منتخب کردہ کالم

امریکا اور آدھا سچ … راؤ منظر حیات

امریکا اور آدھا سچ … راؤ منظر حیات

عمومی رویوں کے متضاد سوچنااورلکھناقدرے مشکل کام ہے۔مگرریاستوں کے باہمی معاملات دوجمع دو،چار نہیں ہوتے۔اکیسویں صدی میں ملکوں کے باہمی تعلقات حددرجہ مشکل اورپیچیدہ بنیادوں پراستوارہوتے ہیں۔کئی بارتویہ جہتیں عام لوگوں کومعلوم ہی نہیں ہوتیں۔پاکستان اور امریکا کے تعلقات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔انتہائی پیچ دار مگرباہرسے سادہ سے نظرآتے ہوئے امور۔

ڈونلڈٹرمپ کی تقریربے حدسنجیدہ تھی۔اسکاایک ایک لفظ نپاتلاتھا۔جن اداروں کوپیغام دیاجارہاتھا،وہ اسکوغور سے سن رہے تھے۔ تقریرکالبِ لباب صرف یہ تھاکہ دہشتگردی کی جنگ میں ہمارے ملک کی کیاپوزیشن ہے۔ کوئی ہے بھی کہ نہیں۔امریکی صدرکوہمارے ملک میںعمومی سطح پرکافی حد تک منفی پذیرائی حاصل ہوئی۔یہ ایک سادہ سا ردِعمل تھا اور ہرملک میں ایساہی ہے۔

اگرامریکا،ایران کے متعلق پابندیوں کی بات کرتاہے،تولازم ہے کہ ایرانی عوام میں اس کے خلاف ایک مشکل جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر ڈونلڈٹرمپ، ہمسایہ ملک میکسیکوکے بارے میں سرحدی دیوارکی بات کرتا ہے،تومیکسیکومیں عام لوگوں کی سطح پرامریکا کے متعلق شدت پسندانہ جذبات اُبھرتے ہیں۔پاکستان کابھی یہی عالم ہے۔

مگردنیاکے تمام ممالک ایک طرف اورہماراعمل اور ردِعمل جوہری طورپریکدم ایک طرف۔جذباتیت اورایک مشکل جذبے سے معمور۔اسے حب الوطنی کانام دینابھی قدرے غیرصائب ہے۔ کیونکہ دلیل پرمخالفت یاتعریف بالکل ایک اورچیزہے۔مگرصرف اورصرف وقتی جذبے کو بڑھاکرنعرے لگانے کاعمل بالکل ایک مختلف سانحہ ہے۔ بدقسمتی سے ہم امریکی صدرکی تقریرکواس سنجیدگی سے نہیں لے رہے،جسکی وہ مستحق ہے۔یہ ایک طرح کی چارج شیٹ بھی ہے جس میں ہمیں دہشتگردی کی جنگ میں ایک ولن کی حیثیت سے پیش کیاگیاہے۔

نکتہ یہ بھی ہے کہ اب تک اتنے عفریت دیکھ چکے ہیں کہ مصیبتوں اوربلاؤں کی عادت سی ہوگئی ہے۔ملک کے کسی حصے میں بم دھماکا یاخودکش حملہ ہوتاہے،تواب اکثرلوگوں کے لیے یہ محض ایک خبرہے۔ٹی وی پرسائرن بجاتی ہوئی ایمبولینس،نزدیکی اسپتالوں میں ایمرجنسی کاخودساختہ سااعلان،واردات کے بعدہائی سیکیورٹی الرٹ اورمارے جانے والے افرادکی مالی معاونت،اس طرح کے معاملات اب ہمارے لیے بالکل عام سے ہیں۔ایک ایسی خبرجودوچاردن میں مکمل طورپرذہن سے غائب ہوجاتی ہے۔

امریکی رویہ کے بدلنے سے ہمارے ملک پرجوممکنہ قیامت ٹوٹ سکتی ہے،اس میں بھی ہم لوگ روایتی بے حسی کا مجسم غیرفعال رویہ اپنابیٹھے ہیں۔خوفناک بات یہ ہے کہ عام سطح پربے بسی اوربے حسی گڈمڈہوچکے ہیں۔سنجیدہ معاملات پرغوروخوض کرنے کے لیے اب شائدکوئی تیارہی نہیں ہے۔طالبعلم کی رائے میں امریکا سے کشیدگی کے معاملات ہمارے پورے ملک کوشدیدعدم استحکام کی طرف لے جاسکتے ہیں۔یہ بات لکھنابھی مشکل ہے اوراس کی پذیرائی تو خیر بے حدمشکل ہے۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر حقیقت بیان کرنے کی عملی کوشش کریں توآپکی حب الوطنی پربھی سوال اُٹھایا جاتا ہے۔ مگر میرا گمان ہے کہ اب ہمارے مقتدرادارے بھی سامنے کھڑے ہوئے عفریت سے آنکھیں نہیں چراسکتے۔ دورکاذکرنہ کیجیے۔ عمومی طورپربیان کیاجاتاہے کہ امریکا نے پاکستان کو افغانستان جہادمیں جھونک دیااورپھرغائب ہوگیا۔یہ بات صرف اورصرف آدھاسچ ہے۔اگرامریکا نے پاکستان کے خطہ کوسویت یونین کے خلاف استعمال کیا، تو کیا یہ ہماری مرضی کے بغیرتھا۔قطعاًنہیں،ہرگزنہیں۔

تلخ بات یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق سیاسی تنہائی کاشکارتھا۔جنرل ضیاء کواندرسے احساس تھاکہ عالمی سطح پراس کے کوئی قابل بھروسہ دوست نہیں ہیں۔ جنرل ضیاء اوراس کے رفقاء نے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت امریکی جنگ میں شامل ہونے کافیصلہ کیا۔جہادکانعرہ ہمارا ایمان بنادیاگیا۔ہماری حکومت کی مرضی اورمعاونت سے پوری دنیاسے جہادی اس خطے میں لائے گئے اوراس کے بعدجوکچھ ہوا،وہ سب کے سامنے ہے۔کون کہتاہے کہ ہمیں استعمال کرکے چھوڑ دیا گیا۔

صاحبان!ہم اپنی مرضی سے استعمال ہوئے۔ذاتی اوراداروں کی سطح پربھرپورمال بنایااورسنگین ترین بات یہ ہے کہ جوسینئرحکام اس جہادکے بانی تھے،ان کی اولاداورمال سب کچھ امریکا یامغرب میںمنتقل ہوگیا۔ ذاتیات پربات نہیں ہونی چاہیے۔مگرکیاستترکی دہائی کے عمال آج اپنے اثاثوں کی منی ٹریل دے سکتے ہیں۔ ناممکن۔بات تلخ ہوجاتی ہے پرمجھے ڈیلس میں سیکڑوں ہم وطن ملتے ہیں جنہوں نے افغان جہادمیں خوب گنگاجل میں ہاتھ دھوئے بلکہ ڈبکیاں لگائیں۔ غریب کے بچے کے لیے بندوق اورجہادلازم تھامگرامیراورمقتدرلوگوں کے اس عظیم جہاد کے درمیان یااختتام میں مغرب میں سینگ سما گئے۔ یقین نہیں آتاتوماضی کے اہم لوگوں کی فہرست بنائیں۔

تحقیق کیجیے کہ آج کل کہاں ہیں اوران کی اولادکہاں رہ رہی ہے۔پوراسچ آپکے سامنے آجائے گا۔آج بھی اگرآپ کھل کر بات کریں کہ ہماراافغانستان میںآلہ کاربننے کافیصلہ مکمل طور پرغلط تھا،تولوگ آپ کوغیرمحب وطن سمجھ سکتے ہیں۔امریکا پر ہی بات کیجیے۔کیاجنرل پرویزمشرف کاذاتی فائدے کے لیے افغانستان کی حکومت کوبربادکرنے کافیصلہ قطعی طورپردرست تھا؟اس کے متعلق بھی سوالات موجودہیں۔ہم بری الذمہ کیسے ہوسکتے ہیں۔غورکیجیے۔یہی توجہ طلب جزو ہے اور تحریر کاجوہربھی۔

ہمارے ملک میں امریکا کی مالی معاونت کو پرکھیے۔ جتنا مالی فائدہ پاکستان نے اس امدادسے اُٹھایاہے،وہ حیرت نگری ہے۔ الگ بحث ہے کہ اس مالی معاونت سے ہم نے حقیقت میں کیاترقی کی۔یہ تکرارکسی اوروقت۔امریکا چلے جائیے۔ ہرشہر،قصبے اوردیہات میں پاکستانی نظر آئینگے۔ گزشتہ پچاس ساٹھ برس میں ہمارے شہریوں نے وہاں بے حساب ترقی کی ہے۔کاروبارکیے ۔پیسہ بنایا۔اعلیٰ نوکریاں حاصل کی ہیں۔

ہمارے بینکر، ڈاکٹر، انجینئر اورآئی ٹی کے شعبہ کے لوگوں کوامریکا میں حددرجہ ترقی کے مواقع ملے ہیں۔اپنے ملک میں ان لوگوں کوترقی کے مساوی مواقع ہرگزہرگزفراہم نہیں تھے۔اس بات کو اُلٹا کر دیکھیے۔ پاکستان میں کتنے اہلیت والے غیرملکیوں کواپنے نظام کا حصہ بنایا ہے۔ایک بھی نہیں یاشائدبہت کم۔مجموعی طور پر لائق لوگوں کویہاں سے بھاگنے پرمجبورکردیاہے۔آج کی صورتحال تو خیربے حدمشکل ہے۔کوئی پتہ نہیں کہ آپ کے بیانیہ کو کیارنگ دے دیاجائے۔

