اللہ اللہ ایسی بے نیازی…ہارون الرشید
اللہ اللہ ایسی احتیاط اور اللہ اللہ ایسی بے نیازی۔ کون کہتا ہے کہ شریف خاندان میں مغل خاندان کے تیور پائے جاتے ہیں؟
اگر یہ ایک ذمہ دار اخبار نویس کی لکھی ہوئی کہانی نہ ہوتی‘ تو یقین ہی نہ آتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی‘ میاں محمد نوازشریف کی نون لیگ‘ چھ افراد کے ایک قاتل کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ عطا کر دے؟ وہ جماعت جسے اپنی تاریخ کے بدترین ابتلا کا سامنا ہے۔ جس کے بچ نکلنے اور مستقبل میں نمو پانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کسی بڑی حماقت سے گریز کرے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے۔ اپنے دامن کے بدنما داغ دھونے کی کوشش کرے۔ نہ کہ غیر ذمہ دار بازاری چھوکروں کی طرح کیچڑ میں لت پت ہوتی رہے۔ اقتدار ہی نہیں‘ اس کے لیڈروں کا اور بہت کچھ دائو پہ لگا ہے۔
عالمی پریس‘ عدالتوں اور مخالفین کے عتاب کا شکار ایک ملک گیر سیاسی پارٹی کیا ایسی ہولناک غیرذمہ داری کا ارتکاب کر سکتی ہے کہ نو لاکھ افراد کے حلقۂ انتخاب میں ایک بے رحم قاتل کو اپنی نمائندگی کا اعزاز بخشے۔ مبینہ طور پر قاتل کبھی وہ‘ جس کا تعلق ایک انتہاپسند فرقہ وارانہ تنظیم سے رہا۔ ایک ایسی تنظیم ‘جس نے مارکیٹوں‘ مزارات‘ امام بارگاہوں‘ مینابازاروں اور اقلیتی عبادت گاہوں میں دھماکے کیے۔ ہزاروں بے گناہ شہریوں کو خون میں نہلا دیا… اور ان کارناموں پہ انہیں فخر ہے۔ اپنے مکتب ِفکر کے سوا‘ اکثر دوسرے گروہوں کو وہ کافر قرار دیتے ہیں۔ اس لیے ان اولیاء اللہ کے وہ مقابر بھی ان کا نشانہ بنتے رہے‘ جن میں سے ایک سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا۔
خاک پنجاب ازدم او زندہ گشت
صبح ما از مہر او تابندہ گشت
پنجاب کی خاک اس کے دم سے زندہ ہوئی۔ میری سحر اس کی محبت کے نور سے تابندہ ہے۔ وہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے عہد میں نمودار ہونے والے خارجیوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خاکم بدہن وہ شخص بھی خطاکار تھا‘ اللہ کے آخری رسولؐ نے جسے شہر علم کا دروازہ قرار دیا تھا…اور یہ کہا تھا: علیؓ جس کا مولا ہے‘ میں بھی اس کا مولا ہوں۔
مسلم برصغیر فرقہ وارانہ اختلافات کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ چار سو برس ہوتے ہیں‘ جب ایک ممتاز اور معتبر مسلم مفکر نے اپنے مخالف مکتب ِ فکر کے ماننے والوں کو کافر قرار دیا؛ اگرچہ بعد میں یہ فتویٰ انہوں نے واپس لے لیا۔ یہ ہمایوں کے فرزند جہانگیر کا عہد تھا۔ اس کے جانشین شاہجہاں کے بعد‘ محی الدین اورنگ زیب عالمگیر اقتدار میں آئے ‘تو تخت نشینی کی خون ریز جنگیں لڑی گئیں۔ بنگال سے لے کر ماورالنہر تک اپنا اقتدار وہ مستحکم کر چکے‘ تو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی طرف متوجہ ہوئے۔
