امریکہ شمالی کوریا ملاقات… ہمارے لئے سبق آموز….ایاز امیر
مینڈک کی طرح ہمیں اپنے چھوٹے کنوئیں میں رہنا پسند ہے اور اُسی کو ہم دنیا سمجھتے ہیں۔ اپنی ہی فضولیات میں مگن رہنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔ باقی دنیا میں کون سی ہوائیں چل رہی ہیں اُس سے ہمیں زیادہ سروکار نہیں۔
کہاں امریکہ کی طاقت اور کہاں شمالی کوریا کا اکیلا پن۔ لیکن جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چیئرمین کِم جونگ اُن سنگا پور میں ملے تو مکمل برابری کی سطح پہ اُن کی ملاقات ہوئی ۔ اِس تاریخی ملاقات کے تمام پہلوؤں سے لگتا تھا کہ چیئرمین کِم کسی چھوٹے ملک کے سربراہ کی بجائے کسی بڑی طاقت کے لیڈر ہیں۔ کس پُراعتماد طریقے سے شمالی کوریا کے رہنما نے صدر ٹرمپ سے لمبا مصافحہ کیا اور پھر وَن ٹو وَن ملاقات کیلئے اندر چلے گئے جہاں پہ سوائے اُن کے ٹرانسلیٹروں کے اور کوئی نہ تھا۔
کہاں چند ماہ پہلے دونوں اطراف سے دھمکیاں اور تقریباً گالیوں کا تبادلہ اور کہاں یہ گرم جوشی۔ چند ماہ پہلے ہی سنگاپور میں رُونما ہونے والے مناظر ناقابل تصور تھے ۔ لیکن تیزی سے حالات بدلے، موسم بدلا اور یہ تاریخی ملاقات ممکن ہوئی ۔ اِس ملاقات کے انعقاد میں جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے صدر ٹرمپ اور چیئرمین کم کو باور کرایا کہ آگے کی طرف قدم رکھنا اچھا‘ اور ممکن بھی ہے ۔ جاپان اِس ملاقات کے خلاف تھا یا کم از کم جس تیزی سے ملاقات کی طرف راہ ہموار ہو رہی تھی جاپان کی تشویش میں اضافے کا باعث بن رہی تھی‘ کیونکہ جاپان اور جنوبی کوریا ہی وہ دو ممالک ہیں جو شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی پہلی زَد میں ہیں۔ لہٰذا جاپان کی تشویش بلا جواز نہ تھی۔ لیکن تمام تر تحفظات اور رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے ملاقات کی بنیاد رکھی گئی اور پھر یہ ممکن ہوا۔
یہ بات ماننا پڑے گی کہ صدر ٹرمپ کی بجائے کوئی اور امریکی صدر ہوتا تو اتنا جلد بریک تھرو ممکن نہ ہوتا۔ امریکہ میں دائیں بازو سے لے کر امریکہ کے وسیع فیصلہ ساز حلقوں تک شمالی کوریا کے بارے میں سخت رائے پائی جاتی ہے ۔ امریکی تو ہمیشہ سے یہ چاہتے آئے ہیں کہ شمالی کوریا فوراً اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے ، امریکی انسپکٹر شمالی کوریا کی جوہری تنصیبات پہ پھیل جائیں اور وہاں کا جوہری پروگرام یکسر ختم ہو جائے۔ اِس رائے کا اظہار ایک انٹرویو میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن (John Bolton) نے انہی الفاظ میں کیا تھا کہ ہمارے سامنے لیبیا کا ماڈل ہے جہاں پہ کرنل قذافی نے اپنا جوہری پروگرام ختم کر دیا تھا۔ اِس انٹرویو اور کچھ دیگر امریکی اعلانات کے جواب میں شمالی کوریا کا سخت رد عمل آیا‘ جس میں تعجب کا اظہار کیا گیا کہ امریکی حکام کس زبان میں گفتگو کر رہے ہیں اور اُنہوں نے شمالی کوریا کو کیا سمجھ رکھا ہے۔ شمالی کوریا نے اپنے بیان میں جون بولٹن کا نام لے کر تنقید کی تھی۔ شمالی کوریا کے اِس رد عمل کے باعث صدر ٹرمپ نے میٹنگ ختم ہونے کا اعلان کیا‘ لیکن پھر دونوں اطراف سمجھداری سے کام لیا گیا اور میٹنگ کے امکان بحال ہو گئے ۔
ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہوا؟ شمالی کوریا کا اعتماد اُس کی اندرونی طاقت کا مرہونِ منت ہے۔ معیشت اتنی مضبوط نہیں ، بین الاقوامی معاشی پابندیاں اُس پہ عائد ہیں۔ زر مبادلہ اس کے پاس نہیں۔ برآمدات اُس کی بند اور درآمدات پہ پابندیاں ہیں لیکن پھر بھی اندرونی طور پہ مضبوط ملک ہے کیونکہ اس کی قیادت مضبوط ہے ۔ تمام تر کمزوریوں کے باوجود کسی سے ڈکٹیشن لینا یا کسی کے سامنے جھکنا اُن کے تصور میں نہیں۔ ہمارے لیڈر تھوڑی سی امریکی تھپکی پہ خوش ہو جاتے ہیں ۔ نواز شریف واشنگٹن جاتے ہیں اور بارک اوبامہ کے سامنے چند جملے بغیر کاغذوں کے دَستوں کی مدد سے ادا نہیں کر سکتے ۔ ظفر اللہ جمالی عجیب حلیہ بنا کے واشنگٹن جاتے ہیں اور صدر جارج بُش کے سامنے کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کی طرف گامزن ہیں اور اِس میں آپ کی بھی مدد درکار ہے۔ یہ جملے سُن کے وہاں کھڑے امریکی بھی شرما جاتے ہیں ۔ ضیا الحق واشنگٹن کشکول کے ساتھ جاتے ہیں۔ جنرل مشرف جاتے ہیں تو بلا سوچے سمجھے ہر امریکی ڈیمانڈ مان لیتے ہیں ۔ ہمارے لیڈروں کو شمالی کوریا اور امریکہ کے حالیہ تعلقات کا بغور جائزہ لینا چاہیے اور یہ جانچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ امریکہ کے سامنے جھکنے کی بجائے شمالی کوریا نے اپنی خود داری کا کیسے پاس رکھا ۔
شمالی کوریا کے پاس چھ سات یا زیادہ سے زیادہ دس جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے‘ اس سے زیادہ کا نہیں۔ لیکن اس چھوٹے سے ذخیرے کو کس کمال ہوشیاری اور دلیری سے استعمال کیا ۔ پہلے جوہر ی ٹیسٹ کر کے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ پھر نرمی اور لچک دِکھا کے امریکہ سے مذاکرات کی راہ ہموار کرائی۔ بعد میں جو کچھ بھی ہونا ہے‘ شمالی کوریا نے حقیقی معنوں میں اپنے پَلے سے کچھ بھی نہیں دیا‘ سوائے اِس مبہم سے بیان کے کہ وہ کورین سرزمین کو جوہری ہتھیاروں سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ اِس کے بدلے میں چیئرمین کِم نے ابھی سے حاصل بہت کچھ کر لیا ہے۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سٹیج پہ اُن کی حیثیت ایک اچھوت کی سی تھی ۔ لیکن سنگاپور میں امریکی صدر کو برابری کی سطح پہ ملے ۔ اچھوت کیا، دنیا تو اَب اُنہیں ایک سیاسی راک سٹار کی مانند دیکھ رہی ہے ۔ ہم ہیں کہ امریکہ کی ڈیوٹیاں بھی کرتے ہیں ، محتاجیاں کرنے میں بھی اپنا لوہا منواتے ہیں، لیکن جب امریکہ کے مفاد بدلتے ہیں، اُن کی مجبوریاں ختم ہوتی ہیں تو پاکستان کو تقریباً دُھتکارا جاتا ہے ۔ لیکن چونکہ ہماری اشرافیہ کے مفاد اور تقاضے ایسے ہیں‘ اس لئے امریکہ کا ہر رویہ ہم برداشت کرتے ہیں ۔ ڈیوٹیاں بھی دیتے ہیں اور جوتیاں بھی کھاتے ہیں۔
سی آئی اے کا ریمنڈ ڈیوس جیسا نچلی سطح کا ملازم ہو اور وہ دو تین پاکستانیوں کی موت کا باعث بنے‘ لیکن دیت پھر بھی امریکی ادا نہیں کرتے ہماری خفیہ ایجنسی یہ نیک کام کرتی ہے ۔ ہماری معیشت شمالی کوریا سے کہیں زیادہ بڑی ہے ۔ اُن کے چھ سات کے جوہری ذخیرے کے مقابلے میں ہمارے پاس کہیں زیادہ ایٹمی قوت ہے ۔ پھر بھی ہمارے فیصلہ ساز ڈرے ڈرے رہتے ہیں اور تاثر پیش کرتے ہیں کہ ہندوستان پتہ نہیں ہمیں برباد کرنے پہ تُلا ہوا ہے ۔ شمالی کوریا امریکہ سے نہیں ڈرتا، ہم ہیں کہ اپنے وجود کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔
سب سے بڑا مذاق ہے جو ہم نے علامہ اقبال کو اپنا قومی شاعر بنایا ہوا ہے ۔ اُن کی شاعری کیا کہتی ہے اور ہمارا کانپتا ہوا وجود کیا پیغام دیتا ہے ؟ یہ نہیں کہ ہم دنیا سے برسر پیکار ہو جائیں لیکن تھوڑا سا اپنے میں حوصلہ پیدا کریں اور ہمارے فیصلہ ساز ہندوستان سے اتنا ڈرے ڈرے نہ رہیں ۔
ایک فرق واضح ہونا چاہیے ۔ کِم جونگ اُن اپنے ملک کے مطلق العنان لیڈر ہیں ۔ ہر شعبہ ہائے زندگی پہ کورین ورکرز پارٹی جو کہ حکمران جماعت ہے کا مکمل کنٹرول ہے ۔ اختلاف رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کوریا کے رہنما غربت میں نہیں رہتے ۔ دنیا کی تمام آسائشیں اُنہیں میسر ہیں۔ لیکن چیئرمین کِم جونگ اُن کے کوئی اکاؤنٹ سوئس بینکوں میں نہیں ۔ اُن کی کوئی جائیداد یا فلیٹ لندن میں نہیں ۔ وہ کسی آف شور کمپنی کے مالک نہیں ۔ جوکچھ ہے اپنے ملک میں ہے ۔ پاکستان کو ذہنی آزادی تب حاصل ہو گی جب ہمارے حکمران یہ بات سمجھ سکیں ۔ افسر شاہی سے لے کر عسکری اداروں تک ، تاجرطبقے سے لے کر سیاستدانوں تک جس کسی کا بس چلتا ہے دبئی یا کہیں اور پیسہ رکھنا چاہتا ہے۔ وہیں کی جائیداد کی تمنا رہتی ہے ۔ بچوں کو بھی باہر پڑھانا ہے اور ہو سکے تو اُنہیں وہیں سیٹل کرنا ہے۔ ایسے میں دَبنگ اور پراعتماد قیادت کہاں سے آئے؟