منتخب کردہ کالم

امریکہ…قائداعظم سے ذوالفقار علی بھٹو تک (گنج فکر) آصف بٹ

قائد اعظمؒ

پاکستان اپنے قیام کی پہلی دہائی کے اندر براعظم ایشیا میں امریکہ کا بہترین معاون قرار پا گیا تھا۔ اس کی وجہ سیٹو اورسینٹو جیسے معاہدات میں اُس کی سرگرم شرکت تھی۔ یہ معاہدات دراصل مغربی دُنیا کی طرف سے کمیونسٹ روس کی ناکہ بندی کے لئے تھے۔ پاکستان کی ان میں شرکت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کسی بھی قیمت پر گہرائی حاصل کرنے کی خواہش کے پسِ پردہ بھارت سے اُس کی مسابقت تھی جو حجم، طاقت اور منفی عزائم کے حوالے سے ہماری اُس وقت کی قیامت کے حواس پر چھایا ہوا تھا۔ بھارت نے جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا، روسی یا امریکی بلاک کا حصہ بننے کی بجائے غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی حالانکہ یہ فقط لبادہ تھا جبکہ حقیقت میں علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں وہ ہمیشہ سوویت روس کا ہمنوا رہا ۔ پاکستان مذہب کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا تھاجس کے باعث اُس وقت کی روسی کمیونسٹ قیادت نے اُس کے قیام کے موقع پر تہنیتی پیغام بھیجا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ 7ستمبر1947ء کو منعقدہ کابینہ کے پہلے باقاعدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قائدِاعظم ؒ نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ کر ملک کی خارجی پالیسی کی سمت قائم کر دی ”پاکستان ایک جمہوریہ ہے اور کمیونزم کااسلام سے دور کا بھی وابستہ نہ ہے جس کے پیشِ نظر صاف ظاہر ہے کہ ہمارے مفادات روس کی بجائے برطانیہ اور امریکہ جیسی دُنیا کی عظیم جمہوریتوں کے وابستہ ہیں‘‘۔ قائدِاعظم ؒ کی صحت اور زندگی نے اُنہیں اپنی متعین کردہ خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کی مہلت ہی نہ دی جبکہ امریکہ کی نظریں پاکستان کی بجائے بھارت پر مرکوز رہیں جو اُس کے نزدیک آبادی، رقبے، وسائل اور علاقائی اہمیت میں پاکستان کے مقابلے میں کہیں بڑھ کر تھا۔1949ء کے وسط میں امریکی صدر ٹرومن نے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو امریکی دورے کا باقاعدہ دعوت نامہ جاری کر دیا جس سے پاکستانی قیادت نے سبکی محسوس کی۔ ایران میں پاکستانی سفیر را جہ غضنفر علی کے اپنے ہم منصب روسی اہلکار سے گہرے ذاتی مراسم تھے جنہوں نے تہران میں لیاقت علی خان کی اُس سے ملاقات کا اہتمام کیا جس میں لیاقت علی خان نے روس کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس ملاقات کے ایک ہفتہ کے اندر 2جون 1949ء کو روس نے لیاقت علی خان کو دورے کی باقاعدہ دعوت دے دی۔ پاکستانی قیادت نے اپنے اس عمل سے امریکہ کو یہ واضح پیغام دیا کہ اُسے فار گرانٹڈ نہ سمجھا جائے ۔ روس، امریکہ ، بھارت اور پاکستان کے درمیان کھیلے جانے والے اس سفارتی کھیل میں رونما ہونے والے یہ عجیب و غریب واقعات تھے کہ امریکہ نے پاکستان کی بجائے بھارتی قیادت کو دورہ کرنے کی دعوت دی جبکہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا غیر مبہم اعلان کر چکا تھا اور بھارت نے بظاہر غیر جانبداری اپنا رکھی تھی۔ اِدھر روس نے جواہر لال نہرو کی بجائے لیاقت علی خان کو روس کا دورہ کرنے کی دعوت دے کر امریکہ اور بھارت دونوں کو ورطۂ حیرت میں گم کر دیا۔ امریکہ نے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے لیاقت علی خان کو امریکہ کے دورے کی دعوت دے دی۔ روس پاکستان کی اس گریٹ مووو سے خاصا کبیدہ خاطر ہوا اور پاکستانی قیادت پر 1965ء تک اپنے دروازے بند کیے رکھے۔
پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کی 70سالہ تاریخ میں فقط آئزن ہاور، نکسن اور ریگن کے زمانوں کو دو طرفہ دوستانہ تعلقات کے دور قرار دے سکتا ہے جبکہ بقیہ تمام ادوار میں پاک امریکہ تعلقات شکوک و شبہات، عدم اعتماد، اجنبیت اور ناپسندگی کے عنوان رہے۔ جن دنوں امریکہ اور پاکستان کے درمیان سیٹو اور سینٹو کی وجہ سے گاڑھی چھنتی رہی اور سرد جنگ کی چار دہائیوں کے دوران امریکہ کے پاکستان میں مفادات گہرے تر ہوتے رہے، اس دوران بھی بھارت کی اجنبیت کے باوجود امریکہ نے اُس کا شمار ناپسندہ ممالک کی فہرست میں نہ کیا۔ اس پورے دور میں بھارت نے روس اور امریکہ دونوں سے متوازن پالیسی چلائی جبکہ پاکستان کلیتاً امریکہ پر انحصار کرتا رہا۔ 1965ء کی پاک بھارت کی جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان کی امداد بند کر دی جس سے دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے قدر ے خوشگوار تعلقات میں تلخی کا عنصر شامل ہو گیا۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد امریکی صدر نکسن کی مداخلت سے مغربی پاکستان کے بھارتی جارحیت سے بچ جانے کی بنا پر ایک دفعہ پھر پاک امریکہ
تعلقات میں خوشگواری کی لہریں اُٹھیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی قوم پرستانہ پالیسیوں اور امریکی استحصالی نظام کے خلاف فکرو عمل کے باعث پاک امریکہ تعلقات دوبارہ اجنبیت کا شکار ہو کر رہ گئے۔ پاکستان چونکہ اپنے محلِ وقوع کی وجہ سے جنوبی ایشیاء میں بالخصوص امریکی نقطۂ نظر سے اہم حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اہمیت کے حامل اس ملک کو امریکہ نے اپنے زیرِ اثررکھنے کی غرض سے ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹا کر جنرل ضیاء الحق کو پاکستان پر مسلط کر دیا۔… (جاری )