منتخب کردہ کالم

امریکیوں کے ساتھ ہمارا مکالمہ … رئوف طاہر

امریکیوں کے ساتھ ہمارا مکالمہ … رئوف طاہر

پاک‘ امریکہ تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کی تاریخ کا دلچسپ اور اہم ترین باب رہے ہیں۔ خود امریکی ماہرین ان تعلقات کو پیچیدہ لیکن ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ صدر اوباما کے پہلے دور میں ان کی وزیر خارج ہیلری کلنٹن پاکستان تشریف لائیں۔ لاہور میں دانشوروں سے بے تکلف مکالمے کے دوران ان تعلقات کو ”ساس بہو کے تعلقات‘‘ قرار دیا گیا۔ کھردری سوچ اور غیر محتاط لب و لہجے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن گزشتہ ہفتے تین چار گھنٹوں کے لیے اسلام آباد رُکے۔ اس میں اہم ترین بات یہ تھی کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ایک ہی چھت تلے موجود تھی۔ سننے میں آیا کہ یہ اہتمام خود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی خواہش پر ہوا‘ ورنہ ایک عرصے سے تو یہ معمول سا بن گیا ہے کہ غیر ملکی مہمان عسکری قیادت سے الگ ملاقات کرتے ہیں۔
پاک‘ امریکہ تعلقات کی بات ہوتی ہے تو ہمیں کوئی چوبیس سال قبل امریکی فارن آفس میں امریکی سفارت کار کے ساتھ اپنا ”مکالمہ‘‘ یاد آتا ہے۔ یہ 1994ء میں فروری؍مارچ کے دن تھے۔ یہ امریکہ میں صدر کلنٹن کا پہلا اور پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور تھا۔ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی ایک‘ ایک حکومت کا تجربہ امریکی کر چکے تھے۔ لاہور کے دو اخبار نویسوں پر مشتمل وفد امریکیوں کی دعوت پر ایک ماہ کے سٹڈی ٹور پر تھا۔ ایک ہم تھے اور دوسرے مظفر محمد علی (مرحوم)۔ اٹلانٹک کے ساحل سے پیسفک کے ساحل تک یہ سفر ایک کتاب کا موضوع ہے۔ شامی صاحب کے دفتر سے ہمیں ”زندگی‘‘ کی فائل مل گئی۔ اس دورے کی پہلی قسط میں فارن آفس میں پاکستان ڈیسک کے انچارج مسٹر فرانسسکو گنزا لیز سے ملاقات کی روداد بھی تھی۔
گفتگو کے آغاز ہی میں ہم نے معذرت کر لی کہ ہماری گزارشات ڈپلومیسی کے نازک اور حساس معیار پر شاید پوری نہ اتریں۔ ہم ڈپلومیٹ نہیں‘ جرنلسٹ ہیں جن کا کام اپنے مشاہدات اور تاثرات کو غیر ضروری جھجک کے بغیر بیان کر دینا ہے۔ ہمارے امریکی میزبان کا جواب تھا‘ ان دوروں کا مقصد ہی غیر ضروری تکلفات سے بالاتر ہو کر مختلف ایشوز پر افہام و تفہیم ہے۔ ہم نے عرض کی : ”پاکستان میں عام آدمی کی سوچ یہ ہے کہ امریکہ اس وقت تک ہمارا دوست ہوتا ہے جب تک اس کے اپنے مفادات کا تقاضا ہو‘ اپنا کام نکال کر آنکھیں پھیر لینے میں امریکیوں کو کوئی عار نہیں ہوتی۔ متعدد مثالوں میں سے ایک مثال…سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کے دوران امریکیوں نے ہمارے ایٹمی پروگرام سے نظریں ہٹا لیں‘ سوویت فوجیں افغانستان سے نکلیں تو امریکیوں کو کہوٹہ نظر آنے لگا اور انہوں نے ان ایف 16 طیاروں کی فراہمی تک روک لی جن کی قیمت بھی ہم ادا کر چکے تھے‘‘۔
”ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ ملکوں کے باہمی تعلقات کا انحصار مشترکہ مفادات پر ہوتا ہے‘ یہ مفادات جتنے زیادہ ہوں گے‘ تعلقات بھی اتنے ہی مستحکم ہوں گے‘‘۔
”جی بالکل! ہم خارجہ تعلقات کا یہ بنیادی اصول خوب سمجھتے ہیں لیکن اگر یہ ”خود غرضی‘‘ انتہا کو پہنچ جائے تو عالمی برادری ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہی چھوڑ دے…اور پھر سیدھے سادے پاکستانی عوام کے لیے امریکہ کا دوہرا معیار بھی ناقابل فہم ہے۔ ہم اور آپ نے افغانستان کی آزادی کی جنگ میں افغانوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ تب ہم ایک حریت پسند قوم تھے۔ آزادی سے محبت کرنے والی قوم…آج آزادی کی ایک جنگ مقبوضہ کشمیر میں لڑی جا رہی ہے‘ اور ہم کشمیریوں کی صرف اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی حمایت کر رہے ہیں‘ اس کے باوجود ہمیں ”دہشت گرد‘‘ قرار دینے کی دھمکیاں دی گئیں‘‘۔
”لیکن آپ اس حقیقت کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں کہ امریکہ نے کشمیر میں بنیادی حقوق کی پامالی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے‘‘؟
