اقلیتوں کی عید غریباں … وجاہت مسعود
ہمارا باپ ایک نیک شخص تھا۔ زندگی بھر بچوں کی بہتری کے لئے دن رات کام کرتا رہا یہاں تک کہ صحت جواب دے گئی۔ اس حالت میں اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے مقدمہ لڑا، ڈاکٹر ہمارے باپ کی صحت سے مایوس تھے۔ مگر وہ عظیم شخص اپنی صحت کی خرابی کا ذکر نہیں کرتا تھا۔ بالآخر ہمارے باپ نے مقدمہ جیت لیا اور اپنا کل اثاثہ بچوں کے سپرد کر دیا۔ اس روز ہمارے باپ نے بچوں کو کچھ خوش خبریاں سنائیں اور کچھ نصیحتیں کی تھیں۔ یہ 11 اگست 1947 کا دن تھا۔ ہمارے عظیم باپ کا نام محمد علی جناح تھا۔
ہم سب سانس روکے ہوئے بوڑھے باپ کی بات سن رہے تھے۔ قبلہ گاہی نے فرمایا کہ تم آزاد ہو۔ زمین کا یہ ٹکڑا جو تمہیں دے کر جا رہا ہوں یہ تم سب کا ہے۔ یہاں تم اپنی مسجدوں یا مندروں میں جاؤ یا کسی بھی عبادت گاہ میں جاؤ، تم پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ تم کس عبادت گاہ میں جاتے ہو اور کس طرح عبادت کرتے ہو اس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ عظیم باپ کے نااہل بچوں نے باپ کی آدھی بات سنی، آدھی بات پر کان نہیں دھرے۔ یہ تو سن لیا کہ ہم آزاد ہیں، آزادی کا جو مطلب عظیم باپ نے بتایا تھا وہ نہیں سمجھا۔ بچوں نے اپنی حماقت میں نتیجہ یہ نکالا کہ ہمیں دوسروں کی عبادت کو غلط قرار دینے، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرنے اور اور عبادت گزاروں کا خون بہانے کی آزادی مل گئی ہے۔ ہم نے یہ بھی سوچ لیا کہ اپنے عقیدے کے نام پہ ہم جو بھی کریں، ریاست کو اس میں دخل دینے کا حق نہیں۔ ہمارے باپ نے یہ تو نہیں کہا تھا۔ ہمارے باپ نے تو ہمیں آزادی کی خوش خبری دیتے ہوئے یہ سمجھایا تھا کہ آزادی کا مطلب تہی دست اور غریب کی حفاظت کرنا ہے۔ ہمارے باپ نے یہ آزادی ہمیں ذمہ داری کے طور پر سونپی تھی۔ ہم نے اس آزادی کو بیوہ عورتوں کے مکانوں، یتیم بچوں کی زمینوں اور غریب طبقوں کا حق رزق چھننے کا لائسنس بنا لیا۔
ہمارے عظیم باپ نے 11 اگست 1947 کو اس ملک کی بنیاد رکھتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا، ہمارے گیانی باپ نے وضاحت کی کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہندو اور مسلمان اپنا مذہب چھوڑ دیں گے۔ مسلم، مسیحی، ہندو، پارسی اور سکھ اپنے عقیدوں پر قائم رہیں گے۔ اس سے ان کے سینوں میں روشنی پیدا ہو گی البتہ گلی کوچوں میں، کام کی جگہوں پر، عدالتوں میں اور فیصلہ ساز ایوانوں میں ان سب کی بنیادی شناخت پاکستان کا شہری ہونا ہو گی۔ قوم کے باپ نے ہمیں اول و آخر پاکستانی ہونے کا درس دیا تھا۔ ہم نے اس نصیحت کو پیروں تلے روند ڈالا۔ ہم نے شناخت کا احترام کرنے کے بجائے شناخت کو تفریق اور استحصال کا ہتھیار بنا ڈالا۔ نتیجہ یہ کہ ہم بہت سے ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ ہم نے ان ٹکڑوں میں دھینگا مشتی کو دوام بخشنے کی غرض سے نئے گروہ تخلیق کیے تاکہ جہاں تک ممکن ہو دوسروں کے منہ کا نوالہ چھینا جا سکے۔ انہیں غدار قرار دے کر جیلوں میں ڈالا جا سکے۔ انہیں کافر قرار دے کر تہہ تیغ کیا جا سکے۔ انہیں ملک دشمن قرار دے کر ہر طرح کے ظلم کو جواز بخشا جا سکے۔ ہم زبان اور ثقافت کی بنیاد پر ان گنت دھڑوں میں بٹ گئے۔ ہم نے عقیدے کی بنیاد پر نئی نئی دیواریں کھڑی کیں۔ ہم نے سیاسی رائے کے اختلاف کو ناانصافی کا جواز بنا دیا۔
