اصغر خان کیس کا فیصلہ کن مرحلہ….رئوف طاہر
اصغر خان کیس اپنے آخری (اور فیصلہ کن) مرحلے میں داخل ہو چکا۔ یہ 28 سال قبل (1990ء کے انتخابات میں) آئی ایس آئی کی طرف سے پیپلز پارٹی کے مخالف سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کا معاملہ ہے (جس میں دو تین سینئر صحافیوں کا نام بھی آتا ہے) اس دور کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی بھی کیس کے بڑے ملزموں میں شامل ہیں۔ ایک نام جنرل (ر) رفاقت کا بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ سار ے فسانے میں اُس دور کے صدرِ مملکت غلام اسحاق خان کا نام تک نہیں جو اس معاملے کے ماسٹرمائنڈ تھے۔ موصوف کے مداحین انہیں پاکستان کی تاریخ کے چند ایماندار ترین ”رہنمائوں‘‘ میں شمار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہم قرونِ اولیٰ کے کسی پاک دل و پاک باز حکمران کا قصہ سن رہے ہوں۔ مرحوم فاروق لغاری کی طرح ان کی تہجد گزاری کا ذکر بھی عام ہوتا۔ قومی وسائل کے معاملات میں اتنے محتاط اور پرہیز گار کہ مجال ہے جو ایوان صدر کا کوئی ایک پنکھا بھی بلا ضرورت چل رہا ہو۔ رات کو ایوانِ صدر کی فالتو بتیاں بھی خود بجھاتے پھرتے۔
ایک ٹاک شو میں اس درویش خدا مست کے انہی اوصاف کا ذکر ہو رہا تھا۔ ہم سے رہا نہ گیا۔ کسی طول طویل جوابی بیان کے بجائے صرف ایک مثال پر اکتفا کیا۔ 6اگست 1990ء کو بے نظیر حکومت کی برطرفی والی فرد جرم میں، ایک الزام سنگین کرپشن کا بھی تھا جس کے بڑے ملزم ”مردِ اوّل‘‘ تھے۔ اس سے پہلے ”مسٹر ٹین پرسینٹ‘‘ کے عنوان سے قصے کہانیوں کا ماخذ و منبع بھی ”بابا جی‘‘ کا ایوانِ صدر ہی تھا‘ جہاں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے سکیورٹی رسک ہونے کا بھی اتنا ہی یقین تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف سے ”بابا جی‘‘ کی ناراضی کا ایک بڑا سبب، نوجوان وزیر اعظم کی حزبِ اختلاف کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش (اور کوشش) بھی تھی‘ جس نے قواعد و ضوابط میں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے اجلاس میں آصف زرداری کی شرکت کو یقینی بنانے کا اہتمام کیا، اس کے لیے وہ کراچی کی جیل سے اسلام آباد آتے جہاں ایک ریسٹ ہائوس میں ان کے شایانِ شان قیام کا اہتمام ہوتا۔
بے نظیر صاحبہ کا نومبر 1992ء کا ٹرین مارچ ناکام ہو چکا تھا‘ لیکن وزیر اعظم نواز شریف کی حزبِ اختلاف کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش موجود تھی؛ چنانچہ قائد حزب اختلاف کو ملک کے اندر اور باہر وفاقی وزیر کے مطابق پروٹوکول دینے کا فیصلہ کیا گیا، محترمہ کو فارن افیئر کمیٹی کا (بلا مقابلہ) سربراہ بھی منتخب کر لیا گیا۔ وہ آصفہ کی ڈلیوری کے لیے لندن گئیں تو جملہ اخراجات بھی سرکاری خزانے سے ادا کئے گئے۔ ”بابا جی‘‘ کے لیے یہ سب چیزیں تشویشناک تھیں، وہ سمجھتے تھے کہ نواز شریف کی طرف سے محترمہ کی دل جوئی کے یہ اقدامات آٹھویں ترمیم میں صدر کے صوابدیدی اختیارات کے خاتمے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ ان میں حکومت اور اسمبلی کی برطرفی والا آرٹیکل 58/2B بھی تھا۔ ”بابا جی‘‘ کی پانچ سالہ مدتِ صدارت بھی مکمل ہونے کو تھی۔ وہ اگلی ٹرم بھی چاہتے تھے۔ کہا جاتا ہے، ایوان صدر کے اگلے مکین کے لیے وزیر اعظم نوازشریف کی نظر سید غوث علی شاہ پر تھی (لاہور کے بزرگ ایڈیٹر کی خواہش بھی یہی تھی، جنہیں شریف فیملی میں‘ خاندان کے بزرگ کی حیثیت حاصل تھی) آخر کار نواز شریف کی رخصتی کا فیصلہ ہوگیا۔ بے نظیر صاحبہ کے لیے بھی نواز شریف سے پچھلے بدلے چکانے کا موقع آ گیا تھا۔ وہ لندن سے اسلام آباد پہنچیں اور سیدھے ایوان صدر کا رخ کیا۔ نگران وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں آصف زرداری بھی تھے۔ پاک دل و پاک باز صدر نے اس شام جن وزرا سے حلف لیا، ان میں ”مسٹر ٹین پرسینٹ‘‘ بھی تھے‘ جو کراچی کی جیل سے ایوان صدر پہنچے تھے۔
اصغر خان کیس سے شروع ہونے والی بات ”بابا جی‘‘ کے بابرکت ذکر کے ساتھ کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اب چیف جسٹس جناب ثاقب نثار اس کیس کو انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ یقین نہیں آتا، آئی ایس آئی کے فیض یافتگان میں ہماری جماعت اسلامی کے کھاتے میں بھی (50 لاکھ) موجود ہیں۔ فہرست میں شامل کئی لوگ اپنے رب کے حضور پہنچ چکے۔ ان میں پیر صاحب پگاڑا (20 لاکھ) غلام مصطفی جتوئی (50 لاکھ) محمد جونیجو (25لاکھ )جام صادق (50 لاکھ) بلوچستان کے سرور کاکڑ (10 لاکھ) جام یوسف (ساڑھے سات لاکھ) عبدالحفیظ پیرزادہ (30 لاکھ) کرنل (ر) غلام سرور چیمہ (5 لاکھ) یوسف ہارون (5 لاکھ) اور ”ہر دو جہاں سے غنی‘‘ ملک معراج خالد (2 لاکھ) شامل ہیں۔
جو یہ دن دیکھنے کے لیے زندہ ہیں، ان میں نواز شریف (35 لاکھ) میر ظفراللہ جمالی (40 لاکھ) الطاف حسین (20 لاکھ) ارباب غلام رحیم (20 لاکھ) غلام مصطفی کھر (20 لاکھ) لیاقت جتوئی (10 لاکھ) بیگم عابدہ حسین (10 لاکھ) اور آفاق احمد (5 لاکھ) شامل ہیں۔ بدھ (6 جون) کی پیشی کے لیے جناب خورشید شاہ کا نام بھی شامل تھا۔ ان کے نام نوٹس غلطی سے جاری ہو گیا تھا۔ نواز شریف نیب کورٹ میں مصروفیت کے باعث سپریم کورٹ میں پیش نہ ہو سکے۔ جاوید ہاشمی پر 50 لاکھ وصولی کا الزام تھا۔ وہ پیش ہوئے اور بتایا کہ وہ ماضی میں یہ انکوائری نمٹا چکے ہیں۔ مشرف دور میں انہوں نے پانچ سال یہ کیس بھگتا اور بے گناہ قرار پائے۔
1990ء کے الیکشن میں نواز شریف وزیر اعظم بنے (اگرچہ ایوان صدر اور اسٹیبلشمنٹ کی چوائس غلام مصطفی جتوئی تھے) وزیر اعظم نواز شریف اور آئی ایس آئی چیف جنرل درانی کے تعلقات کیسے تھے، اس کا کچھ ذکر ” سپائی کرانیکلز‘‘ میں بھی موجود ہے۔ ادتیہ سنہا کے ایک سوال کے جواب میں جنرل اسد درانی کا کہنا تھا، ”نواز شریف میرے بارے میں مشکوک تھے، ان کا میرے بارے میں خیال تھا کہ اس شخص پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ چھ ماہ کے اندر انہوں نے اپنا بااعتماد شخص تعینات کر دیا اور میں آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے سبکدوش ہو گیا‘‘۔
ریحام خان کی کتاب ابھی عدم سے وجود میں نہیں آئی لیکن اتنے دنوں بعد بھی الیکٹرانک میڈیا پر بطور خاص، ہاٹ کیک بنی ہوئی ہے (نوبت ایک انڈین ٹی وی چینل سے ریحام خان کے انٹرویو تک جا پہنچی ہے) ریحام خوش قسمت ہے کہ عمران خان کے سپورٹر، اس کی کتاب کے پروموٹر بن گئے ہیں۔ نیگیٹو پبلسٹی بھی کم موثر نہیں ہوتی۔ اپنے دورِ جاہلیت کا ایک واقعہ یاد آیا۔ دورِ طالب علمی میں جمعیت سے وابستگی کے باوجود ہم سال، چھ ماہ میں ایک آدھ بار، اپنے آزاد خیال دوستوں کے اصرار پر کوئی فلم دیکھ آتے۔ انہی دنوں ایک پنجابی فلم آئی، جس کے لیے باکس آفس پر دو ہفتے ٹھہرنا بھی مشکل تھا کہ ایک اخبار میں اس کے خلاف مہم شروع ہو گئی‘ جس میں فلم میں عریاں رقص اور فحش جملے بازی کا حوالہ ہوتا۔ معاشرتی اصلاح کی ذمے دار کاغذی قسم کی تنظیموں کو ایسا موقع خدا دے؛ چنانچہ وہ بھی اخباری صفحات پر کود پڑیں… دم توڑتی ہوئی فلم کو نئی زندگی مل گئی اور اس نے مہینوں اترنے کا نام نہ لیا۔
ریحام خان کی کتاب میں کیا ہے؟ اس حوالے سے جو کچھ بھی ہے، حمزہ علی عباسی جیسے خان کے نادان دوستوں کے ذریعے منظر عام پر آرہا ہے۔ اس کی صداقت کے حوالے سے فاضل مصنفہ کا جواب ہوتا ہے کہ وہ تردید یا تصدیق کیوں کرے۔ کتاب آئے گی تو سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ ہمارے ایک نکتہ ور دوست دور کی کوڑی لائے، ریحام خان پر تو ہتکِ عزت کا مقدمہ تب بنے گا، جب کتاب منظر عام پر آئے گی۔ ابھی تو خان کے نادان دوست ہتک عزت کے مرتکب ہو رہے ہیں، جو اسے دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی، کتاب کی ٹائمنگ کا حوالہ بھی دیتی ہے، لیکن اس اعتراض کی کیا بات؟ ہر چیز کے بکنے کا ایک موسم ہوتا ہے۔ گرم کپڑوں کا تاجر جون جولائی میں تو دکان نہیں سجائے گا۔ اس کے لیے وہ دسمبر جنوری کی سردیوں کا انتظار کرتا ہے۔ ائیر کنڈیشنر اور روم کولر گرمیوں میں اور ہیٹر سردیوں میں بکتے ہیں۔ ایک عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ اس قسم کی کتاب کے لیے الیکشن کا سیزن ہی مفید ہوتا ہے۔ باقی رہی، یہ بات کہ حنیف عباسی نے ڈیڑھ سال قبل اس کتاب کے متعلق پیشگوئی کیسے کر دی؟ تو یہ باتیں تو طلاق کے فوراً بعد گردش کرنے لگی تھیں کہ ریحام خان نے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا ہے… سب سے بڑا لطیفہ اس کتاب کی تیاری کے لیے نون لیگ کے میڈیا سیل میں حسین حقانی کی شمولیت کا ہے۔