منتخب کردہ کالم

امریکہ کا نیا حاکم کون…. نازیہ مصطفیٰ

براعظم شمالی امریکہ کے دوسرے اور دنیا کے تیسرے بڑے ملک ریاستہائے متحدہ کے تیس کروڑ باشندے 8 نومبر کو 96 لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلے امریکہ کے اگلے آئینی سربراہ کا ہی انتخاب نہیں کریں گے، بلکہ ایک طرح سے اگلے چار برس کیلئے دنیا کے بے تاج بادشاہ کا چناؤ بھی عمل میں لائیں گے۔ امریکی صدر کو دنیا کا بے تاج بادشاہ کہنا ایسا کچھ بے جا بھی نہیں؛اگرچہ امریکہ عالمی معیشت، ثقافت اور سیاست کے محاذ پر اپنا اثر و رسوخ تو انیسویں صدی سے ہی بڑھا رہا تھا لیکن بیسویں صدی بجا طور پر امریکہ کی صدی قرار پائی۔ روس کے زوال کے بعد جب سرد جنگ ختم ہوئی تو امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر سامنے آیا اور ابھی تک اس کی اس حیثیت کو کسی جانب سے کوئی بڑا خطرہ بھی محسوس نہیں ہورہا۔یہی وجہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب پر پوری دنیا کی نظریں ہوتی ہیں اور پوری دنیا اِس انتخاب کا جائزہ لینے کیلئے اپنے نمائندے اور مبصرین امریکہ بھیجتی ہے۔ امریکہ کا صدارتی انتخاب اس لحاظ سے بھی منفرد ہوتا ہے کہ یہ انتخاب ایک دن کی ووٹنگ کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل کے مطابق الیکشن کا سال شروع ہوتے ہی ملک بھر کی پچاس ریاستوں میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ پہلا مرحلہ پرائمری الیکشن کہلاتا ہے ،جس میں باری باری تمام امریکی ریاستوں میں امریکی شہریوں کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کا صدارتی امیدوار منتخب کریں۔
امریکی قانون کے مطابق ہر ووٹر اپنی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اندراج کراتا ہے لہٰذا پرائمری انتخاب کے مرحلے پر وہ صرف اپنی اعلان کردہ پارٹی کے بہت سے صدارتی امیدواروں میں سے کسی ایک کو ووٹ دیتا ہے۔ کوئی بھی امریکی شہری اس مرحلے پر دوسری پارٹی کے اُمیدوار کو ووٹ نہیں دے سکتا۔ پرائمری انتخاب کا مرحلہ مکمل ہونے پر دونوں پارٹیوں کے منتخب کردہ نمائندے سامنے آجاتے ہیں اور جولائی میں ہونے والے صدارتی الیکشن کے کنونشن میں باضابطہ طور پر ان کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں پارٹیوں کے صدارتی امیدوار اپنے نائب صدور کا اعلان کرتے ہیں جس کے بعد صدارتی الیکشن کی مہم شروع ہوجاتی ہے۔ اس بار بھی بالکل اسی طرح یہی ہوا اور پرائمری مرحلے میں ریپبلکنز نے مشہور بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا امیدوار چنا جبکہ ڈیموکریٹس نے سابق خاتون اول اور وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر آگے بڑھایا ہے۔ اِن دونوں میں سے امریکہ کا نیا صدر کون ہوگا؟ اس کا فیصلہ8 نومبر کو ہوجائے گا، تاہم نئے یا نئی منتخب صدر کا حلف اگلے برس جنوری میں ہوگا۔
امریکہ کے اِس صدارتی انتخاب کو امریکی تاریخ کا سب سے مختلف اوردلچسپ انتخاب بھی قرار دیا جارہا ہے، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس انتخاب کی صدارتی مہم کے دوران بہت کچھ ایسا ہوا جوپہلے کبھی نہیں ہواتھا۔ دونوں بڑے امیدواروں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار میں جواب آں غزل کے طور پر جوابی الزامات بھی لگائے گئے، انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی کا شور بھی مچایا گیا، انتخابی دفاتر پر حملے بھی ہوئے اور مخالف کے جلسوں اور ریلیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، ایک دوسرے پر تبرہ بازی اور دل کھول کرلعن طعن بھی کی گئی،نارتھ کیرولینا میں ری پبلکن پارٹی کے ہیڈکوارٹرزپرفائربم حملہ ہوا جس سے عمارت کوجزوی نقصان پہنچا۔ امریکی انتخابی مہم میں سیاسی پارٹی کے دفتر پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملے کا غالبا یہ پہلا واقعہ تھا، اسی لئے تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر اس واقعہ کی مذمت کی۔