منتخب کردہ کالم

الوداع سپہ سالار الوداع .. کالم ابراہیم راجا

سپہ سالاروں کی اپنی تاریخ ہے، ستاروں کی طرح بعض کا نام دمکتا ہے، کچھ رسوائیوں کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ آزمائشوں میں بے رحم وقت کے دھارے پر بہنا نہیں، اسے اپنی قوم کے حق میں موڑنا سپہ سالاروں کا مشن ہوا کرتا ہے۔ راحیل شریف تاریخ میں تادیر زندہ رہیں گے، منفی نہیں، مثبت حوالوں سے، یہ وقت کا فیصلہ ہے۔
پندرہ برس ہوتے ہیں، امریکی فوج چیختی چنگھاڑتی افغانستان پر چڑھ دوڑی تھی۔ وہ فوج جو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس تھی اور جس کے بارے میں کہا جاتا کہ تنہا وہ تمام ملکوں کی افواج کو پچھاڑ سکتی ہے۔ فضائوں سے بمباری کرکے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ اس نے بجا ڈالی، زمین پر مگر جب قدم اتارے تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ امریکی فوج اکیلی نہیں تھی، تیس سے زائد اتحادی ملک اس کے ساتھ تھے، روایتی نہیں، اب ایک پیچیدہ جنگ کا انہیں سامنا تھا۔ ایک کے بعد ایک، اتحادی افواج کے سپہ سالاروں نے خاک چاٹی اور ناکامی کا داغ لیے رخصت ہوتے رہے۔ ساڑھے تین لاکھ عام افغان جنگ کا ایندھن بنے، 700 کھرب روپے پھونک ڈالے گئے اور نتیجہ کیا نکلا؟ پندرہ برس بعد آج بھی حکومتی عملداری کابل تک محدود ہے۔ وہاں بھی ہفتے دو ہفتے میں دہشت گردی کی بڑی واردات ہو جاتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی دوبارہ پیش قدمی کے بعد آدھی جنگ پاکستان منتقل ہو گئی۔ آئے روز دھماکوں اور خود کش حملوں نے قوم کو نفسیاتی مریض بنا ڈالا۔ جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ ہوا تو ملکی اور غیرملکی دفاعی ماہرین خطرے کی گھنٹیاں بجانے لگے۔ اسے انتہائی خطرناک، مشکل اور پیچیدہ آپریشن قرار دیا گیا، شدید ردعمل کے خدشات ظاہر کیے گئے لیکن صرف سوا دو سال بعد نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔ اپنے ہی نہیں، غیر بھی اس آپریشن کی حیران کن کامیابی کے معترف ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق‘ پاکستان میں دہشت گردی سے عام لوگوں کی ہلاکتوں میں 74 فیصد تک کمی آئی۔ صرف شمالی وزیرستان میں نہیں، فرار ہو کر خیبر ایجنسی میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت شدت پسندوں کے سہولت کاروں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا۔ جنرل راحیل شریف نے گھر بیٹھ کر نہیں، اگلے مورچوں پر یہ جنگ لڑی، عیدوں پر جوانوں کا حوصلہ بڑھانے محاذوں پر پہنچے، شہیدوں کے جنازے خود اٹھائے، ان کے لواحقین کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور پاک فوج کا عزم نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ دہشت گردی کی ہر بڑی واردات کے بعد وہ خود موقع پر پہنچتے، متاثرین اور پوری قوم کے آنسو پونچھتے، انہیں احساسِ تحفظ دلاتے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم دہراتے۔ کسی بھی مرحلے پر پسپائی یا مایوسی کا تاثر انہوں نے نہیں دیا، یوں پوری قوم انہیں مسیحا اور محافظ کے روپ میں دیکھنے لگی۔
