منتخب کردہ کالم

الیکشن متنازع ہو رہے ہیں؟…..رؤف طاہر

الیکشن متنازع ہو رہے ہیں؟…..رؤف طاہر

جس طرح یہ بات کہی جاتی ہے کہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے، اسی طرح یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے کہ انتخابات کا آزادانہ‘ غیر جانبدارانہ اور صاف شفاف ہونا نظر بھی آنا چاہیے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 25 جولائی کے عام انتخابات کے حوالے سے تاثر کیا بنتا جا رہا ہے اور خدانخواستہ یہ انتخابات متنازع ہو گئے تو ملک کسی نئے سنگین تر سیاسی بحران سے دوچار تو نہیں ہو جائے گا؟ جناب ایاز امیر کا گزشتہ ہفتے کا کالم یاد آیا، ”اندھیروں نے اس الیکشن کا مزہ لوٹ لیا‘‘۔ عمران خان کی پی ٹی آئی کو ”جماعتِ تبدیلی و انقلاب‘‘ کا نام دیتے ہوئے لکھا ”ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ اپنے زور پر انتخابی میدان میں اوپر آتی۔ زور اپنا بھی تھا اور غیبی قوتوں کی بھرپور مدد بھی۔ جب اکھاڑے میں ایسا ہو جائے تو دنگل کا آدھا مزہ تو چلا جاتا ہے‘‘۔ اپنی سابق جماعت کے بارے میں، جس کے ٹکٹ پر وہ ایک بار (1997ئ) میں پنجاب اسمبلی کے اور ایک بار (2008ئ) میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، ممتاز تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ”اسے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے مار پڑنی چاہیے تھی، لیکن انہی غیبی قوتوں کی طرف سے اس کی نہ صرف ایک بلکہ دونوں ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں… کچھ کرتوتوں کی مار ہے تو کچھ نیب کی… اوپر سے بھرپور حرکات غیبی قوتوں کی‘‘ … کیا یہ ”غیبی قوتیں‘‘ وہی ہیں، نواز شریف جن کو ”خلائی مخلوق‘‘ قرار دیتے ہیں (اور چھوٹے میاں صاحب اس سے اظہارِ لا علمی کرتے ہیں۔ کراچی کے حالیہ دورے میں اخبار نویس کا ایک سوال ”خلائی مخلوق‘‘ کے حوالے سے بھی تھا، جس پر جناب نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ کے صدر نے فرمایا کہ وہ کسی خلائی مخلوق کو نہیں جانتے؛ البتہ ”جنات‘‘ کو مانتے ہیں، قرآن مجید میں بھی جن کا ذکر ہے۔)
1970ء میں قائد اعظم کے پاکستان میں عام انتخابات ہو گئے، لیکن انتخابی نتائج کی منطقی تکمیل نہ ہوئی۔ اپنے ہی عوام کے منتخب لیڈر سے ہاتھ نہ ملانے کا خمیازہ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈا لنے کی ذلت کی صورت میں بھگتنا پڑا (اس میں جنرل یحییٰ اور اس کے فوجی رفقا کے ساتھ بھٹو صاحب کا حصہ بھی کم نہ تھا)
1977ء کے عام انتخابات، انتخابی عمل کی ابتدا ہی میں متنازع ہو گئے تھے۔ بھٹو صاحب کے آبائی حلقے (لاڑکانہ) میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے مولانا جان محمد عباسی مدِ مقابل تھے۔ خالد کھرل لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے بھٹو کے انتخابی حریف کو اغوا کروا دیا اور بازیابی اس وقت ہوئی جب کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا وقت گزر چکا تھا۔ شامی صاحب نے اپنے ہفت روزے کے سرورق پر، بھٹو صاحب اور مولانا عباسی کی تصاویر آمنے سامنے لگائیں، کیپشن شہرۂ آفاق ہو گیا، ”ذوالفقار علی بھٹو، بلا مقابلہ جیت گئے‘‘۔ ”مولانا جان محمد عباسی، بلا مقابلہ ہار گئے‘‘ ۔
وزیر اعظم صاحب بلا مقابلہ منتخب ہو گئے تھے تو وزرائے اعلیٰ کیوں پیچھے رہتے۔ انہوں نے بھی قائد کی راہ اختیار کی… پنجاب کے سینئر وزیر نے بھی بلا مقابلہ منتخب ہونا پسند کیا۔ بھٹو کے نئے پاکستان کے گزشتہ سارے ماہ و سال بد ترین حبس کا دور تھے، جس میں سانس لینا بھی دشوار تھا۔ گمان تھا کہ 1973ء کا آئین اپنے ساتھ کچھ آسودگی، کچھ کشادگی لائے گا لیکن 14 اگست کی صبح آئین نافذ ہوا اور اسی شام ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ… بنیادی انسانی حقوق معطل… عدلیہ کے رہے سہے بال و پر کاٹنے کے لیے آئین میں پے در پے ترامیم کی گئیں، اس عالم میں کہ ننھی منی حزبِ اختلاف کو ایوان میں بھی آہ و فغاں کی اجازت نہ تھی۔ ایسا بھی ہوا کہ مفتی محمود، مولانا نورانی اور پروفیسر غفور احمد کو سارجنٹ ایٹ آرمز نے ایوان سے باہر پھینک دیا۔ چودھری ظہور الٰہی حوالۂ زنداں ہوئے (ان کے خلاف ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مقدمات کے علاوہ بھینس چوری کا مقدمہ بھی تھا) 1973ء کے آئین کو متفقہ بنانے کے لیے حیران کن لچک کا مظاہرہ کرنے والے ولی خاں اور ان کے رفقا عطا اللہ مینگل، سردار خیر بخش مری اور میر غوث بخش بزبخو غداری کے الزام میں گرفتار ہوئے اور نیشنل عوامی پارٹی خلافِ قانون قرار پائی۔
