الفاظ نہیں عمل…ہارون الرشید
ساری کامیابیاں اور ناکامیاں آدمی کی اپنی ہوتی ہیں۔ اپنا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا خیرخواہ خود ہوتا ہے ۔اللہ کا فرمان یہی ہے اور ظاہر ہے کہ تاریخ کا سبق بھی۔
اصل ا متحان کا آغاز اب ہے۔ تقریر خان نے اچھی کی۔ داد اس سے بھی زیادہ ملی۔ اسلامک یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کے نام ایک خط میں ، اس نامور سکالر ڈاکٹر حمیداللہ نے لکھا تھا : اہمیت الفاظ کی نہیں ، عمل کی ہوتی ہے ۔
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غوّاض کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
بخاری شریف کی پہلی حدیث یہ ہے : اعمال کا دارومدار نیتّ پر ہوتا ہے ۔ کتاب میں لکھا ہے: قربانی کا خون اور ہڈیاں نہیں ، اللہ کو نیت پہنچتی ہے۔
ربع صدی ہوتی ہے ، عمران خان سے پوچھا : آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے ؟ ” میں اپنی Limitations (محدودات) کو سمجھتا ہوں‘‘ اس نے کہا ۔ڈٹ کر کھڑا رہا اور کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا حصّہ ہو گیا۔ سیاست میں بھی اسی طرح وہ ڈٹا رہا‘ حتیٰ کہ 25 جولائی کا ماہتاب طلوع ہوا ۔خیال تھا کہ ایک سو سیٹیں بمشکل جیت سکے گا۔ ان عوامل کے سوا ، سبھی جن سے واقف ہیں ، آخری مرحلے میں متذبذب ووٹر مدد کو پہنچا ۔ اسے فوج کا حامی اور فوج کو اس کا پشت پناہ قرار دیاگیا۔ عام آدمی اور فعال طبقات میں سے کاروباری لوگ‘ ہر چیز سے زیادہ استحکام کے آرزو مند ہوتے ہیں ۔ وہ اس کی طرف پلٹ پڑے۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں کپتان کے جواں سال حامیوں نے ، زیادہ جوش و جذبے اور عملی روییّ کا مظاہرہ کیا۔ میاں محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری پہ کرپشن کے سنگین الزامات انہیں لے ڈوبے ۔ بعض اعتبار سے شہباز شریف کی کارکردگی اچھی تھی مگر کرپشن، مگر آشیانہ ، لیکن چھپن کمپنیاں۔ دیہی سندھ میں پولیس اور افسر شاہی بڑی حد تک زرداری صاحب کے رحم و کرم پہ تھی۔ زرداری نواز گٹھ جوڑ کے اندیشے سے ، سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ نرمی برتی گئی۔ سندھ میں کار فرما رینجرز‘ پیپلز پارٹی کے چند سفاک وڈیروں پہ گرفت کرتی تو نتائج مختلف ہوتے۔
کرکٹ میں ضرورلیکن سیاست میں عمران خان اپنی محدودات کو کبھی نہ سمجھا سکا ۔ 23 سال کی عملی سیاست کے باوجود‘ اب بھی اس کا سیاسی ادراک کم ہے۔ مشیر ادنیٰ تھے ، خود غرض یا سطحی ۔ کم از کم بیس پچیس ٹکٹ نا مستحق آرزومندوں پہ لٹا دیئے گئے‘ مثلاً گوجرانوالہ کا صدیق گتّے والا ۔ علیم خان ، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے علاوہ ، کراچی اور پختون خوا میں اس کے رفقا ذمہ دار ہیں؛ لہٰذاوہ خود بھی۔ سرگودھا میں ممتاز کاہلوں ، یقینا ڈاکٹر نادیہ سے زیادہ ووٹ لیتے۔
