اعمال کی قبولیت…علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے اعمال اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوں۔ لیکن بہت سے لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اعمال کی قبولیت کے لیے اعمال کی ظاہری اور باطنی شکل کا درست ہونا ضروری ہے۔ کسی بھی شے کی درستگی اور توازن کے لیے اس کی داخلی اور خارجی صورت کا درست ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جس طرح کسی آدمی کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی بیماریوں سے پاک نہ ہو‘ اسی طرح اعمال میں بھی ظاہری اور باطنی اعتبار سے قبولیت والے لوازمات موجود ہونے چاہئیں۔باطنی اعتبار سے اعمال کی قبولیت کے لیے اصلاح نیت شرط ہے۔ جب تک کسی انسان کی نیت درست نہ ہو گی اس وقت تک اس کے اعمال اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہو سکتے۔ اصلاح نیت کے حوالے سے بخاری شریف کی دو احادیث درج ذیل ہیں:
1 ۔نبی کریم ﷺفرمایا کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
2۔رسول اللہﷺنے فرمایا ”گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں۔ ایک شخص کے لیے ان کا رکھنا کار ثواب ہے، دوسرے کے لیے برابر برابر نہ عذاب نہ ثواب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے وہ اجر ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے راستے کے لیے باندھ کر رکھا اور اس کی رسی چراہ گاہ میں دراز کر دی تو وہ گھوڑا جتنی دور تک چراہ گاہ میں گھوم کر چرے گا وہ مالک کی نیکیوں میں ترقی کا ذریعہ ہو گا اور اگر گھوڑے نے اس دراز رسی کو بھی تڑوا لیا اور ایک یا دو دوڑ اس نے لگائی تو اس کے قدموں کے نشانات اور اس کی لید بھی مالک کے لیے باعث اجر و ثواب ہو گی اور اگر گھوڑا کسی نہر سے گزرا اور اس نے نہر کا پانی پی لیا، مالک نے اسے پلانے کا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا تب بھی مالک کے لیے یہ اجر کا باعث ہو گا اور ایسا گھوڑا اپنے مالک کے لیے ثواب ہوتا ہے اور دوسرا شخص برابر برابر والا ہوتا ہے جو گھوڑے کو اظہار بے نیازی یا اپنے بچاؤ کی غرض سے باندھتا ہے اور اس کی پشت اور گردن پر اللہ کے حق کو بھی نہیں بھولتا تو یہ گھوڑا اس کے لیے نہ عذاب ہے نہ ثواب اور تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کو فخر اور ریا کے لیے باندھتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال جان ہے ۔‘‘
ان احادیث سے نیت کی درستگی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں مختلف مذاہب اور نظریات کے پیروکار لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نیت درست رکھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فقط نیت کی درستگی سے ان لوگوں کے اعمال قبولیت کے مقام پر پہنچ جائیں گے؟ کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اعمال کی قبولیت کے لیے نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی اور آپﷺ کی اتباع کرنا انتہائی ضروری ہے۔ نبی کریمﷺ کی پیروی اور اتباع کے حوالے سے قرآن مجید کی چند آیات درج ذیل ہیں:
1۔سورہ احزاب کی آیت نمبر 21 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:”بلاشبہ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔ (اس) کے لیے جو اللہ (سے ملاقات)اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کا ذکر کرے کثرت سے۔‘‘
2۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر31 میں ارشاد ہوا”آپ کہہ دیں اگر ہو تم محبت کرتے اللہ سے تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے لگااور وہ معاف کر دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے۔‘‘
3۔ سورہ حجرات کی آیت نمبر1 میں ارشاد ہوا:”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم آگے مت بڑھو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے۔اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے۔‘‘
سورہ احزاب کی آیت نمبر 71 میں ارشاد ہوا:”اورجو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی۔‘‘
ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے اسوہ کی پیروی راہ راست پر رہنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔انسان کے اعمال اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اسی وقت مقبول ہوں گے جب انسان اللہ تعالیٰ کے حبیب علیہ السلام کے اسوہ کی پیروی کرے گا۔ نبی کریم ﷺ کے اسوہ کی اہمیت کے حوالے سے چند احادیث درج ذیل ہیں:
1۔عبداللہ ابن عمروبن العاصؓ بیان فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور پھر دن میں روزے رکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ لیکن اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری آنکھیں ( بیداری کی وجہ سے ) بیٹھ جائیں گی اور تمہاری جان ناتواں ہو جائے گی۔ یہ جان لو کہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے اور بیوی بچوں کا بھی۔ اس لیے کبھی روزہ بھی رکھو اور کبھی بلا روزے کے بھی رہو، عبادت بھی کرو اور سویا بھی کرو۔
2۔بخاری شریف ہی میں ایک اور مقام پر اسی حدیث کو قدرے تفصیل سے یوں بیان کیا گیا ہے کہ عبداللہ ابن عمرو بن العاص ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبداللہ! کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم دن میں تو روزہ رکھتے ہو اور ساری رات نماز پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی صحیح ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا، کہ ایسا نہ کر، روزہ بھی رکھ اور بے روزہ کے بھی رہ۔ نماز بھی پڑھ اور سوئو بھی۔ کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملاقات کرنے والوں کا بھی تم پر حق ہے بس یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو، کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا اور اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہو جائے گا، لیکن میں نے اپنے پر سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ! میں اپنے میں قوت پاتا ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھ اور اس سے آگے نہ بڑھ، میں نے پوچھا اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بے روزہ رہا کرتے تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ بعد میں جب ضعیف ہو گئے تو کہا کرتے تھے کاش! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی رخصت مان لیتا۔
3۔ تین صحابہ کرام ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ تو معصوم عن الخطاء ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کی قبولیت کے لیے نبی کریمﷺ کے اسوہ کامل کی پیروی کرنا نہایت ضروری ہے ۔اس حوالے سے اگر انسان فرض عبادات پر غور کرے تو یہ بات با آسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اگر انسان نبی کریم ﷺ کی سنت اوراسوہ سے پیش قدمی یا روگردانی کرنے کی کوشش کرے تو اس کی عبادات قبول نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اگر فجر کی نماز کے دو فرائض کی بجائے تین فرائض ادا کیے جائیں یا مغرب کے تین فرائض کی بجائے چار فرائض ادا کیے جائیں تو ایسی عبادت یقینا اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر ہر رکعت میں دو کی بجائے تین سجدے کیے جائیں تو ایسی صورت میں بھی عبادات اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوں گی۔ صفہ اور مروہ کی سعی کے سات چکروں کی بجائے آٹھ یا نو چکر لگانے کی صورت میں سعی قبول نہیں ہو گی اسی طرح طواف کے سات چکروں کی بجائے نو چکر لگانے کی صورت میں طواف قبول نہیں ہو گا۔ چنانچہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوں تو ہمیں نیت کی اصلاح کے بعد نبی کریمﷺ کی سنت سے تمسک کو اختیار کرنا چاہیے۔ اسی اصلاح ِنیت اور سنت سے تمسک کی وجہ سے ہمارے اعمال قبولیت سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