آثار بتا رہے ہیں کہ آصف علی زرداری اب واپس وطن آنے کے لیے کچھ زیادہ ہی بے تاب ہیں۔ اللہ انھیں صحت دے کیونکہ وہ بغرضِ علاج نیویارک میں مقیم ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق وہ چند روز کے لیے لندن آئے ہیں اوروہاں سے واپس نیویارک جا رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین نے فوجی قیادت کے بارے میں اپنے بعض ارشادات کی دوبارہ وضاحت کی ہے۔ حال ہی میں انھوں نے نیویارک میں ایک اخبار اور ایک ٹی وی چینل کو خصوصی انٹرویو بھی دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یقینا وطن واپس آئیں گے اور وہ نیویارک میں دفن نہیں ہونا چاہتے۔ساتھ ہی انھوں نے یہ وضاحت در وضاحت بھی کر دی کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات انھوں نے جرنیلوں کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں کی تھی۔ بعض تجزیہ کار یہ درفنطنی اڑا رہے ہیں کہ آصف زرداری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی نومبر میں مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد ہی وطن لوٹیں گے لیکن میری اطلاعات کے مطابق وہ مئی کے پہلے ہفتے میں واپسی کے لیے رخت سفر باندھ رہے ہیں۔
دراصل گزشتہ برس جون میں کی گئی ان کی ایک تقریر (جس میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”سیاستدان تو ہمیشہ سیاسی میدان میں موجود رہتے ہیں جبکہ جرنیل تین برس کے لیے آتے ہیں‘‘) ان کے گلے کا طوق بن گئی ہے۔زرداری صاحب نے گزشتہ برس اگست کے وسط میں لندن میں میرے ساتھ ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران بھی اپنے ارشادات عالیہ اور اس کے سیاق و سباق کے حوالے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی۔ اُس وقت ان کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین بھی ‘ جن کا اس انٹرویو کا انتظام و انصرام کرنے سے گہرا تعلق تھا‘ وہاں موجود تھے۔ حالانکہ برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اور پرانے جیالے واجد شمس الحسن جو خود بھی بنیادی طور پر صحافی ہیں، لندن میں ہی تھے لیکن انھیں اس انٹرویو کے معاملات سے دور رکھا گیاتھا۔ غالباً اس وقت تک آصف زرداری کو حالات کی سنگینی اور اسٹیبلشمنٹ کے اپنے بارے میں ارادوں کا پوری طرح ادراک نہیں تھا وگرنہ وہ ڈاکٹر عاصم حسین کو براستہ دبئی واپس پاکستان جانے کی کیوں کر اجازت دیتے۔ ڈاکٹر عاصم چند روز میں ہی کراچی واپس آگئے ۔ لاہور میں ایک نجی تقریب میں میری ان سے ملاقات بھی ہوئی اور اگلے روز ہی کراچی واپس پہنچتے ہی ایجنسیوں نے انھیں دھر لیا اور وہ اب تک پابند سلاسل ہیں۔مجھے اس سے اتفاق نہیں کہ ڈاکٹر عاصم ‘زرداری صاحب کے بقول خرگوش کی طرح ہیں۔ غالباً زرداری صاحب کا مدعا یہ ہے کہ عاصم حسین انتہائی کمزورانسان ہیں اور اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیںلیکن اس کے باوجود وہ اب بھی اپنے دوست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر رینجرز کا خیال تھا کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر دہشت گردی اور اربوں روپے کی کرپشن کا الزام لگا کر انھیں ایم کیو ایم کے مصطفی کمال یا انیس قائم خانی کی طرح وعدہ معاف گواہ بنا لیا جائے گا تو ان کی توقعات نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے ریمانڈ میں کئی بار توسیع کرنے کے بعد اب انھیں نیب کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت بھی کراچی کے معاملات میں کچھ الجھ سی گئی ہے۔پہلے اس کا خیال تھا کہ احتساب صرف ایم کیو ایم کا ہوگالیکن اب اس کی یہ خام خیالی دور ہو چکی ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے بعد پیپلزپارٹی کی باری بھی آگئی۔ غالباً آصف زرداری صاحب سمیت پیپلزپارٹی کی قیادت کو گلہ ہے کہ انھوں نے تو میاں نواز شریف کی دھرنے کے دنوں میں دامے درمے سخنے مدد کی لیکن جب ان پر افتادپڑی تو میاں صاحب بغلیں جھانکنے لگ پڑے۔حتیٰ کہ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان تو زرداری اینڈ کمپنی کو رگڑا لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دیتے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے بارے میں تو کہا جاتا تھا کہ وہ لیڈر آف اپوزیشن نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر ہیں،لیکن وہ بھی اب فرینڈلی اپوزیشن کا طوق اُتار چکے ہیں۔ زرداری صاحب نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ عمران خان کے گرینڈ الائنس میں شامل ہونے کو تیار نہیںلیکن انہیں اس طرف نہ دھکیلا جائے ۔ ان کا مسلسل اصرار ہے کہ نواز شریف کی حمایت جمہوریت کی خاطر کی۔ لگتا ہے کہ چوہدری نثار اور اُن جیسے دیگر نادان دوستوں کی بسیار کوششوں کے باوجود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی انڈر سٹینڈنگ ابھی برقرار ہے۔
