الائنسز میں شامل رہا ہے لیکن اس وقت بھی افواج پاکستان کے دستے ان دفا عی معاہدوں کا حصہ نہیں بنے تھے اب نجانے کیا مجبو ری ہے کہ ہم ”اسلامی نیٹو ‘‘میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہو رہے ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ اس حوالے سے امریکہ کی ”گا جر اور چھڑی‘‘ کی پالیسی کامیاب رہی ہے۔گا جر یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردی کامقابلہ کر نے کے نام پر امر یکہ نے چند ایف 16طیا رے دینے کی منظوری دے دی ہے اور جہا ں تک ڈنڈے کا تعلق ہے وہ آ ئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے ،پاکستان کو نیوکلیئرسپلا ئرز گروپ کا حصہ نہ بنا نے کی پالیسی اور ڈومور کی رٹ کی صورت میں سامنے آ تا رہتا ہے ۔ ناقدین قطر کے ساتھ ایل این جی کی تا ریخی ڈیل اور پاک ایران گیس پا ئپ لا ئن کے منصوبے کو سر دخانے میں رکھنے کی پالیسی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھیں گے ۔یقینا ہم ایک خطر ناک کھیل، کھیل رہے ہیں ۔برادر اسلامی ہمسایہ ملک ایران میں جہاں سرمایہ کا ری کرنے کے لیے یو رپ اور امریکہ سمیت ساری دنیا بھا گ رہی ہے ،ہم اسے بلا وجہ نا راض کر رہے ہیں ۔
1979 ء میں افغا نستان پررو سی یلغا ر کے موقع پر بھی جنرل ضیا ء الحق نے پاکستان کو اس جنگ میں جھونک دیا تھا ۔ضیا الحق تو آمر مطلق تھے اور اپنے پیشروڈکٹیٹر ایوب خان کی طرح انھوںنے بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے قومی مفا د ات کو قربان کر دیا ۔ ہم آ ج بھی ما ضی کے ان فو جی حکمرانوں کی کوتاہ اند یشا نہ پالیسیوں کا خمیا زہ بھگت رہے ہیں ۔ نا ئن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کے آ ئی ایس آ ئی کے سربرا ہ جنرل محمود احمدنے اس وقت بھی تمام امریکی مطالبوں
پر فورًا ہی صاد کر دیا تھا ۔ ان سے پہلے ایوب خا ن نے بھی امریکی کیمپ میں رہنے میں عافیت سمجھی۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ میاں نواز شریف جو جمہو ریت کا ورد کرتے رہتے ہیں نے اس حوالے سے پا رلیمنٹ کو اعتما د میں کیو ں نہیں لیا۔ انھیں اپنی جما عت کے علا وہ اپو زیشن کو بھی آن بورڈ لینا چاہیے تھا کہ محض ترکی، سعودی عرب اور ان کے پشت پنا ہ امریکہ کو خو ش کرنے کے لیے اس نام نہا د اتحا د اور سعودی عرب میں فو جی مشقوں میں شرکت کرنے کی آ خر کیا مجبوری تھی لیکن لگتا ہے کہ فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں کہیں اور ہوتے ہیں ،تا ہم اس مسئلے میں تو عوامی نما ئندوں سے انگو ٹھا لگو انے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی ”شمال کی گرج‘‘ کے نام سے یہ مشقیں ملکو ں کی تعداد کے لحا ظ سے سب سے بڑی مشقیں ہوں گی۔ ان میں 20 ممالک کے جدیدترین جنگی جہاز،طیا رے ،ٹینک اور تو پیں شامل ہیں لیکن کسی کو معلو م نہیں کہ یہ کب شروع ہو نگی اور کب ختم ہونگی ۔ ان میں پاکستان کی شمولیت ہمارے لیے گوناگوں پیچیدگیا ں پیدا کرے گی۔ایران کی ناراضی کے علاوہ پاکستان میں کروڑوںکی تعداد میں اس کے ہم مسلک خو ش نہیں ہوں گے۔علاوہ ازیں روس جو شام کے صدر بشارالا سد کی کھل کر پشت پنا ہی کر رہا ہے اور جس سے بمشکل پاکستان کے دوستانہ تعلقا ت قائم ہوئے ہیں،اس سے ابتدائی مر حلوں میں دفاعی تعاون کے معاملات پھر خراب ہو سکتے ہیں ،سعودی عرب کے وزیر خارجہ کی یہ دھمکی کہ روس بشارالا سد کے اقتدار کو نہیں بچا سکے گا اور شام پر ممکنہ حملے کے لیے سعودی عرب نے اپنے جنگی جہا ز پہلے ہی ترکی پہنچا دیئے ہیں۔انقرہ اور ریاض کی جنگجویانہ پالیسیوں کی بنا ء پر خطے کی صورتحال مز ید بگڑتی جارہی ہے۔ پاکستان کا بشارالا سد کے ساتھ کو ئی جھگڑا نہیں ،امریکہ اور اس کے حواریوں نے اس سے پہلے صدام حسین اور معمر قذافی کی چھٹی کرا کر ان ممالک کو جمہوریت کے نام پر خا نہ جنگی کی آماجگا ہ بنا دیا ہے اور جہاں تک داعش کا تعلق ہے ہم تو اس بات سے انکا ری ہیں کہ پاکستان میں اس کا کوئی وجو د ہے اس حوالے سے شام کی کسی مہم جوئی میں شامل ہو نا ”آ بیل مجھے مار کے ‘‘مترادف ہو گا۔ ویسے بھی یہ عجیب طر فہ تما شا ہے کہ ایک طرف تو یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہم داعش کے خلا ف جنگ لڑ رہے ہیں ۔لیکن اصل ٹا رگٹ داعش کے مخالف بشارالاسد ہیں جن کی چھٹی کرانے کی محض اس لیے سعی کی جا رہی ہے کہ ایران اور اس کی پراکسی حزب اللہ بشارالاسد کی حما یت کر رہے ہیں ۔حالانکہ اس وقت اسلامی دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بشارالاسد نہیں بلکہ داعش ہے ۔داعش نہ صرف مذہب کے نام پر تشدد کر نے والوں کا ایک گروہ ہے بلکہ اب ایک سوچ بھی ہے جس کے ساتھ اس قسم کی دوغلی پالیسیوں کے ذریعے نہیں نبٹا جا سکے گا،پاکستان کواس کولیشن کا ہر گزحصہ نہیں بننا چا ہیے تھا۔