اس کے باوجود اگر وہ کامیاب رہا توواحد وجہ پختون خوا میں اس کی کارکردگی تھی ۔ آخری ایک ہفتے میں شہباز شریف کا سارا زور دو نکات پہ رہا۔ ایک‘ بلین درخت محض افسانہ ہیں… اور یہ کہ پشاور میٹروکے منصوبے میں اربوں روپے کی گڑبڑ ہے ۔ ووٹروں نے اس پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا۔ اگر صداقت عباسی اور عامر کیانی ایسے امیدوار بھی کامیاب ہوگئے تو یہ اس لہر کے طفیل تھا، جو آخری دنوں میں اٹھی ۔میڈیا جس کا ادراک نہ کرسکا۔اثاثہ نہیں یہ بوجھ ثابت ہوں گے۔
شاہ محمود تو صرف اپنی ذات کو عزیز رکھتے ہیں۔ عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین پارٹی سے مخلص رہے ۔ دل کھول کر سرمایہ صرف کیا اور غیر معمولی ریاضت کی۔ جہانگیر ترین اور شاہ محمود کھیل سے نکل گئے مگر علیم خان امیدوار ہیں‘ سب سے نمایاں امیدوار۔
خاکسار کی رائے میں وزارتِ اعلیٰ کے منصب سے انہیں دستبردار ہو جانا چاہئے۔ ریاضت کیش ہیں، مگراصول کا تقاضہ مختلف ہے۔ ہر آدمی کا ایک کام ہوتا ہے۔ اپنی صلاحیت اسی میدان میں اسے آزمانی چاہئے۔ ضرورت مندوں کے لئے پچاس لاکھ مکان بنانے اور ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا جو پیمان پارٹی نے کیا ہے‘ اس میں وہ ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ ملازمتیں مکانوں ہی سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ ان کے قریبی ساتھی شعیب صدیقی پر ، ٹکٹوں کی تقسیم میں نقب زنی کا الزام ہے۔ اس الزام کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ جب تک یہ تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتی، شعیب صدیقی کو پارٹی اور جناب علیم خان کو سرکاری ذمہ داریوں سے الگ رہنا چاہئے۔ چوہدری پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ سونپنے کا خواب اور بھی زیادہ احمقانہ ہے۔ کوئی حلیف کتنا ہی مخلص ہو‘ کیا اس کے لیے پوری پارٹی اٹھا پھینکی جائے گی؟ ان کا سیاسی کردار یقیناً بڑھ جائے گاکہ بڑا تجربہ ہے مگر وزارتِ اعلیٰ؟
عمران خان تسلیم کریں یا نہ کریں، 23 برس کی سیاسی زندگی میں بالعموم اور پچھلے پانچ برس میں، بالخصوص انہوں نے پہاڑ سی غلطیاں کیں، 2013 ء میں زیر نگیں صوبے سمیت ، ٹکٹوں کی تقسیم میں صلاحیت اور اہلیت کو تقریباً مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ پرویز خٹک کو وزارت اعلیٰ سونپ کر ایک اور غلطی کا ارتکاب ہوا۔ اسی کے نتیجے میں وہ کابینہ تشکیل پائی، صوبائی محتسب کی جس نے مزاحمت کی اوربدنامی کمائی۔ یہی لوگ تھے ، جن کے احمقانہ طرز عمل نے میٹرو منصوبے کو مذاق بناکر رکھ دیا۔ اوّل تو یہ ضروری کیوں تھا۔ ثانیاً اس کے اخراجات دن بدن بڑھتے کیوں گئے۔ فریب دہی اگر نہیں تو پرلے درجے کی نالائقی ۔پھر یہ کہ پیہم تاخیر سے بالآخریہ مذاق بن کر رہ گیا۔ اس کے باوجود کپتان کو مہلت ملی ہے تو کامیابی پہ فخر کرنے کی بجائے ، غلطیوں سے سبق سیکھناچاہئے ۔
