اللہ ہی پاکستان کا حافظ ہو…سلیم صافی
اللہ ہی پاکستان کا حافظ ہو۔ حل تو درکنار اس ملک کو جو اصل مسائل درپیش ہیں ، اس ملک کی سیاست اور صحافت کے میدانوں میں ان کا تذکرہ تک نہیں ہورہا۔ حکمران ان اصل مسائل کی طرف متوجہ ہیںنہ سیاستدان اور محافظین ۔ میرے نزدیک یہ ایشو ہی نہیں کہ نوازشریف وزیراعظم رہیں، عمران خان ، آصف زرداری یا کوئی اور ۔ان میں سے کوئی ایک ہو یا کوئی اور، اصل ایشوز اور مسائل کے حوالے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔المیہ یہ ہے کہ مسائل سیاست کو نہیں بلکہ ریاست کو درپیش ہیں اور ہم سیاست میں شخصیات کو آگے پیچھے کرکے ان کا حل تلاش کررہے ہیں ۔ چیلنجز، سیاست کے نہیں ریاست کے ہیں اورمواقع بھی اگر ہیں تو ریاست کے پاس ہیں لیکن بحران یہ ہے کہ ہم ریاستی اور معاشرتی بحران کو سیاسی بحران سمجھ کر ڈیل کررہے ہیں ۔ کشمکش ریاست کے مختلف اداروں اور عناصر کے مابین زوروں پر ہے لیکن ہم اسے سیاستدانوں کی کشمکش باور کروارہے ہیں ۔ یہی سب سے بڑا المیہ ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کو درپیش خطرات ،خطرناک شکل اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ مگر اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان بطور ریاست ایک نازک اور خطرناک دور سے گزر رہاہے جو اداروں کی ہم آہنگی اور اتفاق کا تقاضا کررہا ہے لیکن افسوس کہ ہم ذاتی اور ادارہ جاتی کشمکش کو جنگ میں بدل کر ان خطرات کو مزید خطرناک
بنارہے ہیں۔
’’پاکستان تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے‘‘ یوں توہمارے ہاں تکیہ کلا م بن گیا ہے اور جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی فقرہ سننے کو مل رہا ہے لیکن موجودہ دور کو میں شعوری طور پر اس لئے نازک ترین دور قرار دے رہا ہوں کیونکہ پاکستان میں کئی ٹرانزیشنز (Transitions) ایک ساتھ جمع ہوگئے ہیں اور کسی بھی قوم کی تاریخ میں ٹرانزیشن کا دور سب سے نازک دور ہواکرتا ہے ۔کسی ایک ٹرانزیشن سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے لیکن یہاں تو کئی ٹرانزیشنز ایک ساتھ جمع ہیں۔ ٹرانزیشن کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو تو ترقی اور خوشحالی سامنے کھڑی ہوتی ہے اور اگر اس میں غلطی ہوجائے تو مسائل سنگین ہوجاتے ہیں ۔ تبدیلی اور اس کے لئے ٹرانزیشن ہر قوم اور معاشرے کے لئے لازم ہوتے ہیں ۔ اسٹیٹس کو اور جمود کے شکار معاشرے ترقی نہیں کرسکتے ۔ جمود کا شکار نظام آخر میں تعفن پھیلا کر قوموں کو تباہ کردیتا ہے ۔اس لئے تبدیلیاں اور ان کے لئے ٹرانزیشنز لازمی ہیں لیکن اگر تبدیلی کے لئے ٹرانزیشن کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے نہ ہو تو حادثات جنم لیتے ہیں ۔ اسی طرح ٹرانزیشنز دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جس کو قومی قیادت خود سوچے اور پھر تیاری کرکے اسے ایک منصوبے کے تحت روبہ عمل لانے کے لئے جت جائے ۔ دوسرا ٹرانزیشن وہ ہوتا ہے جو حالات کے جبر یا ارتقائی عمل کے نتیجے میں خود بخود سامنے آجاتا ہے ۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستانی معاشرے اور ریاست کو جن ٹرانزیشنز کا سامنا ہے ، وہ سب کے سب خود بخود فطری ارتقائی عمل یا پھر حالات کے جبر کے نتیجے میں سامنے ہیں ۔ یوں نہ پاکستانی قیادت ان سے نمٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہے نہ ادارے اور معاشرہ ۔
ایک ٹرانزیشن جس سے پاکستانی معاشرہ گزر رہا ہے یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ ایک دیہی معاشرے سے شہری معاشرے کی طرف جانے کے ٹرانزیشن سے گزر رہا ہے ۔ یوں اس حوالے سے اسٹیٹس کو کی طاقتوں اور نئی سوچ کے حامل افراد کے درمیان گھر گھر ، گائوں گائوں اور قریہ قریہ یہ غیرمحسوس کشمکش جاری ہے ۔
اسی طرح قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان میں مذہبی اور قومی ریاست ہونے کی کشمکش رہی ۔ اس وقت حالات کے جبر نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ ہم پاکستان کو مذہبی کے بجائے ایک قومی ریاست بنالیں ۔ بعض حوالوں سے پاکستان ، مذہبی ریاست سے نکل کر قومی ریاست کی طرف گامزن بھی ہوگیا ہے لیکن دوسری طرف اسے مذہبی ریاست کے طور پر برقرار رکھنے والی قوتیں غیرمحسوس طریقے سے مگر پوری قوت کے ساتھ مزاحمت کررہی ہیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ ٹرانزیشن اپنی جگہ بہت خطرناک ہے لیکن شاید ہمیں اس کا احساس ہے اور نہ ادراک ۔
