منتخب کردہ کالم

الوداع 2016

یوں تو ہر برس ہی دسمبر کے آخری ہفتے میں یہ احساس بار بار جاگتا اور تنگ کرتا ہے کہ اس گزرے ہوئے برس میں انفرادی‘ قومی اور انسانی حوالے سے ہم نے وہ کچھ نہیں کیا جو ہمیں کرنا چاہیے تھا اور یہ کہ ہم سب کی زندگیوں میں یہ گزرا ہوا وقت اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔

27دسمبر غالب کا یوم پیدائش ہے وقت کی اس برق رفتاری کا گلہ اس نے بھی کیا ہے لیکن ہر بار ایک نئے مضمون کے ساتھ کہ اس کی آنکھ ان رنگوں کو دیکھنے پر بھی قادر تھی جو شاید ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور پھر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس آگہی کے حصار میں تماشا اور ’’فریب تماشا‘‘ کیسے ایک ہی منظر کا حصہ بن جاتے ہیں

گل غنچگی میں غرقہ دریائے رنگ ہے
اے آگہی‘ فریب تماشا‘ کہاں نہیں

جہاں تک وقت کے گزرنے اور عمروں کے بڑھنے اور ڈھلنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں میرے نزدیک اس کا یہ شعر حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے کہ

بے صرفہ ہی گزرتی ہے گرچہ ہو عمر خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا‘ کیا کیئے

کوئی پچیس برس قبل میں نے ’’آخری چند دن دسمبر کے‘‘ عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جس کا تذکرہ میں نے سال کے اختتام میں لکھے گئے کئی کالموں میں بھی کیا ہے جب کہ انھی دنوں میں فیس بک وغیرہ پر بھی بہت سے احباب اسے پوسٹ کرتے ہیں کہ دسمبر کی سردی اور جاتے ہوئے سال کے کونوں سے لپٹے اس احساس زیاں کی شدت اسے مزید بامعنی بنا دیتی ہے جو سال کے باقی گیارہ مہینوں میں موجود تو رہتا ہے مگر اتنا واضح اور مرتب نہیں ہوتا بالخصوص اس کا آخری ہفتہ ایک مخصوص کیفیت کا حامل ہوجاتا ہے کہ اس میں کئی ایسے لوگ اس دارفانی سے رخصت ہوئے جو اقبال کے اس شعر کی بھرپور تصویر تھے کہ

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

مثال کے طور پر 26دسمبر ادبی حوالے سے ہماری حالیہ تاریخ کا ایک اہم دن ہے کہ اس روز دو بڑے شاعر ہم سے جدا ہو گئے میری مراد پروین شاکر اور منیر نیازی سے ہے، اسی طرح 27دسمبر سیاسی حوالے سے ایک اہم دن ہے کہ اس روز بے نظیر بھٹو دہشت گردی کی ایک ایسی واردات کا نشانہ بنیں جو ابھی تک ایک سربستہ راز ہے کہ خود ان کے لواحقین نے اس اخفا کو اپنی بقا کا ضامن بنا رکھا ہے۔ میں اس بات کو یہیں چھوڑتا ہوں کہ بقول شاعر

ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

سو اس ’’پیغام محبت‘‘ کا تقاضا یہی ہے کہ دسمبر کے ان آخری چند دنوں میں ان دو محبوب ہستیوں کا ذکر کیا جائے جن کے نام اردو زبان و ادب کے افق پر کل بھیروشن تھے اور آج بھی تابندہ ہیں۔ پروین قادر ٹرسٹ کی چیئرپرسن پروین قادر آغا نے اطلاع دی ہے کہ مرحومہ کی اس 22ویں برسی پر ان کا اکلوتا صاحبزادہ مراد علی عرف گیتو بھی کینیڈا سے اپنی ماں کی قبر پر پھول چڑھانے کے لیے آیا ہے یہ برس اس کے لیے دوہرے غم کا ہے کہ چند ماہ قبل اس کے والد سید نصیر بھی اس دنیا سے پردہ کر گئے ہیں، اسے بوجوہ باپ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن خون کا رشتہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے موت بھی نہیں بدل سکتی، رب کریم اس پر اور اس کی اولاد پر ماں اور باپ دونوں کی دعاؤں کا سایا سلامت رکھے۔ میں نے اس کی شادی کے موقع پر کہی گئی نظم میں لکھا تھا کہ موت نے صرف پروین کی جسمانی آنکھوں کو بند کیا ہے اس کی روح کی آنکھیں شاید اس محفل کو اسی طرح سے دیکھ رہی ہیں جیسے ہم سب دیکھ رہے ہیں اور وہ سب نظمیں بھی کہیں آس پاس ہی موجود ہیں جو اس نے اپنے پیارے گیتو کے لیے لکھی تھیں اور جن میں سے کچھ کا میں پہلا سامع بھی ہوں۔

