منتخب کردہ کالم

امریکی انتخابات اورعالم اسلام کامستقبل .. کالم حافظ سعید

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے انتخابات کے نتائج نے دنیابھرکے مبصروں او رتجزیہ نگاروں کوحیران وششدر کردیا ہے۔ الیکشن کے متعلق بڑے بڑے تھنک ٹینکس کے تجزیے، تبصرے، سروے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون امیدوار کی شکست اورری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو رواں صدی کا سب سے بڑا اپ سیٹ قراردیا جارہا ہے۔لیکن انتخابات کے بعد32کروڑ 50لاکھ آبادی کے حامل اور96لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے دنیا کے تیسرے بڑے ملک امریکہ کو جس صورت حال کاسامنا ہے وہ ہرگز غیرمتوقع نہیں، اس لئے کہ امریکہ کی بنیاد جس استحصالی،غیر منصفانہ اور سودی نظام پر رکھی گئی ہے، اس کے نتیجے میںآخر یہ سب کچھ ہونا ہی تھا۔امریکہ ایک عرصہ تک دنیا کونفرت،نسلی تعصب ،سازشوں، خون ریزی کی آگ میں جھونک اور سودی قرضوں کے جال میں جکڑ رہا تھا،آج خود اس کاسامنا کررہاہے۔امریکہ کے موجودہ بحران پربات کرنے سے پہلے مختصراً یہ سمجھنا ضروری ہے کہ استحصالی نظام پر قائم یہ ملک عالمی سطح پر کب، کیسے معروف ہوا اور اب جس تیزی سے یہ اپنے انجام وزوال کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کے اسباب کیا ہیں؟
برطانیہ نے سولہویں صدی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ پر قبضہ کیا جو ڈیڑھ سوسال رہا۔ برطانوی حکمرانوں نے جس طرح برصغیر میںعیسائیت کو سرکاری سطح پر مسلط کیا اور مشنریوں کے ذریعے متعارف کروایا بعینہ امریکہ میں بھی عیسائیت کی تبلیغ کی گئی یہاں تک کہ عیسائیت امریکہ کا سب سے بڑامذہب بن گیا۔بعد ازاں امریکہ میں برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی خونریز اور پرتشددتحریکیں شروع ہوئیں جوآخرکارمارچ1782ء میں امریکہ کی آزادی پر منتج ہوئیں۔اس طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام سے دنیا کے نقشے پر ایک ملک معرض وجود میںآیا۔پہلی جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے تک امریکہ علاقائی سطح تک محدود تھا۔اس جنگ کی وجہ سے امریکہ کوپہلی دفعہ عالمی سطح پرکرداراداکرنے ،معیشت کو مضبو ط اور اسلحے کی صنعت و تجارت کو
وسیع تر کرنے کا موقع ملاجبکہ دوسری جنگ عظیم نے اسے معاشی وعسکری طور پر مستحکم اور مضبوط ترین کردیا ۔وجہ یہ تھی کہ ان دو جنگو ں میں امریکہ کا جانی ومالی نقصان متحارب اتحادی اور محوری ممالک کی نسبت سب سے کم لیکن فوائد سمیٹنے میں وہ سب سے آگے رہا۔پہلی جنگ عظیم کے المناک سانحہ کو آج ایک صدی ہوچلی ہے لیکن اس جنگ میں شریک ممالک کا جو جانی ومالی نقصان ہوا،اس کی تفصیل یقیناً آج بھی قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔اس جنگ میںفرانس کے 10لاکھ،جرمنی کے ساڑھ بارہ لاکھ اور برطانیہ کے پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے۔ برطانیہ کے چار کھرب9 ارب ڈالر،فرانس کے 3کھرب36ارب ڈالر، جرمنی کے 4کھرب اور70ارب ڈالر کے خطیر اخراجات ہوئے جبکہ امریکہ کا اس جنگ میں کل خرچ ایک کھرب 98ارب ڈالرتھا اور اس کے صرف 50ہزار فوجی ہلاک ہوئے۔یہی حال دوسری جنگ عظیم کا تھا۔
