منتخب کردہ کالم

اسی پنڈیوں چاء پیتی!…حسنین جمال

اسی پنڈیوں چاء پیتی!…حسنین جمال
کوئی مانے نہ مانے لیکن بعض اوقات فوک شاعری میں، گانوں میں ایسا درد ہوتا ہے کہ سخت دل بندہ بھی موم ہو جاتا ہے۔ میں نے کوئی روشنی نہیں ڈالنی کہ بولیاں پنجابی میں کہاں سے آئیں‘ پہلی بولی کس نے گائی اور آخری بولی کا شاعر کون تھا۔ آم کھائیں بھائی آم، پیڑ گننا اپنا کام نہیں۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ بابر بھی نہیں ہے نہ وہ عالم ہے لیکن جو کچھ میسر ہے اس میں بولیاں جو ہیں یہ ایک بہت ہی بڑی نعمت ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بولیاں قوم کی امانت ہیں۔ ہم آئے روز عوام کی بہت سی امانتوں اور خدمتوں کے بارے میں سنتے ہیں لیکن یار، اس پیاری سی معصوم امانت کا بوجھ کس نے اٹھانا ہے؟ مثلاً یہ بولی اب جتنے باپ پڑھیں گے اور جتنی بیٹیاں پڑھیں گی، نہ آنکھوں میں نمی تیرے تو کل سے جمال گفت میں ایسا کچھ نہیں ملے گا!
کنڈا ٹٹ گیا پیٹی دا/ ابا جی دا خط آیا/ کی حال اے بیٹی دا۔ اس کا ترجمہ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پیٹی تو بستروں لحافوں سمیت سب بیٹیوں کو جہیز میں مل ہی جاتی تھی، کنڈی کے اندر چائنہ والا تالہ بھی لگا ہوتا تھا۔ اصل بات اس کے آگے والی ہے۔ مطلب کس قدر اپنائیت ہے، ملائمت ہے اس بولی میں کہ بیٹی نہ بھی رخصت کی ہو، بندہ آبدیدہ ضرور ہو گا۔ رشتے انسانوں سے ہوتے ہیں، انسان رشتوں سے نہیں ہوتے، بات صرف اتنی سی ہے۔ بیٹی کا دکھ محسوس کرنے کے لیے بیٹی ہونا ضروری نہیں، جس کے پاس ماں ہے یا اپنی ماں کی یاد ہے، وہ بھی کر سکتا ہے۔ ماں تو سب کی ہوتی ہے نا؟ تو بس یہ ٹپہ بھی یونیورسل ہے۔ یہ ہر ماں، ہر بیٹے، ہر بیٹی اور ہر باپ کے لیے کی گئی شاعری ہے۔ مرضی پھر بھی یاروں کی ہے جس نے ماننا ہے مان لے، نئیں تے ساڈے ولوں ترلا ای ہو سکدا اے۔
کوئی دھاگے نوں وٹ چھوڑو/ ساڈے نال نہ بولو/ پر اکھیاں تے نہ موڑو (کوئی دھاگے کو آ کر بن جائے/ بل دے جائے، ہمارے ساتھ نہ بولے لیکن نظریں تو بدل کے نہ جائے) پہلی بات تو یہ کہ بھائی شاعری کی ٹرانسلیشن کرنا ممکن نہیں۔ بہت سے لوگ باقی لفظ سمجھ جائیں گے، وٹ پہ آ کے باقاعدہ پھنس سکتے ہیں۔ وٹ تو اپنی ذات میں ایسا کمال لفظ ہے جس کے پندرہ بیس استعمال ہماری پنجابی میں ہیں اور ان کی تفصیل واٹس ایپ وغیرہ پہ مونچھیں بھی سفید کروا چکی ہے۔ ابھی صرف اسے کاپی پیسٹ کر دیا جائے تو اسلاف کی پیروی میں تحریر بھگت جائے گی‘ لیکن فی الحال نہ ہی وہ مقام ہے نہ مرتبہ، تو بات آگے چلائی جائے۔ یہ کیسی پیاری منت زاری کی گئی ہے۔ نہ کوئی لڑائی ہے، نہ جھگڑا ہے، نہ کوئی نخرہ ہے، نہ حکم ہے، بس ایک نازک سی درخواست ہے۔ دھاگے کے بل پہ ساری بولی موڑ دی جس نے بھی کہا، کمال کہا۔ کیا کیا آدمی چلا گیا صاحب، آج ہم کل تمہاری باری ہے۔