منیر نیازی بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ابھرنے والی اس نسل کے نمایندہ تھے جس میں عمروں کے معمولی سے فرق سے قطع نظر ناصر کاظمی‘ احمد فراز‘ حبیب جالب‘ شہزاد احمد‘ سلیم احمد‘ مجید امجد‘ جمیل الدین عالی‘ جون ایلیا‘ اطہر نفیس‘ احمد مشتاق‘ ظفر اقبال‘ شکیب جلالی‘ اختر حسین جعفری‘ قتیل شفائی‘ زہرہ نگاہ‘ کشور ناہید‘ ساقی فاروقی‘ ادا جعفری اور ابن انشا سمیت بہت سے صاحب طرز اور البیلے شاعر ایک ساتھ سانس لے رہے تھے، یہ ایک ایسی روشن کہکشاں تھی جس کی مثال اردو شاعری کے آسمان میں اپنی مثال آپ ہے، سو ایسے میں کسی شاعر کا اپنی انفرادیت کو اس حد تک مستحکم کرنا کہ وہ خود ایک مثال بن جائے ایک معرکے اور معجزے سے کم نہیں اور بلاشبہ منیر نیازی ان منتخب لوگوں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی پہچان قائم کی بلکہ خود اپنی ذات میں ایک دبستان بن گئے

کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں

منیر نیازی کی شاعری کی طرح ان کی نثر کی زبان اور ڈکشن بھی ایک مخصوص انفرادیت کے حامل تھے، اپنی شاعری کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ ’’مجھے لگتا ہے میں گھر سے کسی اور کام کے لیے نکلا تھا مگر راستے میں مجھے شاعری مل گئی اور پھر اس نے مجھے باقی ہر کام بھلا دیا‘‘۔

منیر نیازی اپنی دھن میں اتنے مست رہتے تھے کہ انھیں زندگی بھر کسی اور طرف دھیان دینے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ کلاسیکی اور معاصر شاعری کے ضمن میں بھی ان کا مطالعہ نسبتاً بہت محدود تھا مگر ان کے اظہار کے پیرایوں میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ کلاسیکی روایت کے ساتھ ایک عجیب طرح کی ہم عصریت تھی کہ ان کی آنکھ تخلیقی رنگ اور ڈھنگ کی حامل شاعری سے خود بخود رشتہ آرا ہو جاتی تھی، چاہے وہ شعر ولی دکنی کے دور کا ہو یا ان کے بعد کی نسل کے کسی اچھے شاعر کا۔جدید اردو شاعری میں نئے امیجز Images کا بہت دور دورہ ہے لیکن اس کا زیادہ تر زور نظم کی طرف ہے غزل میں بہت کم شاعر اس کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔ منیر نیازی کا نام ان منتخب لوگوں کی پہلی صف میں آتا ہے جن کی شاعری کے ابتدائی دور میں بھی آپ کو اس طرح کے شعر تسلسل سے ملتے ہیں کہ

گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے

دسمبر کے ان آخری چند دنوں میں جب اگلا برس یعنی 2017ء شروع ہونے کو ہے ہم اس کا استقبال منیر نیازی ہی کے اس حمدیہ شعر کے ساتھ کرتے ہیں کہ

شام شہر ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تُو
یاد آ کر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو