امتحان کے پانچ پرچے….امیر حمزہ
قرآن کی ایک سورت جس کا نام ”الانسان‘‘ ہے۔ دوسرا نام اس کا ”الدھر‘‘ ہے۔ ”الدھر‘‘ کے معنی زمانہ اور وقت کے ہیں۔ مذکورہ سورت کی پہلی آیت ہی میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ انسان پر ایک ایسا بھی ٹائم گزر چکا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہیں تھا۔ اگلی آیت میں فرمایاکہ ہم نے انسان کو ”مرد و عورت‘‘ کے باہم ملنے والے قطرے سے بنایا۔ (اس سے مقصد ہمارا یہ ہے) کہ ”نَبْتَلِیْہِ‘‘ ہم اس کی آزمائش کریں، اسے ایک امتحان سے گزاریں یعنی انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ آج وہ ایک مکمل اور باشعور صورت میں انسان ہے تو اس پر ایک ایسا ٹائم بھی گزر چکا ہے جب زمین پر اس کا نام و نشان نہ تھا اور جب وہ وجود میں آنے لگا تو اس کی حیثیت پانی کے ایک قطرے کی تھی جو بے حیثیت تھا۔ فرمایا! ہم نے اسے سننے اور دیکھنے کی صلاحیت اس لئے دی ہے تاکہ امتحان اور آزمائش کے قابل ہو جائے۔
”سورۃ البقرۃ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے امتحان کے پانچ پرچوں کا تذکرہ کیا ہے کہ ہم یہ پرچے لیں گے۔ یہ زمین ایک کمرہ امتحان ہے پانچ پرچوں یا ان میں سے کچھ کو حل کرنا پڑیگا۔ اب یہ ممتحن کی مرضی ہے کہ کس سے کتنے پرچوں کو حل کرایا جاتا ہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں!
اے انسانو! ہم تم لوگوں سے کوئی نہ کوئی پرچہ ضرور بالضرور حل کروائیں گے۔ وہ خوف کا بھی ہو سکتا ہے، بھوک کا پیپر بھی ہو سکتا ہے، مال میں کمی کا بھی ہو سکتا ہے، جانوں (افراد کی کمی) کا بھی ہو سکتا ہے، پھلوں کی کمی کا پرچہ بھی ہو سکتا ہے، (میرے رسولؐ) جو لوگ صبر کرنے والے ہیں ان کو (امتحان میں پاس ہونے کی) خوشخبری سنا دو۔ (155)
پہلا پرچہ (خوف): ڈر اور خوف کا امتحانی پرچہ بڑا مشکل پرچہ ہے۔ بادشاہ خوف کا شکار ہے کہ حکومت نہ چھن جائے، اسی خوف میں مبتلا ہو کر وہ ریاستی اداروں کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتا ہے ۔ اگر وہ امن و امان کی خاطر عدل کے ساتھ چلتا رہے تو درست مگر وہ زیادہ ہی خوف میں مبتلا ہو جائے اور خوف کے ردعمل میں ظلم شروع کر دے، انسانی حقوق کی پامالی شروع کر دے، قانون جو اس کی ریاست نے بنایا ہے اس کو پامال کرنا شروع کر دے تو ایسا حکمران خوف کے پرچے میں فیل ہو گیا ہے۔ اسی طرح رعایا میں سے کوئی شخص خوف میں مبتلا ہو کر بدگمانی شروع کر دے اور پھر بدگمانی پر عمل کر کے کسی کا نقصان کر دے، انسانی جان کو نقصان پہنچا دے تو وہ بھی فیل ہو گیا۔ ایک وہ مظلوم جو کسی طرف سے بھی ظلم کی صورت میں خوف کا شکار ہو جائے تو اسے اپنے رب کریم سے جڑنا چاہئے، انسانی عزت و تکریم اور خودداری و وقار کو سامنے رکھ کر پرامن جدوجہد کرنی چاہئے۔ توکل اپنے رب پر رکھنا چاہئے، صبر اور حوصلے کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہئے، ایسا شخص خوف کے پرچے میں کامیاب ہو گیا۔ ویسے جس انسان کو بھی دیکھ لو وہ ممکنہ خطرات سے خوف میں مبتلا نظر آئے گا۔ یہ خوف اپنی ذات کے بارے میں بھی ہے۔ بیوی بچوں اور رشتہ داروں کے لئے بھی ہے۔ موت اور حادثات کا خوف ہے۔ دشمنوں سے نقصان کا خوف ہے۔ آنے والے مصائب اور ممکنہ بیماریوں کا خوف ہے۔ پاس وہی ہے جو اللہ پر ایمان اور توکل رکھتا ہے ۔جب کوئی تکلیف اور مصیبت آ جائے تو صبر کرتا ہے۔ خوف کے اندیشوں میں اپنے آپ کو گھِرنے نہیں دیتا۔ یہ کامیاب اور پاس طالب علم ہے۔
دوسرا پرچہ (بھوک): یہ پرچہ بھی بہت سخت ہے، قحط پڑ جائے تو مل جل کر کھانے اور خوراک کو کھایا جائے، ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے۔ ایسے لوگ پاس ہو گئے۔ کسی گھر میں بھوک کا ڈیرہ لگ جائے تو اس حالت میں بھی صبر اور شکر جس نے کر لیا، بھوک برداشت کر لی، جب مل گیا خود بھی کھایا اور دوسروں کو ترجیح دے دی تو کامیابی ہے۔
تیسرا پرچہ (مال میں کمی): تجارت میں گھاٹا پڑ گیا، دکان ختم ہو گئی، فیکٹری بک گئی، گاڑی حادثے کا شکار ہو گئی، مکان نہ رہا، سر کا آسرا چھن گیا، جو بھی ہو گیا، مال کے جس حصے سے جتنی بھی کمی واقع ہو گئی، اللہ کا شکر ہی ادا کیا کہ وہی دینے والا تھا وہی لینے والا۔ باقی اپنی جدوجہد جاری رکھے۔ یہ بھی پاس ہو گیا۔
چوتھا پرچہ (جانوں کی کمی): جنگ کے دوران پیارے شہید ہو گئے۔ وبا میں فوت ہو گئے۔ ایکسیڈنٹ میں کوئی عزیز فوت ہو گیا۔ بیماری میں مبتلا ہو کر بیوی فوت ہو گئی۔ خاوند فوت ہو گیا۔ بچوں میں سے کوئی نہ رہا۔ ماں باپ فوت ہو گئے۔ بہن بھائی نہ رہے۔ الغرض! ایک گھر یا خاندان میں سے کسی پیارے کی کمی ہو گئی۔ یہ کمی دنیا میں مستقل کمی ہے جبکہ ایک کمی وہ ہے جو عارضی کمی ہے۔ ہے عارضی مگر تکلیف کے لحاظ سے کہیں بڑی ہے۔ کسی عزیز کا اغوا ہو گیا۔ اغوا کاروں نے تاوان کا مطالبہ کر دیا۔ یہ کمی جان لیوا کمی ہے، کیونکہ عزیزکو اٹھا لیا گیا۔یہ تکلیف انتہائی شدید ترین ہے۔ اس جدائی کا ایک ایک لمحہ حالت نزع جیسا ہوتا ہے۔ ایسے تمام صدموں پر صبر کرنا اخروی کامیابی ہے۔
پانچواں پرچہ (پھلوں کی کمی): آندھی آئی اور آموں کے باغات میں سب آم کچے ہی زمین پر گر گئے۔ تھوڑے بہت باقی رہ گئے۔ اسی طرح باقی پھلوں کے باغات پرکوئی آفت آ گئی۔ بیماری پڑ گئی۔ وائرس نے پھل برباد کر دیے۔ اولوں نے پھلوں کا بُور یعنی پھول ہی برباد کر دیا۔ یہ پرچہ بھی ہو کر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ”وَلَنَبْلُوَنَّکُم‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا جس میں ”ل‘‘ تاکید کا اور شَدْ والا نون جسے عربی گرامر میں ”ثقیلۃ‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں تاکید ہے یعنی امتحان کے یہ پرچے ضرور بالضرور دنیا کی امتحان گاہ میں دینے پڑیں گے۔
کامیابی کا اعلان: فرمایا! ”ایسے لوگ کہ (ان مصائب میں سے) کوئی بھی مصیبت ان کو پہنچتی ہے تو وہ ”انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی طرف واپس جانے والے ہیں تو ایسا کہنے والوں پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں ہیں اور بہت بڑی رحمت بھی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ (البقرہ: 156-157) یعنی اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دن دنیا میں بھی تبدیل کریں گے اور آخرت میں بھی اجر عظیم سے نوازیں گے۔
قارئین کرام! تقدیر یہی ہے کہ سب کچھ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے۔ اس پر ایمان رکھنے سے مؤمن کو سکون ملتا ہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں ”زمین پر جو بھی کوئی مصیبت آتی ہے اور تمہاری جانوں (افراد) میں جو مصیبت آتی ہے وہ ایک کتاب (آسمانی سپرکمپیوٹر) میں اس (زمین، افراد اور مصیبت) کی پیدائش سے قبل لکھ دی گئی ہے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے معمولی سی بات ہے۔ آگاہ اس لئے کر رہے ہیں کہ جو ہاتھ سے نکل جائے اس پر (اللہ کی ناشکری والا) غم نہ کرو اور جو کوئی (نعمت) تم کو عطا فرما دے تو اس پر حد سے بڑھ کر پھولتے نہ پھرو‘‘۔ (الحدید:23) تقدیر کے غلبے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ابا جی حضرت یعقوب علیہ السلام کو خواب بتایا کہ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ ابا جی نے کہا: بیٹا یہ خواب اپنے بھائیوں کہ نہ بتانا وگرنہ (حسد میں مبتلا ہو کر) وہ کوئی سازش کر جائیں گے۔ جی ہاں! بیٹے نے خواب بھی نہ بتلایا مگر اس کے باوجود سوتیلے بھائی اپنے باپ سے یوسف علیہ السلام کو لے گئے۔ سازش کا خدشہ بھی تھا پھر بھی یوسف ؑ کو حضرت یعقوبؑ نے اپنے ہاتھوں سے ان کو پکڑا دیا اور بیس سال کے قریب جدائی میں روتے رہے۔ یہ ہے تقدیر جس سے کوئی بھاگ نہیں سکتا لہٰذا تدابیر اپنی جگہ پر مگر تدبیر تقدیر کو ٹال نہیں سکتی، لہٰذا یہ وہ بات ہے کہ جس سے ایک مومن اپنے اللہ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے۔ باقی رہے وہ لوگ جو انسانیت کے لئے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بدقسمت لوگ ہیں، دنیا میں مظلوموں سے یہ معافی نہ مانگ سکے تو آخرت ان کی برباد ہے۔ دنیا میں بھی اپنی بربادی کے مناظر دیکھ سکتے ہیں۔