جہاں تک فوائد سمیٹنے کاتعلق ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں تھی۔پہلی جنگ شروع ہونے سے پہلے امریکہ کی کل سالانہ قومی آمدن 39ہزار ملین ڈالر تھی جو جنگ کے خاتمہ پر77ہزارایک سوملین ڈالر تک جاپہنچی تھی۔جنگ شروع ہونے سے پہلے امریکہ کے پاس سونے کے ذخائرکی کل مالیت 1526ملین ڈالر تھی اور جنگ کے خاتمے پر یہ ذخائر 2873ملین ڈالر ہوچکے تھے۔دوسری جنگ شروع ہونے سے دو سال بعدامریکی سونے کے ذخائر کی مالیت 12ہزار390ملین ڈالر تھی اور تین سال بعد یہ مالیت بڑھ کر 24ہزار399ملین ڈالر تک جاپہنچی تھی۔علاوہ ازیں دنیا کے تمام سرمایہ دار ممالک کے سونے کے ذخائر کا تقریباًََ تین چوتھائی امریکی بینکوں میں پہنچ چکا تھا۔امریکہ کے کم جانی و مالی نقصان کی وجہ یہ تھی کہ یہ جنگیں امریکی ساحلوں اور سرحدوں سے دورلڑی گئی تھیں۔ دیگر تمام اتحادی اور محوری ممالک براہ راست میدان جنگ بنے ہوئے تھے، ان کی صنعتیں،مارکیٹیں اور اسلحہ تیار کرنے کے کارخانے تباہ ہوچکے تھے۔امریکی صہیونی ساہوکاروں،صنعت کاروں اوراسلحہ سازوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔انہوں نے دھڑا دھڑ اسلحہ تیار کرکے اتحادی ممالک کو بیچا، بینکوں نے بھاری سود پر قرضے دیئے اور امیر سے امیر ملک کوبھی سودی قرضوںکے جال میں جکڑ لیا۔
پہلی جنگ عظیم جنگ کی ابتدا 28جولائی 1914ء کوآسٹریا کے ولی عہد فرانسس فرڈینیڈ کے قتل سے ہوئی تھی۔ قاتل اور مقتول دونوں مذہباًََ عیسائی تھے لیکن انتہائی تکلیف دہ اور حیرت انگیزامریہ تھا کہ اس جنگ کی سزا مسلمانوں کو ملی۔ اتحادی ممالک کے سربراہ برطانیہ نے4نومبر1914ء کو خلا فت عثمانیہ کے خلاف اعلان جنگ کردیا اورتین براعظموں پر پھیلی خلافت کے حصے بخرے کرکے فلسطین پرقبضہ کر لیا ۔دوسری جنگ عظیم کے بعدجب برطانیہ زوال پذیر ہوگیا اورتمام نوآبادیاتی ممالک اس کے پنجہ وشکنجہ سے نکل گئے توبرطانیہ کی جگہ امریکہ نے لے لی۔24اکتوبر1945ء کو امریکی چھتری تلے اقوام متحدہ کاقیام عمل میں لایا گیا تب مسلمانوںکو غلام ومحکوم بنانے،مظالم ومصائب کی چکی میں پیسنے اوریہودیوں کی سرپرستی کا منصب برطانیہ کی جگہ امریکہ نے سنبھال لیا۔چنانچہ 29نومبر 1947ء کوجنرل اسمبلی کی قراردادنمبر181کے ذریعے انبیاء کی سرزمین فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کردیاگیا۔ برطانوی حکومت کے تعاون سے باہر سے آنے والے یہودی جوکل آبادی کاصرف 32فیصد تھے ان کو فلسطین کا 56فیصد زرخیز اورسر سبز وشاداب علاقہ مرحمت کردیاگیااور بقیہ ریگستانی علاقہ فلسطینی مسلمان جو یہاں کے اصل باشندے تھے ان کودے دیاگیا۔14مئی 1948ء کو یہودیوں نے ازخوداسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کردیاتو سب سے پہلے امریکہ نے اسے تسلیم کیا پھراقوام متحدہ نے اس پرمہر تصدیق ثبت کی۔ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے اوریہودیوں کی سرپرستی کا یہ پہلا امریکی معرکہ تھا جو اقوام متحدہ کی چھتری تلے لڑاگیا۔سو اس وقت سے اب تک امریکہ یہودیوںکی سرپرستی کررہا ،دنیا کوسودی قرضوں میں جکڑرہا،اسلام کومٹارہا،بیگناہ مسلمانوں کی نسل کشی کررہا اور ان کے ملکوں پرآتش وآہن برسارہاہے۔