اسی طرح قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان بحیثیت مجموعی امریکی کیمپ میں رہا لیکن اب پہلی مرتبہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل کر روس اور چین کے بلاک میں جانے کے ٹرانزیشن کے عمل سے گزر رہا ہے جو ظاہر ہے امریکی بلاک کی ناراضی کا موجب بن رہا ہے ۔ چیلنج یہ ہے کہ پاکستانی ریاست ٹرانزیشن کے اس عمل کو کس رفتار سے آگے بڑھائے ۔ اگر روس اور چین اس رفتار سے سہارا نہ بنے جس رفتار سے ہم مغرب کو مخالف بنارہے ہیں تو بھی حادثات جنم لے سکتے ہیں اور اگر ہم ماضی کی روش کو برقرار رکھ کر مغربی بلاک سے چمٹے رہتے ہیں تو بھی نقصان ہے ۔ یوں یہ ٹرانزیشن بھی نہایت نازک بن گیا ہے ۔
اسی طرح ایک اور ٹرانزیشن جو پاکستان کو درپیش ہے وہ سیکورٹی اسٹیٹ سے ویلفیئر اسٹیٹ کی طرف جانے کا ٹرانزیشن ہے ۔ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی معاشرے میں یہ طلب بڑھ گئی تھی ۔ متحرک عدلیہ اور میڈیا نے اس ٹرانزیشن کے عمل کو تیز بنانے کی کوشش کی ۔ دوسری طرف مذکورہ بالا ٹرانزیشنز کے تناظر میں سلامتی کے اداروں کا اصرار ہے کہ بیرونی خطرات کے پیش نظر پاکستان کو مکمل طور پر سیکورٹی اسٹیٹ بنا دیا جائے ۔ کچھ عرصہ سے اس ٹرانزیشن کو ریورس بھی کردیا گیا ۔ سردست ویلفیئر اسٹیٹ کی متمنی قوتیں ، سول سوسائٹی ،میڈیا اور عدلیہ مکمل پسپائی پر مجبور کردی گئیںاور ان کے ہاں گھٹن کا احساس بڑھ رہا ہے ۔ اب ان کا دب جانا بھی خطرناک ہے اور ان کی طرف سے کسی وقت لاوے کی طرح پھٹ جانے کا ردعمل بھی خطرناک ہے ۔ اس طرح کے حالات میں بعض اوقات کوئی واقعہ یا حادثہ محرک بن جاتا ہے اور پھر یا تو معاملہ اسٹیٹس کو کی طاقتوں کے ہاتھوں سے باہر ہو جاتاہے اور یا پھر انہیں غیرارادی اور انتہائی ردعمل دکھانا پڑتا ہے۔
مذکورہ بالا ٹرانزیشنز سے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹنے کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اور اہم عناصر سرجوڑ کر بیٹھ جاتے اور کم از کم مذکورہ حوالوں سے ایک قومی ایجنڈے اورلائحہ عمل پر اتفاق کرتے لیکن بدقسمتی سے اس نازک موقع پر پاکستان کو انتخابات کی صورت میں سیاسی ٹرانزیشن سے بھی پالا پڑ گیا ۔ انتخابات کا وقت وہ وقت ہوتا ہے کہ جس میں سیاسی کشمکش انتہا پر چلی جاتی ہے ۔ سیاستدان حد سے زیادہ خود غرض بن جاتے ہیں ۔ ان کی سیاست میں جو تھوڑا بہت قومی ایجنڈے کا عمل دخل ہوتا ہے، وہ بھی پس منظر میں چلاجاتا ہے اور صرف ذاتی اور گروہی ایجنڈا غالب آجاتا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان میں انتخاب صرف سیاسی کرداروں کے مابین ٹکرائو کا عمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں دیگر ریاستی ادارے بھی پوری قوت کے ساتھ فریق بن جاتے ہیں ۔ اب کی بار تو ریاستی ادارے حد سے زیادہ سرگرم عمل ہیں اور کچھ سیاسی قوتیں ، انہی کو اپنا اصل حریف سمجھ رہی ہیں ۔ یوں ایک طرف مذکورہ بالا ٹرانزیشنز کا چیلنج ہے اور دوسری طرف سیاسی ٹرانزیشن کی وجہ سے سیاسی قوتیں اور ادارے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے نظر آرہےہیں جن کی وجہ سے قومی وجود کو لاحق خطرات مزید سنگین ہورہے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہر سیاسی فریق اور ہر ادارہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھ رہاہے اور وہ حریف ادارے یا مخالف فریق کے موقف یا تشویش کو وزن دینے کا روادار نہیں ۔
مجھے یقین ہے کہ اس تجویز کو کوئی اہمیت نہیں دے گا اور اسے بے وقت کی راگنی قرار دیاجائے گا لیکن اپنا تو ایمان ہے کہ اس وقت ان چیلنجز سے بخوبی نمٹنے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ انتقام کے جذبات کو دبا کر فوری طور پر سب فریقوں کے اتفاق رائے سے ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن تشکیل دیاجائے جبکہ رضاربانی کی تجویز کے مطابق قومی سطح پر اداروں کے مابین نئے رولز آف گیم کی تشکیل کے لئے قومی مکالمے کا اہتمام کیا جائے ۔