حد تو یہ ہے کہ ہیلری اور ٹرمپ کی جانب سے ایک دوسرے کو فاترالعقل، غدار اور سیکیورٹی رسک تک قرار دے دیا گیا۔امریکی انتخابات میں در آنے والے اِن نئے عناصر کا ”کریڈٹ‘‘ اگر ری پبلکنز کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو دیا جائے تو کچھ غلط بھی نہ ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑھکوں اور اسکینڈلز نے بے رنگ امریکی انتخابات میں رنگ تو ضرور بھرے لیکن کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ٹرمپ کوئی نیا شوشہ نہ چھوڑتے ہوں، یہی وجہ ہے مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اِن انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوست کم اور دشمن زیادہ بنائے ہوں گے۔
امریکہ کا صدارتی انتخاب دنیا بھر کی طرح پاکستان پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، اگرچہ سات دہائیوں میں پاکستانی حکمرانوں کو ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں کے صدور کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، پاکستانی قیادت ہلیری کلنٹن کو اچھی طرح جانتی ہے، ہلیری ناصرف اپنے شوہر بل کلنٹن کے دو صدارتی ادوار میں پاکستان آتی جاتی رہی ہیں، بلکہ وزیر خارجہ کے طور پر بھی پاکستانی قیادت کے ساتھ بہت سے امور پر ہم آہنگ سوچ رکھتی رہی ہیں، دوسری جانب اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگرچہ پاکستانی قیادت ری پبلکنز صدور کے ساتھ بھی کام کرچکی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ری پبلکنز شروع ہی سے پاکستان میں آمریت کے حامی رہے ہیں،امریکی ایوان نمائندگان میں موجود ری پبلکنز کے نمائندے آج بھی پاکستان کے حوالے سے سخت تحفظات رکھتے ہیں اور ان کے اکثر سینیٹرز پاکستان پر معاشی پابندیوں اور دہشت گردی کی جنگ میں ڈو مور کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔اس طرح کے خیالات کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران واضح طور پر کرچکے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے مقابلے میں واضح طور پر بھارت اور ہندووں کو اپنا فطری دوست قرار دیتے ہوئے پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی بھی بجادی ہے۔اُدھر ڈیموکریٹس اکثر و بیشتر پاکستان کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، کیری لوگر بل کی مد میں پاکستان کو ملنے والی خطیر رقم اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈیموکریٹس ناصرف پاکستان کے کردار کو اہم اور موثر تصور کرتے ہیں بلکہ روایتی طور پر ڈیموکریٹس پاکستان میں جمہوریت کے حامی ہیں اور ڈکٹیٹرز کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔
قارئین کرام!! ڈیموکریٹس کے حامی کہہ رہے ہیں کہ ریپبلکنز نے جب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدارتی امیدوار بنایا ہے، تب سے ناصرف جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی شہری آزادیاں، امریکہ اور دنیا خطرے میں ہے بلکہ امریکہ اور دنیا کی قسمت بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے اور دنیا کی قسمت لڑکھڑا رہی ہے، لیکن ای میلز کے معاملے پر اسی طرح کی باتیں ری پبلکنز کے حامی ہلیری کلنٹن کے بارے میں بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ منگل کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے حوالے سے اب دنیا کے سامنے سوال یہی ہے کہ امریکا کی سابق وزیرخارجہ اورسابق خاتون اول کے طورپر ہلیری کلنٹن صدربن کر امریکی تاریخ کا نیا باب رقم کریں گی؟ یا امریکی عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے ڈونلڈ ٹرمپ کووائٹ ہاؤس کا مکین بنائیں گے؟ 8نومبرکو اس بات کا فیصلہ ہوجائے گا کہ دنیا کا نیا حاکم کون ہوگا؟