فلسطینی مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام،مشرق وسطیٰ میں بدترین تباہی، افغانستان اورعراق کی بربادی ، لیبیا ،سوڈان، پاکستان، صومالیہ، ویتنام، کمبوڈیا، انڈونیشیا، افغانستان، ترکی، بوسنیا، کیوبا اور مصر وغیرہ الغرض دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جو امریکی مہم جوئی ،سازشوں اوردہشت گردی کے جال سے بچا ہو۔خاص کر اسلامی دنیاکو بارودکا ڈھیر اورآتش فشاںبنادیاگیاہے۔امریکہ کی مسلمانوں کے خلاف آتش انتقام مزید بڑھ رہی ہے۔اب صورت حال یہ کہ وہاں الیکشن بھی اسلام دشمنی کی بنیاد پر لڑے جاتے، اسلام کو مٹا ڈالنے اورنعوذ باللہ بیت اللہ پرحملے کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز انتخابی مہم اور کامیابی سے امریکی معاشرے پر منڈھا منافقت کانقاب اتر اوراسلام دشمنی میں ڈوبا حقیقی چہرہ واضح ہو چکا ہے۔اسلام،قرآن، مسلمان،اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دشمن ایک جگہ جمع ہورہے اورصف بندی کررہے ہیں۔ٹرمپ کا یہود وہنود کی طرف جھکائو بڑھ رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کب بھارت اوراسرائیل کاطرفدارنہیں رہا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی اسلام دشمن ترجیحات میں اہل پاکستان اورمسلمانوں کے لئے کوئی بھی پریشانی والی بات نہیں۔سب کچھ وہی ہے جوایک عرصہ سے ہوتاچلاآرہاہے۔بش اوراوباما نے بھی اسلامی دنیاکوتباہی سے دوچارکیا، نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کواتحادی بناکربربادکیااوربھارت کومضبوط ومستحکم کیا ہے۔
لیکن اب ٹرمپ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے امریکہ کو اندرونی مسائل میں الجھا اورپھنسا دیا ہے۔کل تک دنیا بھرکے مظلوم اور ستم رسیدہ لوگ امریکی پرچم نذرآتش کیا کرتے تھے، آج امریکی اپناجھنڈااپنے ہاتھوں سے جلا رہے، پرتشدد مظاہرے کررہے،سودی شاخ پربنا آشیانہ ڈھا رہے،ملک سے بھاگ رہے ،دنیا کی چھٹی بڑی معیشت کی حامل امریکی ریاست کیلفورنیااوردیگر سٹیٹ سے علیحدگی کے ارادے بنارہے ہیں۔دنیا کوسودی قرضوں میں جکڑنے والے خود سوددر سود میں جکڑے جاچکے اور جنگ وجدل کے بازارگرم کرکے دنیا پرحکومت کرنے والے خودخانہ جنگی کاشکارہورہے ہیں۔زیادہ پرانی بات نہیں دنیا کے نقشے پر”یونین آف سویت سوشلسٹ ریپبلک روس‘‘نام کاایک ملک تھاجواسلام،نماز،کلمہ اورقرآن کومٹادیناچاہتا تھا،آج یہ ملک خوددنیاکے نقشے سے مٹ چکا ہے۔سووہ وقت آپہنچا کہ ہے ابUnited States of Americaمیں سے united(متحدہ)کالفظ اڑجائے گااور کمیونزم کی طرح اسلام کومٹادینے کاخواب دیکھنے والا امریکہ بھی ڈوب جائے گا۔ اس لئے کہ اللہ نظام کفرکوبرداشت کرتا ہے نظام ظلم کو نہیں۔ہرعمل کاردعمل اورہرظلم کاانجام زوال ہے۔اس زوال سے رونما ہونے والی تبدیلیوں میں اسلام اورمسلمانوں کے روشن و تابناک مستقبل کی نوید ہے۔چین سے بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات،گوادربندرگاہ کی تکمیل،ترکی صدرکے کامیاب دورے اور مسئلہ کشمیر کے بھرپور ذکرپر ہرپاکستانی خوش ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک کامیابیوں کو سمیٹنے کے لئے متحد ہوجائیںخصوصاًََ امریکہ اور حوثی باغیوں کی بلاد حرمین کے خلاف سازشوںکو ناکام بنانے کے لئے دل ویک جان ہوجائیں۔اپنے مسائل ومعاملات کے حل کے لئے اللہ کی طرف رجوع کریں ،اُسی سے ہی مددمانگیں۔وہی قوت وطاقت، عزت وذلت، زمین وآسمان کا مالک اوربہترین مددگار وکارساز ہے۔