الیکشن کی متوقع تاریخ…کنور دلشاد
سائفر کسی بھی اہم اور حساس نوعیت کی بات یا پیغام کو لکھنے کا وہ خفیہ طریقہ کار ہے جس میں عام زبان کے بجائے کوڈز پر مشتمل زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی عام سفارتی مراسلے یا خط کے برعکس سائفر کوڈِڈ زبان میں لکھا جاتا ہے۔ سائفر کو کوڈ زبان میں لکھنا اور ان کوڈز کو ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے دفترخارجہ میں باقاعدہ ‘سائفر اسسٹنٹ‘ موجود ہیں۔ سائفر وزارتِ خارجہ کے لیے ایک اہم ترین دستاویز ہوتا ہے اور جو بھی سائفر‘ دنیا کے کسی بھی ملک سے موصول ہوتا ہے‘اسے ڈی کوڈ کرنے کے بعد اس کی حساسیت کے پیش نظر اس کی کاپیاں متعلقہ اداروں یا حکام کو بھیجوا دی جاتی ہیں۔ دفتر خارجہ کے مطابق سائفر کی یہ تمام کاپیاں اصلی تصور کی جاتی ہیں اور ایک مہینے کے اندر سائفر کو واپس دفتر خارجہ بھیجنا ہوتا ہے‘ جس کے بعد وزارتِ خارجہ سائفر واپسی کا ایک سرٹیفکیٹ بھی جاری کرتی ہے۔سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی طرف سے سابق وزیراعظم عمران خان کے امریکی سائفر کو لے کر جھوٹا بیانیہ بنانے کے حوالے سے اعترافی بیان کے بعد ایک بار پھر یہ معاملہ زیر بحث ہے۔
سائفر کے حوالے سے اس سے پہلے ایسا شور اُس وقت مچا تھا جب 1957ء سے 1960ء تک فلپائن میں پاکستان کے سفیر رہنے والے پیر علی محمد راشدی نے ایک اہم سائفر کا کوڈ ایک بڑی ملک دشمن طاقت کو دے دیا تھا‘ جس سے پاکستان کی سفارتکاری پر کاری ضرب لگی تھی۔ ان کے اس عمل پر صدرِ مملکت ایوب خان نے پیر علی محمد راشدی کو سفارتکار کی ذمہ داریوں سے برطرف کرکے گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا لیکن وہ بیرونِ ملک فرار ہو گئے اور بعد ازاں صدر ایوب خان کی کابینہ کے رکن ذوالفقار علی بھٹو کی سفارش پر ان کو پاکستان آنے کی اجازت ملی۔ بعد میں وہ ایک اردو معاصر میں عرصہ دراز تک کالم نگاری کرتے رہے۔ وہ اپنے کالموں میں صدر ایوب خان کی مدح سرائی کرتے تھے۔ ایسا وقت بھی آیا جب وہ اپنے کالموں میں‘ انہیں معافی دلوانے والے ذوالفقار علی بھٹو کو ہی تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔ لیکن جب مسٹر بھٹو اقتدار میں آئے تو وہ ان کے مشیر اطلاعات و نشریات مقرر ہوئے۔
ہر سائفر غیر معمولی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا‘ روزانہ سینکڑوں سائفر وزارتِ خارجہ کو اپنے مخصوص ذرائع سے موصول ہوتے رہتے ہیں‘ یہ مخصوص ذریعہ کوئی فیکس مشین‘ ٹیلی گرام‘ صوتی پیغام یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے اور اس کا دارومدار کسی بھی ملک کے زیر استعمال اس ٹیکنالوجی پر ہوتا ہے جو وہ اس سلسلے میں استعمال کرتا ہے۔ یعنی سائفر لکھنا اور موصول ہونا ایک معمول کا عمل ہے۔ لیکن اسے پبلک کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہوتی۔ اس کے گم کر دینے یا چوری ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سابق وزیراعظم کی طرف سے ایک عوامی جلسے میں امریکی سائفر لہرائے جانے کے فوری بعد ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے تحت ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے تھی تاکہ یہ معاملہ اتنی طول نہ پکڑتا۔
یہاں اُس سائفر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو صدر ایوب خان کی طرف سے 1962ء میں چین اور بھارت کے مابین لداخ کے مسئلہ پر جنگ چھڑنے کے بعد امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو لکھا گیا تھا اور آج تک کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹ کی صورت میں امریکی وزارتِ خارجہ میں محفوظ ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اپنی غیرجانبدرانہ پالیسیوں کا لبادہ اتار کر چونکہ امریکی کیمپ میں چلے گئے تھے لہٰذا لداخ کے مسئلہ پر چین سے جنگ چھڑنے کے بعد امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا جھکاؤ واضح طور پر بھارت کی طرف