کراچی عشروں سے سلگتا تھا، صبح شام لاشے گرتے، لوگ دن کے اجالوں میں لُٹتے، خونریزی کو مقدر سمجھ کر کر اچی والے قبول کر چکے تھے۔ قاتلوں اور لٹیروں کے خلاف کارروائی میں سیاسی مصلحتیں حائل تھیں۔ پھر کراچی آپریشن شروع ہوا، کچھ سیاسی جماعتوں سے جڑے قاتلوں اور لٹیروں کے خلاف کارروائی ہوئی تو کہرام مچ گیا، آپریشن رکوانے کے لیے ہزار جتن کئے گئے لیکن کوئی دبائو جنرل راحیل نے قبول نہ کیا۔ بجا کہ بعض اوقات رینجرز کے آئینی اختیارات سے تجاوز کا تاثر ملا لیکن عوام ایسی بحثوں کو کہاں اہمیت دیتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف کارروائیاں رینجرز کے دائرہ کار میں نہیں، پھر بھی عام لوگوں نے انہیں سراہا، حکومتوں کے لیے اس میں سوچنے کا بہت سامان ہے۔ پوچھنے والے یہ بھی پوچھتے رہے کہ آخر رینجرز کو آپریشن کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی، صوبائی حکومتیں اتنا عرصہ کیوں سوئی رہیں۔ کراچی آپریشن نے ایم کیو ایم کو اس کے دہشت گرد جتھوں سے الگ ہونے پر مجبور کیا۔ الطاف حسین کے خوف کا بت پاش پاش ہو گیا۔ وہی الطاف حسین جو لندن سے اپنی منشا کے مطابق کراچی کو کھولتے اور بند کرتے، آئے روز پُرتشدد ہڑتالیں اور جلائو گھیرائو کرواتے۔ رینجرز آپریشن نے ہی کراچی میں شدت پسند تنظیموں کے قدم بھی اکھاڑ ڈالے۔
بلوچستان کی آگ اگرچہ اب تک نہیں بجھی لیکن یہاں بھی دہشت گردوں پر کاری ضربیں لگائی گئیں، فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کریک ڈاون ہوئے، غیرملکی ایجنڈے پر چلنے والے علیحدگی پسندوں کو بھی ٹھکانے لگایا گیا۔ کلبھوشن یادیو جیسے نیٹ ورک پکڑے گئے‘ اور دشمن ملکوں کی ایجنسیوں کا کھیل بے نقاب ہوا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے متعلق سکیورٹی خدشات سامنے آئے تو جنرل راحیل نے اس کے تحفظ کی ضمانت دی، مکمل خلوص اور عزم کے ساتھ۔ ملک کے شہری علاقوں میں خفیہ معلومات پر آپریشنز سول سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری تھی، ان کی سست روی دیکھ کر فوج نے خود کومبنگ آپریشنز شروع کر دیے۔ جنرل راحیل کو بیک وقت ایک نہیں، کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ ایک طرف دہشت گردی، دوسری جانب بھارت کی اشتعال انگیزی اور تیسری طرف افغان سرحد کی تشویشناک صورت حال۔ ایک ہی وقت میں تمام محاذوں پر انہیں لڑنا تھا۔ بھارتی جارحیت کے بعد کبھی لائن آف کنٹرول پر وہ خود پہنچ جاتے، کبھی ورکنگ باونڈری پر۔ دنیا میں شاید ہی کوئی فوج ہو جس نے ایسی چومکھی جنگ لڑی ہو، پوری استقامت اور جرات کے ساتھ ۔ جنرل راحیل کا ہاتھ قوم کی نبض پر رہا، انہی کے دور میں دہشت گردی کے خلاف واضح قومی بیانیہ اور عوامی اتفاق رائے سامنے آیا۔
جنرل راحیل کو ان کے کارناموں پر بے مثال عوامی پذیرائی ملی، ایسی پذیرائی جو نشہ بن کر اعصاب پر سوار ہو سکتی تھی۔ ان کی مقبولیت دیکھ کر بعض عناصر انہیں سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ ان کے دبنگ اور کسی حد تک عوامی انداز سے کئی مرتبہ یہ تاثر بھی ملا کہ عسکری اور سول اداروں میں سب اچھا نہیں۔ بہت سے یار لوگ حیلوں بہانوں سے جنرل راحیل کو اکساتے بھی رہے، اپنی خواہشات کی تکمیل اور خوابوں کی تعبیر وہ جنرل صاحب کے کسی ممکنہ انتہائی اقدام میں ڈھونڈتے رہے۔ کوئی ”جانے کی ضد نہ کرو‘‘ اور کوئی ”اب آ بھی جائو‘‘ کے راگ الاپتا رہا۔ ایسا کرنا ناممکن بھی نہیں تھا‘ لیکن ایک سچے اور کھرے فوجی وہ ثابت ہوئے۔ اپنے وقار کو انہوں نے دائو پر لگنے نہ دیا، اپنے خاندان سے جڑی عظیم الشان فوجی روایات کی لاج انہوں نے رکھی۔ تین برس میں بے رحم وقت کا دھارا انہوں نے موڑ دیا، انتھک محنت، خلوص اور حکمت کے ساتھ۔ جانے سے پہلے نہ صرف فوج بلکہ قوم کے لیے بھی واضح سمت کا تعین جنرل راحیل نے کر دیا ہے۔ انہیں نم آنکھوں اور بوجھل دل سے نہیں، سر اٹھا کر اس عزم کے ساتھ رخصت کرنا ہے کہ ان کا مشن ادھورا نہیں رہے گا۔ اپنے حصے کا پورا کام وہ کر چکے، حق پرستی کا جو عَلم انہوں نے فولادی ہاتھوں میں تھامے رکھا، اسے منتقل کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ الوداع قوم کے محبوب سپہ سالار الوداع۔