زندگی بھر دیانت داری سے اپنا کام کرنے والے بزرگ جب حیات مستعار کی آخری منزلوں پر پہنچتے ہیں تو اپنے تجربات کا نچوڑ آنے والی نسلوں کو منتقل کیا کرتے ہیں۔ 11 اگست 1947 کے دن ہمارے باپ نے ہمیں ترقی کرنے اور سلامت رہنے کا ایک راستہ بھی دکھایا تھا۔ ہمارے باپ نے کہا تھا کہ اگر تم ایک دوسرے کے ساتھ انصاف، احترام اور محبت سے پیش آؤ گے تو تم اتنی ترقی کرو گے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ہو گی۔ ترقی کا خواب تو ہم نے گرہ میں باندھ لیا۔ محبت اور اتفاق کا درس بھول گئے۔ ہم نے عدالت کے کمروں میں ناانصافی کی۔ اخبار کے صفحات پر نفرت اور تفرقہ پھیلایا۔ درس گاہوں میں جھوٹ پڑھایا۔ ہم نے ذاتی زندگیوں سے دیانت کو خارج کر دیا۔ ہم دوسروں سے دیانت اور پارسائی کا مطالبہ کرتے رہے، اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی دہائی دیتے رہے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا بہترین وقت تو وہی ہوتا ہے جب ظلم کسی اور پر ہو رہا ہو۔ دوسروں پر ظلم ہوتا دیکھ کر ہم اپنا دروازہ بند کر لیتے تھے اور سوچتے تھے کہ لہو کی لکیر ہماری دہلیز تک نہیں پہنچے گی۔ لہو کی لکیر آب پاشی کی نالیوں کی طرح اس زمین کے ہر کونے تک پہنچی اور اذیت کا آنسو ہر آنکھ سے برآمد ہوا ہے۔ درد کی چبھن ہر بن مو سے لہو بن کے ٹپکی۔ ہم ترقی نہیں کر سکے، تعلیم نہیں پا سکے، خوشحال نہیں ہو سکے، مہذب نہیں بن سکے، ہم غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔ ہم غربت کے ہر معنی میں غریب ہوئے ہیں۔
ہمارے شفیق باپ نے ہمیں اقربا پروری، ذخیرہ اندوزی اور بدعنوانی سے منع کیا تھا۔ ہمارے باپ نے ایک شفاف زندگی گزاری۔ ہمارا باپ لاکھوں روپے کماتا تھا۔ وہ خوش ذائقہ کھانے پسند کرتا تھا، نفیس کپڑے پہنتا تھا۔ ہمارا باپ منافق نہیں تھا۔ اپنی ذات پر اپنی جیب سے خرچ کرتا تھا۔ اپنی بہن سے محبت کا بار بار ذکر کرتا تھا۔ ایک روز ہمارے باپ کا چھوٹا بھائی ان سے ملنے آیا۔ اس نے اپنے وزیٹنگ کارڈ پر محمد علی جناح کا بھائی ہونے کا ذکر کر رکھا تھا۔ ہمارے باپ نے اس جملے پر قلم پھیر دیا اور بھائی سے ملاقات نہیں کی۔ ہمارا باپ بہادر تھا، ایک شخص چاقو لے کر ان کے دفتر میں گھس گیا، ہمارے نحیف و نزار باپ نے قاتل کا ہاتھ اس مضبوطی سے تھام لیا کہ وہ بے بس ہو گیا۔ ایک جونیئر سرکاری اہلکار صحافت پر پابندیوں کا مسودہ قانون لے کر حاضر ہوا، ہمارے باپ نے کہا، میں زندگی بھر صحافت کی آزادی کے لئے لڑا ہوں، مجھ سے توقع مت کرنا کہ میں صحافت کی آزادی میں رکاوٹ ڈالوں گا۔ ہمارا باپ ریاست کے انتظام اور اداروں کی حدود کو سمجھتا تھا۔ ایک برخود غلط فوجی افسر نے قائد کو بن مانگا مشورہ دینے کی کوشش کی تو ہمارے باپ نے اس کی فہمائش کرتے ہوئے کہا، تمہارا کام ریاست کے فیصلے کرنا نہیں، سیاسی راہنماؤں کے حکم کی تعمیل کرنا ہے۔ ہمارے باپ نے کوئٹہ میں فوجی افسروں اور کراچی میں افسر شاہی کے اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے یہی اصول بیان کیے تھے۔ ہمارا قائد اقربا پروری اور ضابطے کی خلاف ورزی کو ملک کے لئے نقصان دہ سمجھتا تھا۔ ہمارے باپ نے 11 اگست کی تقریر میں اقربا پروری، رشوت ستانی اور ملاوٹ کا نام لے کر ذکر کیا تھا۔ ہمارا قائد چاہتا تھا کہ قانون میں نظریہ ضرورت کی ملاوٹ نہ کی جائے۔ ادارے اپنی حدود میں رہیں۔ نیز یہ کہ اس ملک میں وہی نظام چلے جو یہاں کے عوام چاہیں گے۔
کل 11 اگست تھی۔ 11 اگست کو شہریوں کی عید ہونا تھی کیونکہ ہمارے باپ نے اس دن ہمیں پاکستان کا شہری ہونے کی نوید دی تھی۔ شہری ہونے کا تصور رتبے، حقوق اور صلاحیت کی مساوات سے مشروط ہوتا ہے۔ ہم نے شرائط پوری نہیں کیں اس لئے یہ دن شہریوں کا دن نہیں، اقلیت کا دن قرار دیا گیا ہے۔ مہذب معاشرہ اپنے شہریوں کو اقلیت اور اکثریت کے آہنی ڈبوں میں بند نہیں کرتا۔ اگر 11 اگست کو اقلیتوں کا دن کہا جائے تو دراصل یہ غریبوں اور تہی دست شہریوں کی عید غریباں بن جاتا ہے۔ آئیے عید غریباں مناتے ہیں۔