اب انتخابی مہم کے دوران ماحول کچھ کھلا تو برسوںکے دبے ہوئے جذبات کوچہ و بازار میں بہہ نکلے۔ پی این اے کی قیادت جہاں بھی پہنچی، خلقِ خدا دیوانہ وار امنڈ آئی۔ کراچی میں ایئر مارشل اصغر خان کے جلوس کو ایئر پورٹ سے مزارِ قائد پہنچنے میں 9 گھنٹے لگ گئے۔ اندھوں کو بھی نظر آ رہا تھا کہ سات مارچ، یومِ انتخاب، کی شام جناب بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں لائے گی۔ 1951ء کے صوبائی انتخابات نے انتخابی سیاست کو ”جھرلو‘‘ کی نئی اصطلاح دی تھی۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخابات میں جب مادرِ ملت، پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر کے مقابل تھیں، دنیا نے ریاستی جبر کے نئے مناظر دیکھے، اب 7 مارچ 1977ء نے تو دھونس اور دھاندلی کے نئے ریکارڈ تخلیق کر دیئے تھے۔ ملک اختر اندرونِ شہر پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے۔ ایک غیر ملکی جریدے میں ایک پولنگ سٹیشن کی تصویر شائع ہوئی، جس میں ملک صاحب کے ایک ہاتھ میں سٹین گن تھی اور دوسرے میں بیلٹ باکس، نیچے تین لفظی کیپشن، ہزاروں الفاظ پر بھاری تھا، ”The Law Minister?‘‘ کوئٹہ سے یحییٰ بختیار کی شکست کا اعلان ہو گیا تھا، اگلی صبح ان کی فتح کی نوید دے رہی تھی اور پھر ایسی عوامی تحریک چلی جس کے سامنے تمام تر ریاستی جبر و تشدد بے کس اور بے بس ہو گیا۔ نظامِ مصطفیٰ کا عنوان پانے والی یہ تحریک بنیادی طور پر ووٹ کے تقدس کی تحریک تھی۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں، اگلے سال ایران میں شاہ کے خلاف بغاوت نے بھی پاکستان کی اسی تحریک سے ہمت اور حوصلہ پایا تھا۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد لاہور کے حلقہ 120 میں مریم نواز اپنی علیل والدہ کی انتخابی مہم چلا رہی تھیں اور چودھری نثار علی خاں فرما رہے تھے، بچے تو بچے ہوتے ہیں، یہ غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ ان کی قیادت کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے، وہ مریم نواز کی بات کر رہے تھے‘ جو ایسی بچی بھی نہ تھیں، خیر سے چالیس سال سے زائد عمر کے ساتھ وہ اب نانی بننے والی تھیں۔ قدرت کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں۔ چودھری صاحب کو خود اپنے حلقے میں اب واقعی بچوں کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے چودھری صاحب کے مقابل اپنے امیدوار نہ لانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن جواب میں چودھری صاحب کی طرف سے تشکر کا کوئی علامتی اظہار بھی نہ تھا۔ وہ اسی طرح سینہ تانے اور گردن اکڑائے فرما رہے تھے، میں کسی کے ٹکٹ کا امیدوار تھا، نہ محتاج… آخر کار جماعت کی انا نے سر اٹھایا اور ایک سیٹ پر سردار ممتاز خان اور دوسری پر انجینئر قمرالاسلام کو ”شیر‘‘ کا ٹکٹ تھما دیا گیا۔ انجینئر نے گزشتہ بار مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر صوبائی انتخابات میں ریکارڈ ووٹ حاصل کیے تھے… 11 جون کو اس کے کاغذات نامزدگی منظور ہو چکے تھے‘ جن کے ساتھ نیب کا کلیئرنس سرٹیفکیٹ تھا۔ اب نون لیگ کا ٹکٹ یافتہ ہوتے ہی، اسے صاف پانی کیس میں گرفتار کر کے دو ہفتے کے ریمانڈ پر حوالہ نیب کر دیا گیا۔ گزشتہ روز ٹی وی سکرینوں پر وہ اس حالت میں نمودار ہوا کہ ہاتھ میں ہتھکڑی تھی اور چاروں طرف لوگوں کا ہجوم… ان کے بارہ سالہ صاحبزادے اور سترہ سالہ صاحبزادی نے باپ کی انتخابی مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بارہ سالہ سالار کس اعتماد کے ساتھ کہہ رہا تھا، الیکشن میں مقابلہ سیاسی جماعتوں کے مابین ہوتا ہے۔ کسی آزاد امیدوار سے کیا مقابلہ؟ اب چکری کے چودھری کو واقعی بچوں کا سامنا ہے لیکن یہ بچے ایسے غیر سیاسی بھی نہیں۔