پیپلزپارٹی اور عمران خان کا ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوجانا پیپلزپارٹی کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتا تھا۔ ایک بات تو واضح ہے کہ زرداری صاحب بھی ٹمپریچر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ اب عام انتخابات کے انعقاد میں ڈھائی برس سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے لہٰذا انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے لہٰذا انھیں بعض بنیادی فیصلے جلد کرنے پڑیں گے اگر وہ واپس نہیں آتے تو برخوردار بلاول بھٹو زرداری کو بااختیار بنائے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ چند روز قبل بلاول بھٹو اپنے دوست شہباز تاثیر کی بازیابی کے موقع پر انہیں مبارکباد دینے لاہور آئے، اس موقع پر وہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کی عیادت کے لیے ان کی رہائش گاہ پر بھی گئے۔اعتزاز احسن کی دل کی شریانوں میں حال ہی میں دو سٹنٹ پڑے ہیں اور اب وہ صحت یاب ہیں۔ بلاول نے حالیہ دورہ لاہور کے دوران کچھ جیالوں اور چند غیر جیالوں کو غیر رسمی گفتگو کا بھی موقع دیا اور انھوں نے ناقدین کی تنقید کو خندہ پیشانی سے سنا۔پارٹی ذرائع کے مطابق اب بلاول محض پاکستان کے دورے پر آنے کے بجائے مستقل طور پر یہیں مقیم رہیں گے۔4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر اپنے والد کی عدم موجودگی میں نوڈیرو میں تقریب کی صدارت بھی وہی کریں گے۔ پنجاب میں رحیم یار خان میں بھی ان کا جلسہ ہونے والا ہے۔ رحیم یار خان سیداحمد محمود کا علاقہ ہے جہاںعام انتخابات میں پیپلزپارٹی کاوہ حشر نہیںہواجو باقی پنجاب میں ہوا تھا۔ یقیناً پیپلزپارٹی کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے پنجاب میں کافی کام کرنا ہوگا اور محض طوفانی دوروں سے کام نہیں چلے گا۔ زرداری صاحب کے لیے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سیاست کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت ان کی حکمت عملی کے دوستون ہیں۔ایک فوجی قیادت سے مفاہمت اور دوسرا بلاول کا سیاست میں بڑھتا ہوارول۔ لیکن شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی وطن واپسی کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ زرداری صاحب طبعاًعمران خان کے ساتھ نہیں چل سکتے لیکن میاں نواز شریف کی پارٹی کو ان کی اس مجبوری کا ضرورت سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے کیونکہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ آج کے دشمن نظریہ ضرورت کے تحت کل دوست بھی بن سکتے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ انھوں نے زرداری کی فوج مخالف سٹیٹمنٹ کے خلاف آنے والے بیانات کی کبھی حمایت نہیں کی اور اینٹ سے اینٹ بجادینے والے بیان کی مذمت کی تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ زرداری صاحب جس تحریری خط کا حوالہ دیتے ہیں وہ سانحہ اے پی ایس کے بعد لکھا گیا تھا۔ چوہدری نثار نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ زرداری صاحب نے اپنی پارٹی کی مخالفت کے باوجودملک میں فوجی عدالتوں کی تشکیل کی حمایت کی تھی۔ زرداری صاحب نے اپنے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ موجودہ نظام میں صدارت کا منصب بیکار ہوچکا ہے لہٰذا اسے ختم کر دینا چاہیے اور جہاں تک ان کا تعلق ہے وہ صدر بنیں گے نہ وزیراعظم ۔ بلکہ بلاول بھٹو پاکستان کے آئندہ وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔ ان حالات میں چوہدری نثار کو اپنی توپوں کا رخ زرداری صاحب کے بجائے بلاول بھٹو کی طرف موڑنا
پڑے گا۔ بہرحال لگتا یہی ہے کہ جب سے مقتدرقوتوں کا روئے سخن کسی حد تک پیپلزپارٹی سے ہٹ کر دوبارہ ایم کیو ایم کی طرف ہواہے زرداری صاحب بھی کچھ ٹھنڈے پڑتے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ کے موقف کے برعکس پنجاب میں نیب کی کارروائیوں کی حمایت نہیں کی۔ دوسری طرف بھٹو فیملی کے پُرانے معتمد خصوصی بشیر ریاض کا یہ تجزیہ کہ چار کا ٹولہ زرداری صاحب کی جگہ بلاول بھٹو کو لانا چاہتا ہے ،درست نہیں لگتا۔اس ٹولے میں اعتزاز احسن، قمرزمان کائرہ کا نام بھی لیا جاتا ہے ۔ لیکن لگتا ہے کہ باپ بیٹے میں اختلافات تو ہوسکتے ہیں لیکن کوئی تضاد نہیں اور وہ اکٹھے ہی چلتے رہیں گے۔ زرداری اور نواز شریف بھی اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