امریکی صدرکی تقریرکے بعدایک تکلیف دہ جذباتی رویہ سامنے آیاہے۔مخصوص مذہبی رہنماؤں نے فلک شگاف طریقے سے پریس کانفرنس کی ہے کہ حقانی گروپ کوریاستی ادارے نشانہ نہیں بناسکتے یا بنانا نہیں چاہتے۔میراخیال ہے کہ مولاناصاحبان کی پریس کانفرنس کے بعدہماراقومی مقدمہ حددرجہ کمزور ہوچکا ہے۔ چند علماء اس الزام کوتسلیم کررہے ہیں،جوان پرتقریرمیں لگایاگیاہے۔ملک دشمنی اور کیاہوسکتی ہے۔ایک مولانا صاحب فرمارہے ہیں کہ ہم امریکا کے خلاف احتجاج کرینگے۔ درست بات ہے۔ مدرسوں سے ہزاروں طالبعلم باہرنکال کرجلوس نکالینگے۔ مگر اس سے امریکا کی صحت پر کیا اثر ہوگا۔ اس سوال کاجواب وہ قطعاًنہیں دے سکتے۔تمام دینی رہنما گرمیوں میں اپنے مریدین سے چندہ وصول کرنے کے لیے مغربی ممالک جاتے رہتے ہیں۔ہرطرح سے عیش وآرام میں غیرسرکاری چھٹیاں گزارتے ہیں۔واپس آکرلوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ان دینی قومی رہنماؤں سے پوچھیے،کہ آپ میں سے کسی ایک نے بھی ٹرمپ کی تقریرکے بعد امریکی سفارت خانے کوکہاہے کہ میرا ویزہ کینسل کر دیں۔

ایک نے بھی کہا۔ مگرلوگوں میں ایک تاثرپیداکیاجارہاہے کہ ہماری قومی غیرت اورحمیت خطرے میں ہیں۔ ان لوگوں کے دوعملی معاملات رہنے دیجیے۔اگرامریکا اتناہی براہے تو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے سامنے روزانہ ہزاروں لوگوں کی ویزہ حاصل کرنے کے لیے قطاریں کیوں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں جائیں توپتہ چلتاہے کہ ہرکوئی امریکا جانے کے لیے بے قرارہے۔کیاامریکی صدرکی تقریرکے بعد وہاں جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعدادکم ہوگئی ہے۔ قطعاً نہیں۔ لوگ آج بھی وہاں قطاروں میں لگ کر انتظار کرنے کے لیے تیارہیں۔بنیادی وجہ یہی ہے کہ عام لوگ، سرکار کے بیانیے سے عملی طورپرمتفق نہیں ہیں۔وہ بات نہیں کرتے مگرہرقیمت پرمغرب یاامریکا پہنچناچاہتے ہیں۔ اگر ہماری قومی غیرت کوللکاراگیاہے،توکیوں کروڑوں لوگ اپنے وطن سے بھاگنے کے لیے تیارہیں۔جواب دیجیے۔

دوسری طرف آئیے۔ بتایاجارہاہے کہ چین ہمارے ملکی مفادات کی حفاظت کریگا۔یہ بات بہت حدتک مبالغہ ہے۔ چین صرف اورصرف اپنے قومی مفادات کی حمایت کریگا۔چینی حکومت نے پاکستان کوبے حساب پیسے دیے۔ مگران کی شرائط کیاہیں،اس میں سے اکثریت قرضوں کی ہیں۔جوہم نے واپس کرنے ہیں۔روس کی بات بھی کی جا رہی ہے۔اس کی اپنی اقتصادی حالت اتنی خراب ہے کہ گنجائش ہی نہیں ہے کہ دل کھول کرہمارے ساتھ کھڑا ہوجائے۔

ہم جن متضاد معاملات میں پھنس چکے ہیں۔اس میں کوئی ملک ہماری مددنہیں کرسکتا۔ ہمیں توغیرملکی صائب مشورہ بھی ناگوارگزرتاہے۔جیسے کشمیرکے متعلق چینی رہنما ہمیں سمجھاتے رہے ہیں کہ چنددہائیوں کے لیے اسے پسِ پشت ڈال دیں۔اقتصادی ترقی پرتوجہ دیں۔ملک کے مالی حالات درست کریں۔مگرہم ان کے مشورہ پراپنی روش بدلنے کوتوہین سمجھتے ہیں۔

اس وقت انتہائی ٹھنڈے طریقے سے اپنے قومی مفادات کادوبارہ احاطہ کیاجاناچاہیے۔بے شک جومرضی ہوجائے،ان مفادات کی تکمیل کے لیے حددرجہ غیرمقبول فیصلے کرنے پڑیں توکرنے چاہیے۔صرف اورصرف ایک نکتہ اہم ہے کہ ہمارے مفادات کیسے محفوظ کیے جاسکتے ہیں۔ امریکا کے معاملے میں سفارتی دورے منسوخ یاتبدیل کروانے سے بہترہے کہ ہمارے مقتدرادارے امریکا کے ساتھ سنجیدہ مکالمہ کریں۔ان کے خدشات اگردرست ہیں تودلیل کی بنیادپراپنی قومی پالیسی کاازسرِنوجائزہ لیں۔کسی صورت میں معاملات کوخلفشاراورجذباتی عناصرکے نزدیک نہ جانے دیں۔مگرہم لوگ صرف آدھے سچ کو حقیقت گردانتے ہیں۔پوراسچ برداشت کرناہمارے لیے ناممکن ہے۔
…………
اگلا کالم
………….