شدید دبائو اور مصروفیت کے باوجود ، الیکشن کی نشریات کا جولازمی نتیجہ تھا ، وقفے وقفے سے ،دنیا ٹی وی کے صدر دفتر میں مباحثہ جاری رہا ۔ یہ کہ حماقتوں کے باوجود ، عمران خان کی خیرہ کن کامیابی کا راز کیا ہے ؟ تقریباً اتفاق رائے تھا کہ وفا داریاں بدلنے والے موقعہ پرستوں کی اکثریت کو عوام نے مسترد کر دیا۔ لاہور کے میاں محمد اسلم ایسے امیدوار سرخرو رہے ، پارٹی سے جن کی وفاداری اور اخلاص مسلّم تھا۔خود تو جیتے ہی ، ان کی ریاضت سے قومی اسمبلی کا امیدوار بھی سرفراز ہوا۔
بسترِ مرگ پہ اورنگ زیب عالمگیر کو خبر ملی کہ بہترین گورنروں میں سے ایک کو ، اس کے جانشین نے برطرف کر دیا ہے۔ چالیس برس تک گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر حکومت کرنے والا عبقری حیران رہ گیا۔ صاحبزادے سے کہا تو فقط یہ کہا ” وہ تو سونے کا بنا ہوا آدمی ہے ، ایسے ہی لوگوں کے بل پر سلطنتیں قائم رہتیں اور فروغ پاتی ہیں‘‘ ۔ پھر یہ شعر پڑھتا ہوا دنیا سے رخصت ہوگیا۔
بہر لحظہ بہر ساعت بہر دم
دگر گوں میشود احوالِ عالم
ہر گزرتی ساعت کے ساتھ ، دنیا کی حالت دگرگوں ہوتی جارہی ہے ۔ باقی تاریخ ہے ۔
باقی صرف یہ کہ اب تک عمران خان کے اردگرد خود غرض اور نالائق مشیروں کا جمگھٹا رہا۔کاروبار ہو ، حکومت یا کوئی اور چیلنج، نظم و نسق میں بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ ذمہ داریاں اہل ترین لوگوں کو سونپی جائیں ۔ حکمت ہی وہ چیز ہے ، حسن نیت کے ساتھ مل کر جو معجزے دکھا سکتی ہے۔ بہت سے مشورے دینے والوں نے بے غرضی سے عمران خان کو مشورے دیئے ہیں۔ ان میں ایسے ہیں جنہیں اس کی ذات اور پارٹی سے زیادہ ملک سے دلچسپی ہے ۔ حکمت کی بجائے مصلحت ، احساسِ ذمہ داری کی بجائے لا ابالی پن کا مظاہرہ کیا تو نتیجہ معلوم ۔
آئے عشّاق گئے وعدہ ِ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ ِزیبا لے کر
بہت دکھ اس قوم نے جھیلے ہیں۔ بہت زخم کھائے ہیں۔ اسے لوٹا گیا ہے اور بہت بری طرح۔ بار بار بے رحمی اور بے دردی سے اس کے خوابوں کی فصل اجاڑ ی گئی ۔ خدا خدا کرکے امید کی یہ ایک ساعت پھوٹی ہے۔ یہ بھی اگر تاریکی میں تحلیل ہونے لگی تو برسوں تک مایوسی اور تاریکی چھائی رہے گی ۔
مشکلات بہت ہیں‘ رکاوٹیں بہت ہیں۔ ملک اور پارٹی کے دشمن بہت طاقتور‘ اصل خطرہ مگر ان سے نہیں‘ خود اپنی صفوں کے کھوٹے لوگوں سے ہے۔ ساری کامیابیاں اور ناکامیاں آدمی کی اپنی ہوتی ہیں۔اپنا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا خیرخواہ خود وہ ہوتا ہے ۔اللہ کا فرمان یہی ہے اور ظاہر ہے کہ تاریخ کا سبق بھی ۔