جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں الیکشن کے امیدواران تیزی پکڑتے جارہے ہیں ، ملتان میں بھی یہ تیزی نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ نظر بھی آرہی ہے۔ شاہ محمود قریشی خاصا خوش ہے۔ بلکہ کافی عرصے سے نہ صرف خوش ہے بلکہ روز بروز اس کی خوشی میں اضافہ ہورہا ہے۔ پہلی خوشی اسے یہ ملی کہ جاوید ہاشمی خود بخود اس کی راہ سے ہٹ گیا اور پی ٹی آئی میں اس کے اور عمران کے درمیان والی دیوار اچانک ہی گر گئی اور اس دیوار کے گرتے ہی شاہ محمود قریشی کو لاحق ایک انجاناسا خوف ختم ہوگیا لیکن ختم بھی کہا ںہوا؟ ۔ اب اسے جہانگیر ترین نامی خوف نے آگھیرا ۔ ملتانی مخدوم ہمیشہ ہی کسی نہ کسی انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ پھر یہ والا خوف سپریم کورٹ کی بھینٹ چڑھ گیا اور معاملہ بقول حافظ برخوردار ایسا ہوگیا
سنجیاں ہوجان گلیاں
وچ مرزا یار پھرے
سو اب شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کی خالی گلی میں مرزا یار کی طرح اکیلے پھر رہا ہے۔شاہ محمود قریشی ملتان سے تین نشستوں پر امیدوار ہے۔ ایک قومی اور دو صوبائی ۔قومی پر تو وہ محض اس لئے امیدوار ہے کہ عرصہ دراز سے وہ قومی اسمبلی کی نشست پر ہی الیکشن لڑ رہا ہے ۔ پہلے این اے 148 موجود این اے 157 پر وہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑتا رہا ہے اور گزشتہ الیکشن 2013ء میں وہ ملتان کے حلقہ این اے 150 یعنی موجودہ این اے 156 پر امیدوار بھی تھا اور جیتا بھی تھا۔جبکہ وہ اپنے آبائی حلقہ سے مسلم لیگ ن کے دودھ فروش امیدوار (ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے ذاتی طورپر بالکل علم نہیں کہ مسلم لیگ کے ایم این اے کا ذریعہ معاش کیا ہے۔ میں تو وہ لکھ رہا ہوں جو اس نے اپنے کاغذات نامزدگی میں لکھا تھا )عبدالغفار ڈوگر سے تقریباً سترہ ہزار ووٹ سے ہارگیا تھا۔اب اس حلقہ سے اس کا بیٹا زین قریشی پی ٹی آئی کا امیدوار ہے لیکن اب شاہ محمود قریشی کے لئے اس حلقے میں بھی اچھی خبر ہے۔
دراصل اب حلقہ این اے 157(نیا)اور این اے 158(نیا) دونوں میں خوش آئند تبدیلیاں آئی ہیں اور حلقہ این اے 157 شاہ محمود قریشی یا دوسرے لفظوں میں زین قریشی کے لئے بہتر ہوگیا ہے کہ شاہ محمود قریشی کے مخالف علاقے اور یونین کونسلز اس کے حلقہ سے خارج ہو گئی ہیں۔ اس حساب سے اب یہ حلقہ زین قریشی کے لئے پہلے کی نسبت کافی اچھا بن گیا ہے ۔ امید ہے زین قریشی کے لئے پہلا الیکشن اتنا خراب ثابت نہیں ہوگا جتنا کہ امید تھی ۔ اور دوسری طرف یہ الیکشن غفار ڈوگر کے لئے بھی شاید اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا کہ 2013 ء میں تھا۔
دوسری طرف اس نئے حلقہ جات کی تقسیم نے جاوید ہاشمی کے سوکھے دھانوں پانی ڈال دیا ہے۔حلقہ این اے 158 شجاعباد سابقہ این اے 152 کی نئی تقسیم سے جاوید ہاشمی کے حمایتی علاقہ جات اس حلقہ میں جمع ہوگئے ہیں۔سو‘ جاوید ہاشمی اب اس حلقہ پر بھی آنکھ رکھے ہوئے ہیں۔ہمیشہ سے دو تین ،بلکہ چار حلقوں تک سے الیکشن لڑنے والے جاوید ہاشمی اب کی با ر بھی دو حلقوں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ایک تو یہی حلقہ این اے 158 شجاعباد و مخدوم رشید اور دوسرا این اے 155 جس سے وہ الیکشن 2008ء میں مسلم لیگ ن کی طرف سے اور الیکشن 2013ء میں پی ٹی آئی کی طرف سے جیتے تھے۔ بعدازاں اسی حلقے سے وہ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے آزاد امیدوار کے طورپر الیکشن لڑے اور پی ٹی آئی کے امیدوار ملک عامر ڈوگر سے ہار گئے۔