اورنگ زیب کو عام طور پر ایک سخت گیر مذہبی حکمران سمجھا جاتا ہے؛ حالانکہ اس کی شخصیت کے کئی پہلو درخشندہ ہیں۔ اقبالؔ نے اسے ”ترکشِ مارا خدنگ آخریں‘‘ ہمارے ترکش کا آخری تیر کہا تھا…اور اس عہد کے عظیم عارف سلطان باہو نے برملا اس کی تائید کی تھی۔ امورِ سلطنت کی نزاکتوں کا بہت گہرا ادراک وہ رکھتے تھے۔ مورخ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ غیرمعمولی علم‘ فصاحت اور معاملہ فہمی کے امین تھے۔ بعض اوقات تو دیکھنے والے حیرت زدہ رہ جاتے کہ زوال پذیر معاشرے کے حکمران کی روح میں کیسی تابناکی ہے۔
وقائع نگار نے لکھا ہے کہ ایک بار اپنے پسندیدہ خادم محمد حسن کو انہوں نے آواز دی۔ ”حسن‘‘ بادشاہ نے پکارا۔ وہ آب دست کے لیے لپکا۔ پانی کا برتن جو وضو کے لیے مختص ہوتا ہے۔ ایک دوسرے خادم نے تعجب کا اظہار کیا کہ ایسا کرنے کو جہاں پناہ نے ہرگز نہیں کہا۔ حسن کا جواب یہ تھا: جب وہ باوضو ہوتے ہیں تو ہمیشہ ”محمد حسن‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ادھورا نام لینے کا مطلب یہ ہے کہ وضو سے نہیں اور اس کے آرزومند ہیں۔ ایسے میں سرکارؐ کا نام نہیں لیتے۔
محمد حسن کے کچھ اور دلچسپ واقعات بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ دارالحکومت دلّی سے متصل جمنا کی سیر کے لیے بادشاہ نکلا۔ دریا کنارے اپنی بگھی سے وہ اترا ہی تھا کہ ایک گھڑسوار پیامبر لپکتا ہوا آیا۔ ابھی ابھی حسن سے اورنگ زیب عالمگیر نے سوال کیا تھا‘ کھانے کی چیزوں میں تمہارے بادشاہ کو سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ ”بیضہ‘‘ اس نے کہا۔ پچاس برس تک گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہ کر حکومت کرنے والے شہسوار کو کھانے میں انڈا مرغوب تھا۔
اڑتی ہوئی گرد میں حکمران فرستادے کی طرف متوجہ ہوا۔ پیغام سنتے ہی اس نے دارالحکومت کی طرف لوٹ جانے اور امرا سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوردراز کے کسی خطے سے بغاوت کی خبر آئی تھی…اور اس کا سر کچلنا ضروری تھا۔ پرعزم اور کشیدہ قامت جنگجو نے اعلان کیا کہ اس خطرناک جنگ کی قیادت وہ خود کرے گا۔ کئی ماہ بیت گئے۔ بادشاہ لوٹ آیا اور قرار کے دن بھی۔ فرصت غنیمت ہوئی‘ تو ہوا خوری کے لیے پھر وہ اسی دریا‘ اسی کنارے کو روانہ ہوا۔ اچانک‘ خادم کی طرف شہنشاہ متوجہ ہوا اور اس نے سوال کیا ”کس چیز کے ساتھ؟‘‘۔ ”نمک کے ساتھ میرے آقا‘‘ حسن نے جواب دیا۔
خیرہ کن کارنامے انجام دینے‘ ملکوں اور قوموں کی قیادت کرنے والے اور سلطنتیں تعمیر کرنے والے فاتحین‘ عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ کاہلی اور عدم توجہ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ نپولین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنی وسیع و عریض سپاہ کے ایک ایک شخص کا نام اسے یاد تھا۔ ممکن ہے‘ اس میں کچھ مبالغہ ہو؛ تاہم حاضر دماغی اس کی ضرب المثل ہے۔ جب ایک بار لشکر کے لیے خوراک کی فراہمی کا سوال درپیش تھا‘ تو اس نے کہا تھا: یاد رکھو‘ ہر سپاہ پیٹ کے بل آگے بڑھتی ہے۔ یہی بات اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔ ایک موقع پر جب یاد دہانی کرانے کی کوشش کی گئی کہ امور سلطنت میں بلگرام کے سادات کو ملحوظ نہیں رکھا گیا‘ تو اس نے وہ جملہ کہا‘ آج تک جو ضرب المثل ہے ”ساداتِ بلگرام؟ چوب مسجدالحرام‘ سوختنی نہ فروختنی‘‘۔
