اسلام آباد کا شہر آشوب… (5)…جاوید حفیظ
شہر اقتدار میں سب سے نفع بخش کاروبار آج کل پانی کی فروخت ہے۔ پانی کا ایک چھوٹا ٹینکر تیرہ سو روپے سے دو ہزار روپے کا بیچا جا رہا ہے۔ دن کو قیمت کم اور رات کو زیادہ ہوتی ہے۔ چار پانچ افراد پر مشتمل ایک اوسط خاندان تقریباً پندرہ ہزار روپے ماہانہ پانی پر خرچ کرنے کیلئے مجبور ہے۔ ٹینکر مافیا نے گہرے بور کر کے ٹیوب ویل لگا لئے ہیں اور لاکھوں روپے روزانہ کما رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ پانی خریدنے والے سی ڈی اے کو پراپرٹی ٹیکس بھی دینے پر مجبور ہیں جو موجودہ صورتحال میں سراسر جگا ٹیکس ہے۔
اسلام آباد کے مسائل کی جڑ کمزور گورننس ہے۔ اگر گورننس صحیح ہوتی تو راول لیک جھیل کے گرد گھر نہ بنتے۔ چک شہزاد کے فارم ہائوسز آج بھی زرعی فارم ہوتے اور اسلام آباد کے باسیوں کو انواع و اقسام کی سبزیاں اور فروٹ سپلائی کر رہے ہوتے۔ گورننس مضبوط ہوتی تو اسلام آباد کے سب سے بڑے فاطمہ جناح پارک میں عمارتیں نہ بنتیں۔ ڈپلومیٹک انکلیو کا سیوریج راول جھیل میں نہ پھینکا جاتا تو جھیل کی مچھلیاں آج صحت مند ہوتیں۔ عمارتیں نقشے کے مطابق ہوتیں اور ان میں سریا اور سیمنٹ کی پوری مقدار ہوتی تاکہ زلزلے کا مقابلہ کر سکیں۔ اسلام آباد کی گرین بیلٹوں میں تجاوزات نہ قائم ہوتیں۔ کیونکہ گڈ گورننس ناپید ہے لہٰذا ڈوکیساڈس کا ماڈل سٹی کہیں نظر نہیں آتا۔ درخت کم ہو رہے ہیں پانی کی شدید قلت ہے اس کے باوجود شہر بے ہنگم بڑھتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ بلڈرز مافیا کے سامنے حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔
پچھلے ہفتے اسلام آباد کے اخباروں میں بلڈنگ کنٹرول سیکشن کی طرف سے ایک اشتہار دیا گیا اس میں ایک درجن میرج ہالز اور مارکیز کے نام درج تھے جو کہ دارالحکومت میں غیر قانونی طور پر بنے ہیں۔ شہریوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ ان غیر قانونی میرج ہالز میں کوئی فنکشن نہ کریں۔ واہ سبحان اللہ اگر متعلقہ ادارے کی آنکھیں کھلی ہوتیں تو یہ غیر قانونی تعمیرات ہو ہی نہیں سکتی تھیں۔ ان عمارتوں میں سے سات کشمیر ہائی وے پر ہیں جہاں سے روزانہ درجنوں وزیر اور سینئر بیورو کریٹ گزرتے ہیں۔ اگر وقت پر ایکشن ہوتا تو یہ اشتہار دینے کی نوبت ہی نہ آتی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کشمیر ہائی وے والے سارے میرج ہال پچھلے دو تین سال میں بنے ہیں۔ جوابدہی یعنی Accountability گڈگورننس کا لازمی جزو ہے اور جوابدہی ہمارے سسٹم سے ایسے غائب ہوئی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جب اکتوبر 2005 کا زلزلہ آیا تو فاطمہ جناح پارک کے سامنے مارگلہ ٹاور نامی گیارہ منزلہ عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔ اس عمارت میں تینتالیس 43 اپارٹمنٹ تھے۔ مارگلہ ٹاور کے بالکل ساتھ المصطفیٰ اپارٹمنٹس اور پارک ویو کثیر المنزلہ عمارتیں بھی تھیں یہ بالکل محفوظ ہیں اور آج بھی آباد ہیں۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ مارگلہ ٹاور میں ناقص میٹریل لگایا گیا تھا اور مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ مارگلہ ٹاور کوترقیاتی ادارے اور چودھری کنسٹرکشن کمپنی (CCC) نے مل کر تعمیر کیا تھا۔ زلزلہ آیا تو سارے کے سارے فلیٹ تباہ ہو گئے۔ بہتر 72 لوگ جان سے گئے اور ان میں سات فارنر تھے۔ ٹرپل سی کا مالک (رمضان کھوکھر) انگلینڈ بھاگ گیا۔ فلیٹس کے مالکان اور شہدا کو پونے دو ارب روپے ٹوٹل عوضانہ ملا۔ پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی کہ پاکستان میں کثیر المنزلہ عمارتیں کس کوالٹی کی بنتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس عمارت کی تباہی کے بعد کیا ترقیاتی ادارے کے متعلقہ افسران کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوئی؟ کیا ان کا احتساب کیا گیا؟ میری اطلاعات کے مطابق ایسا نہیں ہوا۔