این اے 155 ان کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اسی حلقے کے باعث ان کے میاں نوازشریف سے اختلافات شروع ہوئے جو بالآخر ان کی مسلم لیگ ن سے روانگی کا باعث بنے۔ میاں نوازشریف چاہتے تھے کہ وہ راولپنڈی کی سیٹ اپنے پاس رکھیں اور ملتان کی سیٹ چھوڑ دیں لیکن جاوید ہاشمی نے میاں صاحب کی تمام تر خواہش کے باوجود راولپنڈی کی سیٹیں چھوڑ دیں جبکہ ملتان شہر کے حلقہ این اے 149 کی سیٹ برقرار رکھی۔ ملتان شہر سے الیکشن لڑنا اور جیتنا ان کا خواب تھا۔ جوبڑی مشکل سے شرمندہ تعبیر ہوا تھا لہٰذا وہ اس حلقے کو چھوڑنے پر قطعاً تیار نہ تھے۔ اسی بات پر ان کی میاں نوازشریف سے بول چال تک میں رخنہ آیا لیکن جاوید ہاشمی اپنی بات پر اڑے رہے۔ یہی بات بعدازاں بڑھتی گئی اور وہ بالآخر مسلم لیگ ن چھوڑ گئے۔ تاہم آخری تنکا خواجہ آصف کی گالیاں ثابت ہوئیں جو میاں نوازشریف کی موجودگی میں دی گئیں۔
اب جاوید ہاشمی شہر کے اس حلقہ سے بھی امیدوار ہیں اور شجاعباد مخدوم رشید والے نئے حلقہ این اے 158 سے بھی۔ اس حلقہ میں انہیں دو اضافی فوائد نظر آرہے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس حلقہ میں ان کی حامی یونین کونسلز شامل ہو چکی ہیں۔اور دوسری یہ کہ اس حلقے کے موجودہ ایم این اے سید جاوید علی شاہ سے ان کے دونوں ارکان صوبائی اسمبلی کی تقریباً بول چال بند ہے۔ رانا اعجاز نون سے باقاعدہ اور اعلانیہ جبکہ رانا طاہر شبیر سے غیر اعلانیہ۔ یہ دونوں ارکان صوبائی اسمبلی اور نئی یونین کونسلز کے ساتھ جہیز میں آئے ہوئے ایم پی اے رائے منصب علی ،یہ تینوں ارکان صوبائی اسمبلی فی الحال تو جاوید ہاشمی کے ساتھ سیٹ ہیں، آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
جاوید ہاشمی صاحب کے بقول ان کے لئے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے الفاظ میں” انہیں ٹکٹ پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا جائے گا‘‘ تاہم اس عاجزکو فی الحال یہ پلیٹ نظر نہیں آرہی۔ میرا ذاتی خیال ہے جاوید ہاشمی صاحب فی الوقت صرف پریشر بنا رہے ہیں اور وہ شہر کی سیٹ (اگر مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ملا)اپنے پاس رکھیں گے اور اپنی پرانی سیٹ این اے 158 پر بیٹی یاداماد کو الیکشن لڑوائیں گے لیکن ابھی ”کپ اور لب کے درمیان کافی معاملات طے ہونا باقی ہیں‘‘۔
بات شاہ محمود قریشی کی ہورہی تھی اور کہیں کی کہیں چلی گئی۔ شاہ محمود قریشی ملتان شہر کے حلقہ پی پی216 اور 217 سے بھی امیدوار ہے ۔ وہ پنجاب میں شاید پہلی بار (میری یادداشت کے مطابق ۔ تاہم مجھے غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے) صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہا ہے۔ اس کی نظر اب پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر ہے ۔ اس منصب پر اس کو جہانگیر ترین کی جانب سے مقابلے کا خطرہ تھا لیکن اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔اور اسے بادی النظر میں کسی اور جانب سے سوائے مسلم لیگ ن کے کسی جانب سے خطرہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن سینیٹ کے الیکشن میں صادق سنجرانی کے چیئرمین اور بلوچستان میں عبدالقدوس بزنجو کے وزیر اعلیٰ بلوچستان بننے کے بعد ایسے مزید کرداروں کے منصہ شہود پر آنے کے امکانات خاصے بڑھ چکے ہیں۔ اللہ خیر کرے!
جاوید ہاشمی صاحب کے بقول ان کے لئے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے الفاظ میں” انہیں ٹکٹ پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا جائے گا‘‘ تاہم اس عاجزکو فی الحال یہ پلیٹ نظر نہیں آرہی۔ میرا ذاتی خیال ہے جاوید ہاشمی صاحب فی الوقت صرف پریشر بنا رہے ہیں اور وہ شہر کی سیٹ (اگر مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ملا)اپنے پاس رکھیں گے اور اپنی پرانی سیٹ این اے 158 پر بیٹی یاداماد کو الیکشن لڑوائیں گے لیکن ابھی ”کپ اور لب کے درمیان کافی معاملات طے ہونا باقی ہیں‘‘۔