صدیوں تک انگریز اور ہندو مورخوں نے اس باجبروت حکمران کی کردارکشی کی‘ جو عدل پروری اور وسعتِ ظرف کا ایک نمونہ تھا‘ جس نے سب سے زیادہ مساجد تعمیر کیں‘ مگر اسی فیاضی سے غیرمسلموں کی عبادت گاہیں بھی۔ جس کے عہد میں امن و امان قائم‘ اشیائے صرف ارزاں اور عام شہری محفوظ تھا۔ کہا جاتا تھا کہ عہدِ علائوالدین خلجی کے بعد اناج اس قدر سستا کبھی نہ ہوا۔ ایک دن مزدوری کرکے‘ سات دن بسر کی جا سکتی ہے۔
مختلف سطحوں پر مسلم اور غیر مسلم کشمکش تو تھی ہی۔ لگ بھگ ایک صدی سے خود مسلمانوں میں بھی فرقہ وارانہ مسائل چلے آئے تھے۔ ان مسائل کو نمٹانے‘ مختلف مکتب ِ فکر کے درمیان زیادہ سے زیادہ قربت پیدا کرنے کے لیے ‘اعلیٰ سطح پرمکالمے کا آغاز کیا گیا… اور یہ عمل برسوں‘ عشروں تک جاری رہا۔ آج بھی ملک بھر کی اکثر مساجد میں جمعہ کا جو خطبہ دیا جاتا ہے‘ وہ اسی عہد میں پیدا ہونے والے اتفاق رائے کی یادگار ہے۔ وہ خطبہ‘ جس میں آیات کی تلاوت کے بعد‘ سرکارؐ پہ درود بھیجنے کے علاوہ‘ چاروں خلفائے راشدین‘ سیدنا حمزہ‘ خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ اور ان کے جلیل القدر صاحبزادوں کا ذکر اکرام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بلندی درجات کی دعا کے ساتھ۔
ان احمقوں اور مسخروں کے سوا خود کو روشن خیال ثابت کرنے کے لیے ‘جو ہندو اور انگریز مورخین کی تائید کرتے ہیں‘ جو اس نادرِ روزگار حکمران کا تمسخر اڑانے میں ان کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں کہ پسماندہ نہ سمجھے جائیں‘ ایک روایت کو سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ ابدالاآباد تک ہر ایک روشن ستارے کی طرح دمکتے صلاح الدین ایوبی کی طرح اپنے ذاتی اخراجات کے لیے اورنگ زیب نے سرکاری خزانے سے احتراز کیا۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اقلیت ہمیشہ اکثریت پہ حکومت نہیں کرتی۔ آخرکار اسے پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اورنگ زیب کا عہد تمام ہونے تک مسلمان اخلاقی زوال سے دوچار تھے۔ تلواریں اور ہمتیں اب نیام میں تھیں۔ بسترِ مرگ پہ بادشاہ فارسی کا ایک شعر پڑھتا رہا۔
بہر لحظہ بہر ساعت بہر دم
دگرگوں می شود احوالِ عالم
ہر گزرتی ساعت کے ساتھ‘ دنیا کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ وصیت کا وقت آیا تو اس نے کہا: میں نے اپنے کفن کے لیے‘ قرآن کریم کی کتابت سے پس انداز کیا تھا؛ چونکہ میری فقہ جعفریہ کی پیروی کرنے والی رعایا‘ مصحف کی کتابت کے معاوضے کو جائز نہیں سمجھتی؛ لہٰذا اب یہ اس پہ صرف نہ کیا جائے۔
اللہ اللہ ایسی احتیاط اور اللہ اللہ ایسی بے نیازی۔ کون کہتا ہے کہ شریف خاندان میں مغل خاندان کے تیور پائے جاتے ہیں؟