امریکہ کا متبادل چین؟…نذیر ناجی
دنیا پر حکمرانی یعنی سپر پاور بننے کی دوڑ‘نجانے کیا رخ اختیار کرتی ہے؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ چین نے اس دوڑ میں شامل ہونے کا فیصلہ 1990 کی دہائی میںہی کر لیا تھا۔سٹیو اے کک ‘کا یہ مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
”قریباً دو دہائیاں پہلے کا ذکر ہے‘ میں چین کے نئے سال کی خوشیاں منانے کیلئے قاہرہ کے پڑوس میں زمالک کے علاقے میں ایک ریستوران میں گیا‘ جس کا نام پیکنگ تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ یہ ایک غیر منظم ڈنر تھا۔ وہاں موجود ہجوم سے کہا جا رہا تھا کہ وہ خاموشی اختیار کرے ‘کیونکہ کوئی خاص مہمان آنے والاہے۔ وہ مہمان مصر میں تعینات چین کے سفیر تھے۔ ان کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی بھی تھی۔ وہ ان کی مترجم تھی اور چینی زبان کو بغیر کسی خرابی کے کلاسیکی عربی میں ترجمہ کر دیتی تھی۔ ڈنر میں شریک میرے ساتھی‘ جن میں امریکی طالب علم‘ مصری اور مصری امریکن شامل تھے‘ سفیر کے ساتھ آئی ہوئی لڑکی کی ترجمہ کرنے کی صلاحیتیں دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ اس کے بعد ہم نے خرگوش کا سال منانے کی تقریبات کا سلسلہ پھر شروع کر دیا۔یاد رہے کہ چین میں 2015ء کو خرگوش کے سال کے طور پر منایا گیا ۔اب واپس اس مترجم لڑکی کی طرف آتے ہیں۔ اس لڑکی کی عربی زبان پر مہارت ظاہر کرتی ہے کہ چین علاقائی سطح پر اپنا کردار اور اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے کیسی طویل المیعادسرمایہ کاری میں مصروف ہے؟ چینی رہنمائوں نے جلد ہی اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ کسی مرحلہ پر انہیں اس خطے میں بڑی اور بھرپور آواز کی ضرورت ہو گی۔ 1990کی دہائی کے اواخر میں یہ آئیڈیا قرین قیاس محسوس ہوتا تھا‘ جب چین نے اس سلسلے میں بات چیت شروع کی ہو گی تو مصری حکام نے یہ قرار دیا ہو گاکہ ”چین ‘امریکہ کا متبادل نہیں ہو سکتا‘‘۔
کیا اب وہ مرحلہ آ گیا ہے؟ 10جولائی کو چین کے صدر‘ شی چن پنگ نے چائنا عرب کوآپریشن فورم کے آٹھویں وزارتی اجلاس کا افتتاح کیا تھا اور اس موقع پر ایک طویل ‘ لیکن پُر جوش تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ بیجنگ اور عرب دنیا کیسے ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک اور تعاون میں اضافہ کر سکتے ہیں؟اس کے چند ہفتے بعد وہ‘ متحدہ عرب امارات کے دورے پر گئے۔ یہ چینی حکام کی جانب سے متحدہ عرب امارات کا پچھلی تین دہائیوں میں پہلا دورہ تھا ۔ اس دورے میں چین نے عرب ممالک کے ساتھ کئی معاہدے کئے‘ جن میں سے زیادہ ترمعاشی معاہدے تھے۔ یہ کانفرنس اور چینی صدر کا امارات کا دورہ‘ ایک ایسے وقت پر ہوئے جب پورے شرق ا وسط اور اس سے بھی آگے کی دنیا میں چینی صدر کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں گہری دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ ایک ایسا منصوبہ ہے‘ جس کے تحت چین خود کو گلابل گورننس کے مرکز میں رکھنا چاہتا ہے ‘تاکہ اشیا‘ سروسز اور ان آئیڈیاز کا بہائو تبدیل کیا جا سکے‘ جنہوں نے مغرب کو پچھلی کچھ دہائیوںسے‘ سب سے برتر بنا رکھا ہے۔ اگر آپ معاشی حوالے سے عقیدۂ جبر کے قائل ہیں تو پھر یہ یقین کر لیں کہ چینی‘شرق ا وسط میں اہم کردار کے لئے تیار ہو چکے ہیں‘ لیکن تجزیہ کا دائرہ وسیع کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین کا یہ عظیم منصوبہ‘ خوبصور ت عربی سٹیج سے بہت زیادہ آگے نہیں بڑھ سکا ۔ لیکن یہ واضح ہے کہ چین کا معاشی استحکام حقیقی ہے اور یہ شرق اوسط میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جولائی میں تین سو حاضرین … جن میں کم از کم ایک عرب ریاست کا سربراہ اورشرق ا وسط کے متعدد وزرائے خارجہ بھی شامل ہیں‘ چینی صدر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ اس خطے کو 20بلین ڈالر کے قرضے فراہم کریں گے۔ شام‘ یمن‘ اردن اور لبنان میں تعمیر نو‘ بے گھر لوگوں کو سہولیات کی فراہمی کیلئے اضافی 90ملین ڈالر بطورِ امداد دیں گے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ عرب دنیا میں ”سماجی استحکام‘‘ لانے کیلئے وہ مزید کئی بلین ڈالر بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ مصر‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ‘ چین کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو گی‘ جہاں کی جانے والی چینی برآمدات ایک بار پھر شرق ا وسط ‘ افریقا اور یورپ کو برآمد کر دی جاتی ہیں۔ چین‘ غیر عرب ترکی اور سعودی عرب کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے سینٹرل پیسز بنانے کا بھی خواہش مند ہے‘ جو بالترتیب بحیرہ روم اور خلیج فارس کے علاقوں میں رسائی فراہم کریں گے۔
چینیوں کو جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ میں اس منصوبے کے حوالے سے کچھ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ جہاں اسے نئی طرز کا کالونیلزم قرار دیا جا رہا ہے‘ عرب دنیا میں ایسا نہیں ۔ عرب حکام ایسا نہیں سوچتے۔ 2000ء کے آغاز میں حتیٰ کہ وسط تک بھی‘ مصری ڈپلومیٹ جب چین کی بات کرتے تو ان کی آنکھیں نم ناک ہو جاتیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے مصر کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا تھا‘ مصر کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے گرو‘ جسے حل کرنے سے عاجز آ چکے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ پارٹی کی طاقت کو برقرار رکھتے ہوئے اور سماجی ہم آہنگی کو توڑے بغیرطویل المیعاد ‘معاشی ترقی کیسے کی جا سکتی ہے؟ ابھی حال ہی میں خلیج کے ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر افسر نے یہ بات نوٹ کی کہ واشنگٹن کی سیاسی قطبیت نے‘ اسے عرب دنیا کی اقتصادی ترقی کے امکانات کی تلاش کے حوالے سے ایک ناقابل اعتبار اور پُر خطر (رسکی) پارٹنر بنا دیا ہے۔چینی بے پناہ وسائل فراہم کر سکتے ہیںتاکہ شرق ا وسط میں کامیابی کے امکانات کو روشن تر کیا جا سکے۔ نئی بندرگاہیں‘ ایئرپورٹس‘ لاجسٹک حَب اور اکنامک زونز ‘ جن کی اس وقت منصوبہ بندی کی جا رہی ہے یا جو اس وقت زیر تعمیر ہیں‘ ان ممالک کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
یہ قیاس کرنا ابھی باقی ہے کہ اس ساری سرمایہ کاری کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ کچھ تجزئیے اور رپورٹیں کہتی ہیں کہ اس طرح بیجنگ‘ شرق ا وسط کا ایک بڑا اور اہم جیو سٹریٹیجک کھلاڑی بن جائے گا اور جو کچھ چینیوں نے سوچ رکھا ہے‘ شاید اس سے بھی آگے نکل جائے کیونکہ اس سے پہلے اس طرح کی مثالیں موجود ہیں کہ غیر ملکی طاقتیں‘ قرضے دے کر وارد ہوئیں اور پھر قابض ہو گئیں۔ برطانیہ نے اسی طرح مصر کو قابو میں کیا تھا۔ لیکن چینی اس علاقے کے مسائل حل کرنے یا اس علاقے کے ممالک کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے‘ ان کے ساتھ تجارت کو اہمیت دے گا۔ چینی صدر‘ شی چن پنگ کی جولائی میں کی گئی تقریر اور چین کا 2016ء میں شرق ا وسط کے بارے میں دیا گیا پالیسی بیان‘ بہت کچھ واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ ان میں معاشی اور اقتصادی معاملات کے بارے میں تو بات کی گئی تھی‘ لیکن سیاست‘ ڈپلومیسی اور سکیورٹی کا کوئی ذکر نہ تھا۔ چینیوں نے فلسطین اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل کی تائید کی ہے۔ایران پر اسرائیلی پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ناپسند کیا ہے‘ تاہم بعض حلقوں کی جانب سے یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ چین کی شرق ا وسط کے تیل کے وسائل پر انحصار کو پیش نظر رکھا جائے‘ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین اس خطے کی سکیورٹی اور سیاست میں ملوث ہو سکتا ہے۔
ممکن ہے مستقبل میں ایساکچھ ہو‘ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ایسی صورت میں چین کے پاس شرق ا وسط میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کیلئے فوجی وسائل ہوں گے یا نہیں؟‘‘۔