ہائے ہائے، یہ چیک کیجے، ”جتھے چردے اُٹھ ماہیا/ دل چنا عاشق دا/ ہوندا ریت دی مُٹھ ماہیا‘‘۔ اس سے زیادہ عربوں کے قریب ہم لوگ کیا ہو سکتا ہے۔ جاہلی دور کے شاعر بے چارے بھی یہی کہتے کہتے مر گئے، آج بھی اپنے بہاولپور کے پاس صحراؤں سے یہی آوازیں آ رہی ہیں۔ صدیاں بیت گئیں‘ وہی چرتا ہوا اونٹ ہے، وہی عاشق کا دل ہے، وہی ریت کی مٹھی ہے، بس کہنے والوں کے نام پہلے مکمل عربی ہوتے تھے آج کل تھوڑے بہت دیسی ہیں لیکن تقریباً وہی حساب صدیوں کے بعد بھی ہے۔ (جہاں محبوبہ کے اونٹوں کی چراگاہ ہے، کاش میرا دل بھی وہیں کی ریت ہوتا، اور بس ایک مٹھی سے زیادہ ہوتا بھی کیا)۔
چناں پالک ویہڑے دی/ اندروں کُھر گئے آں/ ایویں رونق چہرے دی۔ ہائے ہم کیا سے کیا ہو گئے! تو بس اتنی سی کہانی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جتنی اچھی گزر جائے، جتنی بری گزر جائے، تکلیف میں ہر بندہ ہے۔ اب یہ بولی پڑھ کے ٹھنڈے سانس اس نے بھی بھرنے ہیں جس کے پانچ بچے ہیں اور سچے پیار کو ترستا ہے۔ مولا بڑا دیالو ہے، اس کے خزانوں میں کمی نہیں لیکن یار کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ (صحن میں پالک لگی ہوئی ہے، دل کے اندر تمام رنگ جھڑ چکے ہیں، بس یہ چہرے کی رونق باقی ہے) اور یہ ہے۔ یہ تو کمبخت ایسا موضوع ہے کہ ٹیسٹ میچ ختم ہو جائے ہمارے شکوے ہمارے گلے نہ ختم ہوں۔ رنگ جھڑے کیوں؟ صرف چہرے کی رونق کیوں باقی ہے؟ کبھی غور کیا؟ بھائی وقت پہ بہادری دکھانی تھی۔ دیوداس دنیا میں ہر بندہ ہوتا ہے، مرزے کم ہوتے ہیں بلکہ ہوتے ہی نہیں ہیں کہ اب ماؤں نے مرزے پیدا کرنے بند کر دیے، صاحباں نے ایک بار ہی اچھی خاصی کر دی تھی۔ دیوداس اپنے غم میں ڈوب کے مرتے ہیں، مرزے مروائے جاتے ہیں۔ جو مر گیا اسے پھر رونق اڑ جانے کی فکر ہی کیا ہو گی۔ رہے نام اللہ کا۔
کوئی بدل چھائے ہوئے نیں/ اگ لگے نوٹاں نوں/ جناں وطن چھڑائے ہوئے نے۔ سونا لاون پی گئے، سونا کر گئے دیس، سونا ملا نہ پی ملے مرے روپا ہو گئے کیس۔ دو ٹکوں کی نوکری کے پیچھے ہر سال کتنے ساون جاتے ہیں۔ یہ باقاعدہ ایک کیس سٹڈی ہو سکتی ہے لیکن وہی دو ٹکے نہ کمائے جا سکیں تو بچوں کو زہر کھلا کے کتنی مائیں نہر میں چھلانگ لگاتی ہیں۔ یہ ایک الگ ریسرچ کا معاملہ ہے۔ بھائی جان، مہربان، قدر دان، دنیا ایک نوٹنکی ہے اور نرا چھل ہے، فریب ہے۔ اور یہ ہمارے بزرگوں نے ہمیں پہلے دن سے سمجھا دیا تھا کہ لکھو گے پڑھو گے بنو گے نواب، جو کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب۔ اسی نصیحت کے بھیانک نتیجے میں ظفر اللہ خان بھی ہارٹ اٹیک کروا بیٹھا، اور کتنے دوست کام سے ہی گئے، کھیلنے کودنے والی ہڈیاں بن نہ سکیں اور پڑھتے لکھتے دماغ دلوں کو لے کے بیٹھے۔ یہ بڑی پیچیدہ سائنس ہے۔ نوٹ وطن نہ بھی چھڑائیں بندے کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ نوٹ بالکل نہ ہوں تو بیڑہ ویسے تر جاتا ہے۔ مطلب چین اک پل نہیں اور کوئی حل نہیں۔ خداوندا تیرے یہ سادہ دل بندے کہاں جائیں (تحقیق؛ وطن کا استعارہ قصبے، گاؤں، شہر، ملک کسی بھی جگہ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور بے شک سرائیکی اور پنجابی اشرف المعانی زبانیں ہیں)۔
اسی پنڈیوں چا پیتی/ تیریاں من من کے/ اسی زندگی تباہ کیتی۔ جی جی بالکل اسی طرف جانا ہے۔ وہ اصغر خان صاحب کی گلی ہے، ادھر چوہدری برادران کھڑے نظر آتے ہیں، یہ بنی گالا کی پہاڑیاں ہیں، ادھر پاس چکری کا علاقہ لگتا ہے، اسی بیچ کچھ گاڑیاں موٹر وے پہ آنیاں جانیاں کرتی رہتی ہیں۔ پنڈی کی چائے آج کل ایک پارٹی بھی پینے کے چکروں میں ہے، شیخ الاسلام ہر سال پینے تشریف لاتے ہیں، وہ جو مولائے کل ہے وہ بڑا کار ساز ہے۔ وہ فانی انسانوں کو دنیا کے جھمیلوں میں الجھائے رکھتا ہے۔ کوئی انگلیوں کے اشارے ڈھونڈتا خضاب ٹھنڈا کروا بیٹھتا ہے، کوئی عہد ساز منصفوں کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ اس سب میں ایک مرد قلندر اپنی حویلی سے مثل خورشید طلوع ہوتا ہے اور ایک جھلک دکھا کے پھر غائب ہو جاتا ہے۔ سایہ بھی ساتھ چھوڑ جائے، ایسی ہے تنہائی۔ چائے جسے راس آ جائے وہ سوپر مین ہو جاتا ہے۔ وہ ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہے۔ وقت آنے پہ وہ ثابت بھی کر دیتا ہے کہ یہ چائے اور پوپائے دی سیلر مین کا ساگ ایک جیسی تاثیر رکھتے تھے۔ جب تک اثر رہے گا، اونچی اونچی باتیں ہوں گی، جہاں تاثیر کم ہونی شروع ہوئی تو سارے دعوے ختم۔ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ او پیا جاندا ای… روک سکو تو روک لو، اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ ایک مرتبہ ہمارے بزرگ آئے تھے سائیں، سامنے آئے تھے، پھانسی چڑھ گئے۔ اب نہیں آتے۔ اب ہم گائیں بجائیں گے اور دھرتی قلعی کرا کے ساری رات ناچیں گے۔
آری اُتے آری اے/ اکو جند یوسف دی/ سارا مصر بیوپاری اے۔ اس کی تشریح حسب حال کیجیے۔