منتخب کردہ کالم

اقلیتوں کے جہنم میں سسکتی انسانیت! نازیہ مصطفیٰ (حرف ناز)

یہ ٹھیک پندرہ برس پہلے فروری 2002ء کی بات ہے، جب بھارتی شہر گودھرا میں ایک ٹرین میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا، جس میں 59 مسافر ہلاک ہو گئے۔ مرنے والوں میں اکثریت ہندو توا کے انتہاپسند پیروکاروں کی تھی، کسی تحقیق بغیر اس واقعہ کا الزام مسلمانوں پر لگادیا گیا، جس کے بعد پورے گجرات میں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے ، یہ فسادات گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت اور شہ پر کیے گئے، انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان فسادات کو مسلمانوں کی نسل کشی کے مترادف قرار دیا۔ اِن فسادات میں تقریباً 2500 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا، بیشترکو زندہ جلا دیا گیا،مسلمانوں کے گھر بار جلائے گئے اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی اور ہزاروں مسلمان بے گھر کردیے گئے۔ ان فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی کردار ادا نہ کیا بلکہ گجرات کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے اس کھلے عام قتل و غارت کی سرپرستی کی۔ اس وقت بی جے پی کی وفاق میں حکومت نے بھی گجرات میں فسادات روکنے کی کوشش نہ کی۔حد تو یہ کی گئی کہ واقعہ کی تحقیقات میں کسی مسلمان گروہ پر الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود گیارہ سال بعد بھارت کی ایک عدالت نے 31 غریب مسلمانوں کو سزا سنا دی، حالانکہ تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ ٹرین میں آگ کا لگنا دہشت گردی نہیں بلکہ محض ایک حادثہ تھا، لیکن اس کے باوجود فسادات میں ملوث کسی ہندو کے خلاف اب تک کوئی عدالتی کارروائی نہیں کی گئی ۔ اب بھی مسلمان بھارت کی ریاست گجرات میں مہاجروں کی طرح رہ رہے ہیں اور دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔گجرات کے مسلم کش فسادات تو بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم کی”دیگ میں سے چند دانے‘‘ ہیں، ورنہ تو ساری کی ساری دیگ کا ہی یہی عالم ہے۔
جب گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی کی جارہی تھی، اُس وقت تو یورپی یونین نے بھی اس نسل کشی پر کھلے عام احتجاج کرنے سے گریز کیا اور یہی طرز عمل امریکہ کا بھی رہا، لیکن آنے والے برسوں میں جب مسلمانوں کے بعد دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونے لگا تو مغرب بھی اس ظلم پر خاموش نہ رہ سکا۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے امریکی کمیشن یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی رپورٹ میں بھانڈا پھوڑا کہ حالیہ برسوں میں بھارت میں عدم برداشت اور مذہبی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات میں اضافہ ہوا ہے۔اس رپورٹ کے اہم نکات کے مطابق اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماء ان تنظیموں کی خاموش حمایت کرتے ہیں اور ماحول کو زیادہ خراب کرنے کے لیے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والی زبان استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کے متعصب رویے اور عدالت سے جلد انصاف نہ ملنے کی وجہ سے اقلیتی برادری کے لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو ہندووں کی جانب سے بڑھتے ہوئے ظلم و ستم، تشدد اور اشتعال انگیز تقاریر کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کو دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ آئینی اور قانونی چینلجز بھی درپیش ہیں۔ اقلیتوں کے عائلی قوانین میں چھیڑچھار جیسے معاملات تو ایک طرف رہے گزشتہ سال بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے انتہاپسند ارکان پارلیمنٹ نے مسلمانوں کی آبادی کو روکنے کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کردیا تھا۔ مثال کے طور پر دو برس قبل فروری 2015 میں سنگھ پریوار کا ایک اہم اجلاس میں بی جے پی کے کئی قومی لیڈر ز بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ اس اجلاس میں کئی ہندو رہنماؤں نے مسلمانوں کو ”شیطان‘‘ قرار دے کر برباد کرنے کی دھمکی دی۔ دوسری جانب اقلیتیں ہیں جو سماجی دباؤ اور پولیس کے رویے کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کی باضابطہ طور شکایت بھی نہیں کرپاتیں۔ پولیس شدت پسندی کے جھوٹے الزامات لگاکر مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے اور بغیر مقدمہ چلائے برسوں تک پس زنداں پھینک دیتی ہے۔ بھارت میں گائے ذبح کرنے پر پابندی کی وجہ سے مسلمانوں اور دلتوں کا معاشی نقصان تو کیا ہی جارہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس قانون کی مبینہ خلاف ورزی کی آڑ میں ایک جانب مسلمانوں کو بے جا پریشان کیا جاتا ہے اور دوسری طرف ہندوؤں کو تشدد کے لیے بھی اکسایا جاتا ہے۔مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلتیں بھی انتہاپسند ہندووں کا کوئی کم نشانہ نہیں بن رہیں۔ مثال کے طور پر صرف 2015 کے اعدادوشمار ہی دیکھیں تو مسیحی افراد پر تشدد کے 365 کیسز سامنے آئے جبکہ 2014 میں یہ تعداد 120 تھی۔ عیسائی برادری ان واقعات کا ذمہ دار انتہاپسند ہندو جماعتوں کو ٹھہراتی ہے، جنہیں حکمران بی جے پی کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے۔بھارت میں قانونی چیلنجز میں اقلیتوں کو درپیش ایک اہم ترین معاملہ مذہب کی تبدیلی کا قانون بھی ہے، جس کی وجہ سے بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر عرصہ حیات تنگ ہوچکا ہے۔ تین برس پہلے ہندو تنظیموں نے گھر واپسی کے پروگرام کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، لیکن اندرون و بیرون ملک مظاہروں کے بعد آر ایس ایس نے یہ پروگرام ملتوی کردیا۔ 2015 میں ہی بی جے پی نے تبدیلیِ مذہب پر پابندی لگانے کے لیے ملک بھر میں قانون بنانے کا پھر مطالبہ کردیا تھا۔
بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ دن بدن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ ایک جانب اگر بھارت کے سابق حکمران جماعت کانگریس کی رہنماء سونیا گاندھی کو بھارت میں ہندووں کی جانب سے بڑھتی عدم رواداری پر تشویش ہے تو دوسری جانب مودی سرکار کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے والا امریکہ بھی اب چیخ اُٹھا ہے۔ حال ہی میں امریکی کمیشن نے بھارت میں مذہبی آزادی کی خراب صورتحال پراپنی رپورٹ میں متنبہ کیا کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔بھارت کی انتہا پسند جماعت بی جے پی اور قوم پرست دیگر جماعتیں اقلیتوں کو ہراساں کرنے میں ملوث ہیں، جس کے باعث بھارت میں اقلیتوں کو کئی مواقع پر نفرت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔مذہبی آزادی سے متعلق بھارت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، امریکی رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ حالات ٹھیک نہ ہوئے تو وہ امریکی محکمہ خارجہ کو سفارشات بھیج سکتے ہیں۔
قارئین کرام!!بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا بدترین سلوک انڈیا کے اُس سیکولراور روشن خیال نظریے کی مکمل نفی ہے، جس کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر بھارت نے ستر سال تک دنیا کو بیوقوف بنائے رکھا، لیکن اب بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ انتہا پر پہنچ چکا ہے، جس کے سامنے آگ کا دریا ہے۔ آگ کا یہ دریا انسانی خون کی بھینٹ مانتا ہے۔ اگر دنیا اپنی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ کر خون کی یہ بھینٹ دینے کیلئے تیار ہے شاید کچھ وقت اور یونہی گزر جائے، ورنہ اقلیتوں کے تحفظ کیلئے دنیا کو بھارتی ہندوتوا کے پیروکاروں کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا، تاکہ اقلیتوں کے اِس جہنم میں سسکتی انسانیت کو کچھ تو حوصلہ مل سکے۔