تھا‘ جس سے پاکستان کی سالمیت کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر صدر ایوب خان نے اپنے سفیر عزیز احمد کے ذریعے ایک سائفر امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو بھیجا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سائفر پڑھتے ہوئے امریکی صدر کے ہاتھ سے جام نیچے گر گیا تھا اور سائفر پڑھنے کے بعد انہوں نے اسے 100 سال تک کے لیے کلاسیفائیڈ کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ سائفر ابھی تک امریکی وزارتِ خارجہ میں کلاسیفائیڈ کی حیثیت سے محفوظ ہے۔ اس واقعہ کا ذکر صدر جان ایف کینیڈی کی اہلیہ جیکولین کینیڈی نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ مجھے اس پُراسرار سائفر کے بارے میں سابق صدر ایوب خان نے 17اپریل 1974ء کو ایک نجی ملاقات میں بتایا تھا جس کا ذکر میں نے اپنی کتاب ”سرگزشت‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے جو عنقریب شائع ہونے والی ہے۔
قومی سطح کے سیاستدان جب ریاستی مفاد کے برعکس کسی مخصوص ایجنڈے پر کام کرنے لگ جاتے ہیں تو ان کے گرد قانونی گھیرا تنگ کرنے کے لیے جواز پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے اعظم خان کے عمران خان کے خلاف ریکارڈ کرائے گئے اعترافی بیان کے بعد 190ملین پاؤنڈ کیس اور القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کے گرد قانونی گھیرا مزید تنگ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ توہینِ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کی توہین کے کیس میں بھی عمران خان کے خلاف کارروائی تیز ہو چکی ہے۔ شنید ہے کہ شہزاد اکبر بھی کسی بھی وقت واپس آ کر عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف قانون کا گھیرا اور بھی تنگ ہو جائے گا۔ خیال رہے کہ وعدہ معاف گواہ وہی شخص بنتا ہے جو خود بھی شریک جرم اور بے ایمان ہوتا ہے جبکہ ایماندار اور دیانتدار بیورو کریٹس کبھی بھی وعدہ معاف گواہ نہیں بنتے۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے تمام اہم ترین بیوروکریٹس بھی ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے جبکہ رائو عبدالراشد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ پانچ سال کے لیے جیل چلے گئے تھے۔
ان دنوں ملک میں نگران حکومتوں کے قیام اور اسمبلیوں کی تحلیل پر بحث جاری ہے۔ شنید ہے کہ حکومت وقت سے پہلے اسمبلی تحلیل کر دے گی جس کا واحد مقصد صرف یہی ہے کہ الیکشن کی تیاری کے لیے 60 کے بجائے 90 دن کا عرصہ میسر آ جائے۔ لیکن اگر نگران حکومت کا دورانیہ 90 روز سے بھی زیادہ کا ہوا تو اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ ایسا کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل224اور (3)218کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا۔دبئی میں سابق صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی ملاقات کے بعد یہ سننے میں آیا تھا کہ نگران وزیراعظم کے لیے کسی سیاسی شخصیت پر اتفاق ہوا ہے۔ اب اگلے روز اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کی خبریں سننے میں آئیں لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے اس کی تردید کر دی گئی کہ ان کی طرف سے اسحاق ڈار کے نام پر اتفاقِ رائے نہیں ہوا ہے۔ شاید مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اسحاق ڈار کانگران وزیر اعظم کے لیے نام فلوٹ کرکے عوامی ردِعمل کا جائزہ لیا گیا ہے۔شنید ہے کہ اسحاق ڈار اگر نگران وزیراعظم نہیں بھی بنتے تو بھی وزارتِ خزانہ کا عبوری اختیار انہی کے پاس رہے گا۔
قوم مطمئن رہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے اپنی تیاریاں مکمل کر چکا ہے اور اگر نگران حکومت کا دورانیہ 60 دن ہوا تو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں اور اگر یہ دورانیہ 90 دن ہوا تو نومبر کے پہلے ہفتے میں عام انتخابات منعقد کروا دیے جائیں گے۔