اور اب آتے ہیں اس اہم فیصلے کی جانب جو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اکتوبر 2017ء میں ایف 14 اور ایف 15 سیکٹرز کے بارے میں دیا۔ یہ دونوں سیکٹرز فیڈرل ہائوسنگ فائونڈیشن نے ڈویلپ کرنا تھے۔ چند بیورو کریٹ جج جرنلسٹ اور وکلاء کو پیشگی الاٹمنٹ ہو گئی تھی جسے آپ الاٹمنٹ کا وعدہ کہہ سکتے ہیں۔ فائونڈیشن نے ان لوگوں سے زمین کی قیمت بھی وصول کر لی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوری کی پوری سکیم کو کالعدم قرار دے دیا‘تمام پلاٹوں کی پیشگی الاٹمنٹ منسوخ کر دی اور اب معاملہ چونکہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے لہٰذا میں اپنی رائے نہیں دوں گا صرف اکتوبر 2017 کے فیصلے سے چند اقتباسات من و عن پیش ہیں تاکہ کیس کی سمجھ آ سکے فاضل عدالت نے کہا ”وزیراعظم نے ایف چودہ اور ایف پندرہ سیکٹرز کی منظوری کابینہ سے مشورہ کئے بغیر دی۔ وزیراعظم یا حکومت کا کوئی کارندہ سرکاری اثاثے صرف اور صرف شفاف طریقے سے الاٹ کرنے کا پابند ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ نیب آرڈیننس 1999 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے زمرے میں آئے گا۔
آگے جا کر اسی فیصلے میں عدالت نے کہا ”چیف کمشنر سے لے کر کلکٹر تک زمین حاصل کرنے والے تمام افسر فائونڈیشن سے مارکیٹ ریٹ سے سستا پلاٹ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ جرنلسٹ اور میڈیا ورکر کا فریضہ ہے کہ وہ حکومتی اداروں پر صحیح اور بے لاگ تنقید کریں اور ان کے غلط کاموں کو افشا کرتے ہوئے عوام کی نظر میں لائیں۔ مگر اس سکیم میں حکومت نے میڈیا والوں کو بھی شراکت دار Stake Holder بنا لیا ہے۔ فیصلے کا درج ذیل پیرا میرے نزدیک بہت اہم ہے اور اس جانب واضح اشارہ ہے کہ شہر اقتدار میں غریبوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ”اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ پلاٹ صرف ان لوگوں کو ہی کیوں دیئے گئے جو سوسائٹی میں اثرو رسوخ رکھتے ہیں جبکہ افتادگان خاک یعنی غریب غرباء کو ایسے فوائد سے دور رکھا گیا۔ وہ لوگ جنہیں آئی الیون کی کچی آبادی سے بیدخل کیا گیا تھا اور ان کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیئے گئے تھے انہیں اس منافع بخش سکیم میں کیوں شامل نہیں کیا گیا‘‘۔
فاضل عدالت کا فیصلہ پڑھ کر مجھے وہ کرسچین بھائی یاد آئے جو گزشتہ ساٹھ سال سے ایف سیون کے سلم ایریا Slum Area میں رہ رہے ہیں اور زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے اس جگہ کو پیرس کالونی کہا جاتا ہے اسلام آباد کا یہ بھی المیہ ہے کہ اشرافیہ کے فارم ہائوس کئی ایکڑوں پر ہیں لیکن نائب قاصد ریٹائر ہو جائے تو واپس گائوں جاتا ہے 7th ایونیو جس کا دوسرا نام آغا شاہی ایونیو ہے اسلام آباد کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ دونوں بڑے سرکاری ہسپتال یعنی پولی کلینک اور پمز PIMS مشرقی حصے میں واقع ہیں۔ شہر کے مغربی حصے میں ایک بھی سرکاری ہسپتال نہیں۔ جی 13 جی 14 اور جی 15 کی آبادی ساٹھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے مگر یہاں کوئی سرکاری سکول نہیں شہریوں نے وزیر تعلیم انجینئر بلیغ الرحمن وزیر کیڈ طارق فضل چوہدری کو متعدد خطوط لکھے مگر جواب تک نہیں ملا۔
اسلام آباد کو بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دریائے سندھ سے پانی لایا جائے شہر کے گرد جنگلات کی مکمل حفاظت ہو۔ بلڈنگ رولز کو پوری طرح فالو کیا جائے۔ تمام تجاوزات کو ختم کیا جائے۔ شہریوں کے لئے صحت مند تفریح کا بندوبست کیا جائے انٹرنیشنل لیول کا سٹیڈیم بنایا جائے اور ماسٹر پلان سے انحراف نہ کیا جائے۔
اسلام آباد کے مسائل کی جڑ کمزور گورننس ہے۔ اگر گورننس صحیح ہوتی تو راول لیک جھیل کے گرد گھر نہ بنتے۔ چک شہزاد کے فارم ہائوسز آج بھی زرعی فارم ہوتے اور اسلام آباد کے باسیوں کو انواع و اقسام کی سبزیاں اور فروٹ سپلائی کر رہے ہوتے۔ گورننس مضبوط ہوتی تو اسلام آباد کے سب سے بڑے فاطمہ جناح پارک میں عمارتیں نہ بنتیں۔