”جناب! معاف کیجئے‘ کیا یہ محض بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے؟ کیا یہ ایک قوم کے حقِ خودارادیت کا معاملہ نہیں؟ کشمیری اس کے سوا اور کیا چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر عمل کیا جائے جن پر خود امریکہ کے دستخط بھی موجود ہیں۔ آج دنیا کی واحد سپرپاور کی حیثیت سے امریکہ کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے‘‘۔
”ہمیں اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ پرامن طریقے سے‘ باہم گفت و شنید کے ذریعے حل ہو جائے‘‘۔
”پاکستان نے اس مسئلے کے پُرامن حل سے کبھی انکار نہیں کیا۔ آپ کو یاد ہو گا‘ ایوب خان اور جواہر لعل نہرو کے دور میں پاک‘ بھارت وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات (بھٹو‘ سورن سنگھ مذاکرات) کے کئی دور ہوئے‘ لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد معاہدۂ تاشقند ہوا‘ پھر 1972ء کے معاہدہ شملہ کے ذریعے بھی مسئلے کا حل نہ نکلا۔ دنیا بھر میں آزادی کی ہوا چلی تو کشمیریوں نے بھی خود یہ مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور آج اپنی آزادی کے لیے برسر پیکار کشمیریوں پر 6 لاکھ بھارتی فوج کون سا ظلم ہے جو نہیں ڈھا رہی؟ حکومتِ پاکستان نے تو اپنی نیک نیتی کے اظہار کے لیے جنرل اسمبلی سے وہ قرارداد خود واپس لے لی جسے 66 ملکوں کی تائید حاصل تھی، لیکن ابھی گزشتہ ماہ (جنوری) کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلا؟‘‘
”ہم سمجھتے ہیں کہ خطے میں استحکام کے لیے پاک بھارت تعلقات کا خوشگوار ہونا بہت ضروری ہے‘‘۔
”ہم شکر گزار ہیں کہ آپ ہمارے خطے میں استحکام چاہتے ہیں لیکن بنیادی تنازعات حل کئے بغیر پاک بھارت تعلقات خوشگوار کیسے ہوں گے؟ اور آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ مسئلہ محض پاک بھارت تعلقات میںکشیدگی کا نہیں‘ بھارت سے تو تمام پڑوسی ممالک کو شکایت ہے۔ سارک کے اکثر رکن ممالک بھارتی طرز عمل سے تنگ ہیں۔ خطے میں استحکام کے لیے ضروری ہے کہ بھارت بالادستی کے خواب دیکھنا چھوڑ دے اور دوسرے ملکوں کی داخلی و خارجی خودمختاری کا احترام کرے‘‘۔
”اصل میں بڑے ملکوں سے چھوٹے ملکوں کو شکایات تو ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں کچھ درست ہوتی ہیں اور کچھ غلط فہمیوں کا نتیجہ خود امریکہ سے بعض ملکوں کو شکایات ہیں‘‘۔
”آپ کے خیال میں پاک امریکہ تعلقات میں ”کشیدگی‘‘ کے اسباب کیا ہیں؟‘‘
”کشیدگی کا لفظ درست نہیں۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات میں کچھ Problems ہیں جنہیں حل ہونا چاہیے‘‘۔
”وہ پرابلمز کیا ہیں؟‘‘
”مثلاً نیوکلیئر مسئلہ ہے۔ نارکوٹکس کا مسئلہ ہے۔ کچھ حلقوں کو شکایت ہے کہ پاکستان بعض جگہوں پر دہشت گردی کو پروموٹ کر رہا ہے۔‘‘
”جہاں تک نیوکلیئر کا تعلق ہے‘ ہمارا مؤقف ہے کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ بھارت ہم سے پانچ گنا طاقتور ہے اور 1974ء میں ایٹمی دھماکے کر چکا ہے۔ وہ دور مار میزائل بھی تیار کر رہا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ بھی آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان میں بعض حلقے ایٹم بم بنانے پر اس لیے زور دیتے ہیں کہ یہ ہماری سلامتی کے لیے ضروری ہے ‘اور یہ بھارت کے لیے ایک ڈیٹرنٹ کا کام دے سکتا ہے۔‘‘
”پاکستان میں حالیہ انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت آ گئی ہے۔ آپ کے خیال میں امریکی شکایات کو رفع کرنے میں اس حکومت کا رویہ زیادہ معقول ہو گا؟‘‘
…”لیکن ہمیں اس سلسلے میں بے نظیر حکومت کی کمزوریوں اور مجبوریوں کا بھی احساس ہے۔ یہ ایک مخلوط حکومت ہے۔ جبکہ نوازشریف حکومت ایک مضبوط حکومت تھی جسے دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ تاہم بے نظیر کو ایک ایڈوانٹیج حاصل ہے جو نوازشریف کو نہیں تھا۔ بے نظیر یہاں کی پڑھی لکھی ہیں۔ انہوں نے بہت سا وقت یہاں گزارا ہے۔ وہاں ہمیں اور ہم انہیں زیادہ بہتر سمجھتے ہیں جبکہ نوازشریف کا معاملہ یہ نہیں تھا‘‘…