اقتداراور نفس….ھارون الرشید
ایک ذاتی مجبوری کے تحت‘ کچھ دن کالم میں بے قاعدگی رہے گی۔ خانہ پری کے لیے‘ یہ عزیزم اویس رشید کا مضمون ہے‘ اس کی پہلی کاوش۔
”ایک ہزار برس ہونے کو ہیں کہ علی بن عثمان ہجویریؒ دنیا میں تشریف لائے۔ جنہیں ہم سب داتا صاحبؒ کے نام سے جانتے ہیں۔ دنیا آج بھی ان کے علم کی روشنی سے منّور ہے۔ جن کے بارے میں خواجہ معین الدین چشتیؒ نے فرمایا تھا:
گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما
آپ کی معرکۃالآرا تصنیف ”کشف المحجوب‘‘ کے حوالے سے خواجہ نے ارشاد فرمایا تھا : جس کا کوئی پیر و مرشد نہیں ، اسے ‘کشف المحجوب‘ کے مطالعے سے استاد مل جائے گا۔ وہی کشف المحجوب ، جس سے آج تک ہم جیسے بھولے بھٹکے رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔ کبھی مجھے لاہور والوں کی قسمت پہ رشک آتا ہے کہ داتا صاحب‘ ان کے درمیان آرام فرما ہیں۔ اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور آسائشوں کے باوجودشہرِ اقتدار کسی کا نہیں۔ آج کوئی یہاں طاقت کے نشے میں چور ہے تو کل کوئی اور خود کو زندگی کا محور اور مرکز سمجھ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہو گا۔ وہی طاقت اور اقتدار ، عقل و دانش والوں نے ہمیشہ جس سے کراہت کا اظہار کیا۔ اس اقتدار کو شیر کی سواری کہا گیا۔ ان میں سے بعض نے انتہائی مجبوری کے عالم میں ہی اسے قبول بھی کیا۔ اکثر نے تو طاقت، حکومت اور اقتدار کو ٹھوکر مار کر ایک عامی کی سی زندگی جینے کو ترجیح دی۔
دنیا کے تمام بڑے اولیا اور صوفیاء کرام اس بات کی تلقین کرتے‘ فانی دنیا سے رخصت ہو ئے کہ نفس پر قابو پایا جائے۔ تصوف کی تعلیمات کا اگر کوئی ایک نکاتی ایجنڈا ہے تو یہی ہے کہ کس طرح انسان اپنے نفس میں پروان چڑھتی منہ زور اور وحشیانہ جبلّتوں پر قابو پائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مسلسل ریاضت کرتا رہے۔ داتا صاحبؒ کی تصنیف بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے ایک شاگرد کے کچھ سوالوں کے جواب میں لکھی۔ دنیا اب تک جس سے فیض حاصل کرتی ہے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں اس موضوع پر بات کرنا نوجوانوں کے بس کی بات نہیں۔کیا محض کم عمر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تصوف پر بات نہ کی جائے؟ کیا تصوف ، جسے انگریزی میں Mysticism کہا جاتا ہے ، کا حساس اور پیچیدہ موضوع صرف بزرگوں ہی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ آدمی جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے ، اس وقت ہی وہ سیکھنا شروع کرے کہ تصوف کس بلا کا نام ہے ؟ اس وقت ، جب بہت دیر ہو چکی ہو اور تمام عمر گزر چکی ہو؟ ہمارے معاشرے میں نجانے مجھ سمیت لوگوں کو ہر بات ٹھوکر کھا کر سیکھنے کی عادت کیوں ہے۔ عقلمندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ آنے والے حالات کی تیاری اور پیش قدمی پہلے سے ہی کر لی جائے۔ اس وقت، جب کہ ذہنی اور جسمانی طور پر انسان کی قوت اپنے عروج پر ہو۔ علوم حاصل کرنے اور غور و فکر کے لیے مطلوبہ طاقت انسان کے جسم و دماغ میں موجود ہو۔ زندگی کی مدّت ویسے بھی کتنی ہے ، یہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا۔ تقدیر کے فیصلوں کے سامنے، جو دراصل ہماری ہی بہتری کے لیے کیے جاتے ہیں ، ہمیں آج نہیں تو کل سرِ تسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔ جہاں تک کچھ لوگوں کے نزدیک تصوّف کے حساس اور پیچیدہ ہونے کا تعلق ہے تو اس کی باریکیوں کا اندازہ زندگی کے مختلف مراحل اور تجربات سے گزر کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ سمجھنا آخر کتنا مشکل ہے کہ انسان اپنے نفس پر قابو پانے کے لیے کوشش کرے اور اس کے لیے ضروری ریاضت، مجاہدہ اور مشقت کرے؟ کیا اسلام کا بنیادی پیغام بھی یہی نہیں ہے کہ کس طرح انسان اپنی زندگی میں توازن و اعتدال قائم کرے ؟ جو ظاہر ہے کہ اپنے نفس پر قابو پائے بغیر ممکن نہیں۔ تصوف اسلام سے ہٹ کر یا اس کے متصادم کوئی الگ چیز نہیں ہے بلکہ یہ دراصل اسلام کے بنیادی اصولوں سے اخذ کیا گیا ہے ، جن میں عبادات سے لے کر معاملات‘ اور معاملات سے لے کر سماجی ، معاشی اور معاشرتی پہلوؤں تک سب کچھ ایک دلچسپ اور منفرد انداز سے بیان کیا جاتا ہے۔
کچھ ہی دن گزرے ہیں کہ عظیم صوفی جنیدِ بغدادؒ کا یومِ وصال گزرا۔ وہی جنیدِ بغدادؒ‘ جن کے تصوف کے سلسلے ہی سے داتا صاحب کا تعلق بھی ہے۔ غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی عظیم اور بلند پایہ ہستی کا بھی۔ برسوں تک جن کی تعلیمات ، روحانیت، معرفت اور علم پر بات کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو مکمل نہ ہو سکے۔ حضرت جنیدِ بغدادؒ کے ایک ایک جملے میں اس قدر حکمت اور علم کا خزانہ دفن ہے کہ پڑھنے والا دنگ رہ جائے اور اس کی روح تک سرشار ہو جائے۔ شیخؒ نے فرمایا ”سچی تو بہ یہ ہے کہ تو سچے دل سے توبہ کرے اور پھر تجھے شایاں نہیں کہ عمر بھر کبھی یہ یاد بھی کرے کہ تو نے کوئی گناہ کیا تھا‘‘
صوفی اس طرح مخلوق کو خدا کی طرف بلاتا ہے کہ ایک عام فہم انسان سے لے کر ایک ذہین شخص تک ، سبھی اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملّا کے برعکس لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے صوفیا کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
ابتدا میں تصوف اور ساتھ ہی اقتدار کا ذکر ا س لیے کیا کہ نفس پر قابو کیونکر پایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے نفس پر غالب نہیں آئے گا تو اس کا نفس اس پر قابو پا لے گا۔ پھر اقتدارگویا شیر کی سواری کے مترادف ہوگا۔ پھر اسے اپنی ذات اور اقتدار کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ موزوں تر نتائج اخذ کرنے کے لیے اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں۔ آپ کو بہت سے ایسے چہرے دکھائی دیں گے ۔ ایسی آوازیں سنائی دیں گی ، جن میں سرفہرست ایک غمگین سا چہرہ ہو گا اور ”مجھے کیوں نکالا‘‘ کی ایک درد ناک آواز۔ اس کے برعکس اگر آپ ان لوگوں کو دیکھیں ، خدا سے جن کا تعلق ہوا کرتا ہے، اقتدار سے محرومی پر وہ شکر کے کلمے ادا کرتے ہوئے رخصت ہوتے۔
کوئی ہے ، جو اپنی ذات میں الجھ جاتا ہے؟ ایک کے بعد دوسرا ناکام اور رسوا حکمران۔ کوئی ہے ،جو اپنی ذات سے بہت اوپر اٹھ جاتاہے۔ دنیا اسے محمد علی جناح کے نام سے پہچانتی ہے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں اس موضوع پر بات کرنا نوجوانوں کے بس کی بات نہیں۔کیا محض کم عمر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تصوف پر بات نہ کی جائے؟ کیا تصوف ، جسے انگریزی میں Mysticism کہا جاتا ہے ، کا حساس اور پیچیدہ موضوع صرف بزرگوں ہی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ آدمی جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے ، اس وقت ہی وہ سیکھنا شروع کرے کہ تصوف کس بلا کا نام ہے ؟ اس وقت ، جب بہت دیر ہو چکی ہو اور تمام عمر گزر چکی ہو؟ ہمارے معاشرے میں نجانے مجھ سمیت لوگوں کو ہر بات ٹھوکر کھا کر سیکھنے کی عادت کیوں ہے۔