منتخب کردہ کالم

اشرف غنی کو چودھری نثار کا جواب

چکری کا راجپوت یوں تو امور داخلہ کا وزیرہے لیکن جہاں بات پاکستان کی عزت کی آجائے تو پھر چودھری نثار علی خان امور خارجہ کا وزیر ہی کیا، پاکستان کا صدر، وزیراعظم، آرمی چیف حتیٰ کہ چیف جسٹس بھی بن جاتا ہے۔ یہ چودھری نثار علی خان کی پاکستان کے ساتھ اٹوٹ محبت کا رشتہ ہی ہے کہ وزیر داخلہ پاکستان کے خلاف کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ۔ہارٹ آف ایشیا میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے بعد اپنے ملک واپسی پر بھی افغان صدر پاکستان مخالف بیانات سے باز نہ آئے تو چودھری نثار علی خان نے پڑوسی ملک کے صدر پر صاف صاف واضح کردیا کہ ”افغان صدر دشمن کے بہکاوے میں آکراس کی زبان نہ بولیں۔ افغان صدر کو پاکستان پر الزام تراشی کی بجائے اپنے ملک میں صورتحال بہتر بنانی چاہیے،اگر افغانستان کی قیادت خود ہی نہ چاہ رہی ہو کہ اُن کے ملک میں امن قائم ہوتو دوسرا کیا کرسکتا ہے؟‘‘۔چودھری نثار علی خان کو غالباً زیادہ غصہ ہارٹ آف ایشیا میں اشرف غنی کی پاکستان مخالف زبان پر تھا اور انہوں نے یہ غصہ خوب نکالا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس جس کا بنیادی مقصد افغانستان میں قیام امن ہوتا ہے، لیکن امرتسر میں ہونے والی اِس کانفرنس میں افغان صدر نے بھارت کی شہ پر جس طرح الزام تراشی کی، اس سے صاف نظر آرہا تھا کہ غنی کے لہجے میں مودی بول رہا تھا۔
کانفرنس میں اپنے خطاب میں افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرنے کا الزام دہرایا تھا اور یہ بھی طنز کیا کہ ”پاکستان نے افغانستان کے لیے پانچ سو ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے، بہتر ہوگا کہ وہ اس رقم کا استعمال پاکستان کے اندر انتہا پسندی پر قابو پانے پر صرف کرے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ افغانستان کا سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے جہاں تقریباً 30 دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں، اور اِن تنظیموں کے کارکن اکثر پاکستان میں پناہ لیتے ہیں۔ اشرف غنی نے ایک شدت پسند رہنما کا مبینہ قول بھی سنایا کہ ”اگر پاکستان ہمیں پناہ نہ دے تو ہماری تنظیم ایک مہینے میں ختم ہو جائے‘‘۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان اِس وقت دنیا کا خطرناک ترین وار زون بن چکا ہے، جہاں سے امریکہ چاہتے ہوئے نکل نہیں پارہا۔ یہ افغانستان ہی تو ہے جو ماضی میں دنیا کی کئی عالمی طاقتوں کو ”کھا‘‘ چکا ہے ،اورکچھ معلوم نہیں کہ آنے والے دور میں افغانستان کو ابھی مزید کتنی عالمی طاقتوں کا قبرستان بننا ہے۔عالمی طاقتوں کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچانے کے دوران افغانستان کی صورتحال آنے والے دنوں، مہینوں اور سالوں میں ابھی کئی رنگ بدلے گی۔ افغانستان کی صورتحال میں کئی اتار چڑھاؤ آئیں گے، کبھی بازی دشمن کے حق میں اُلٹتی دکھائی دے گی اور کبھی بازی اپنے حق میں پلٹتی محسوس ہوگی۔ کبھی افغانستان سے دشمن کی بساط لپٹتی نظر آئے گی اور کبھی خود کو شہ مات ہوتی معلوم ہوگی۔ پہلے بھی لکھا تھا کہ ”حکمت یار اور حقانی کے میدان میں آنے کے بعد یہ معاملہ اب امریکیوں کے ہاتھ میں نہیں رہے گا، بلکہ اصل افغانوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔انہی اصل افغانوں میں ایک انجینئر گلبدین حکمت یار بھی ہے، جس کی حزب اسلامی نے روس کو ناکوں چنے چبوادیے تھے اور اسی حزب اسلامی کے ایک کمانڈر جلال الدین حقانی کا فیکٹر بھی ابھی تک پوری طرح علاقے میں موجود ہے‘‘۔ گلبدین حکمت یار منظر نامے سے غائب رہنے کے باوجود عام شہریوں اور تعلیمی اداروں پر حملوں کے مخالف رہے ہیں۔ غیر ملکی اخبار کے ساتھ انٹرویو میں حکمت یار نے کہا تھا کہ ”میرا نہیں خیال کہ کوئی سچا مسلمان اس طرح کے حملوں میں ملوث ہو سکتا ہے، حزب اسلامی نے اْن سخت پالیسیوں میں بھی نرمی دکھائی ہے جس میں خواتین پر تعلیم کی پابندی بھی شامل ہے‘‘ گلبدین حکمت یار نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ”ہماری جماعت لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کو بھی ضروری خیال کرتی ہے تاہم لڑکے اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کے خلاف ہے‘‘۔ اگرچہ حزب اسلامی نے حالیہ برسوں میں طالبان کی جانب سے جاری کارروائیوں میں بہت کم کردار ادا کیا، لیکن سی پیک کا منصوبہ روبہ عمل آنے اور گوادر پورٹ باقاعدہ فعال ہونے کے بعد اب جب روس، وسطی ایشیا اور یوریشین ممالک بھی سی پیک میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو افغانستان میں نیا دور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا۔ آنے والے دن مہینے اور سال امریکہ کیلئے کیسے ثابت ہوں گے، اس کا اندازہ بھی حکمت یار کے اُسی انٹرویو سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں انجینئر گلبدین نے کہا تھا کہ”غیر ملکی افواج کے انخلا سے قبل مجاہدین اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ ہم اِن افواج کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ یہ دوبارہ یہاں کا رخ کرنے کا تصور بھی نہیں کریں گے‘‘۔
دوسروں کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دینے کا الزام لگانے والے امریکہ اور افغانستان کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا افغان حکومت کے ساتھ معاہدے سے چند دن پہلے تک بھی حکمت یار ایک مطلوب دہشت گرد نہیں تھا؟ اور کیا اس میں کوئی دو رائے ہوسکتی ہیں کہ اگر آج ایک بار پھر امریکہ کو طالبان کی ضرورت پڑجائے تو یہی دہشت گرد ایک بار پھر امریکہ کے ہیرو نہ ہوں گے؟ امریکہ دہشت گردوں کو ہیرو اور ہیرو کو دہشت گرد قرار دینے کا کھیل کوئی پہلی مرتبہ نہیں کھیل رہا۔ اِس کھیل کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد حکمت یار نے گزشتہ دو دہائیوں میں روپوشی کی زندگی گزارنا زیادہ مناسب سمجھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ روسی انخلاء کے بعد کا پہلا افغان وزیراعظم کہاں ہے؟ کبھی موت کی خبر آتی اور کبھی پاک افغان سرحد پر موجودگی کی اطلاع ملتی رہی اور کبھی پتہ چلتا کہ حکمت یار ایران
میں موجود ہیں۔کبھی کبھی یہ بھی اطلاعات آتی رہیں کہ حکمت یار اور ان کے ساتھی افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف عملی طور پر برسرپیکار ہیں، لیکن ان تمام اطلاعات کے باوجود حکمت یار کبھی براہ راست میڈیا پر سامنے نہیں آئے۔لیکن اس سارے عرصہ میں امریکہ اور افغان حکومت کیلئے حکمت یار ہمیشہ ایک دہشت گرد ہی رہا اور اب اُسی دہشت گرد کے ساتھ سیاست اور حکومت میں شریک کرنے کا معاہدہ بھی کرچکا ہے۔
قارئین کرام!! گزشتہ چار دہائیوں میں مشکل ترین حالات میں پاکستان نے افغانستان کی جس طرح مدد کی، اس کا بدلہ اب افغانستان کی قیادت پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرکے دے رہی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد اور امن کی فاختہ کو خون میں لت پت کرنے کے بعد دنیا کے ہاتھ جو کچھ آیا ، وہ کچھ اور نہ تھا بلکہ امریکہ کا ایک نیا دشمن تھا اور یہ دشمن بھی کوئی اور نہ تھا بلکہ امریکہ کے اپنے ”لاڈلے‘‘ مجاہدین تھے جو اب دہشت گرد قرار دیے جاچکے تھے، ایک بڑی طاقت کے سامنے یہ ”دہشت گرد‘‘ کھلی میدانی جنگ لڑنے کے قابل نہ تھے، اس لیے اِن ”دہشت گردوں‘‘ نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بھی گوریلا جنگ کی وہی بساط بچھادی، جس میں پھنساکر وہ پہلے خون آشام سوویت بھیڑیے کے جبڑے توڑ چکے تھے، لیکن یہ سب کچھ امریکہ کو قبول ہی نہ ہی افغانستان اور نہ ہی بھارت کو! لیکن نریندر مودی کے حصار میں گھرے اشرف غنی کو یہ بات کیسے سمجھ آئے؟