انتخابات‘ الیکشن کمیشن اور آرمی….کنور دلشاد
ملک میں 25 جولائی کو انتخابات کی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اور ان کی شفافیت بر قرار رکھنے اور ان کا پُرامن انعقاد ممکن بنانے کے لیے وزارت دفاع نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ تینوں مسلح افواج کے جوان یہ فریضہ سرانجام دیں گے۔ فوج کے جوان پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر تعینات ہوں گے۔ پرنٹنگ پریسز کی سکیورٹی بھی 27 جون کو فوج کے حوالے کر دی گئی۔ نگران وزیر اعظم ناصرالملک نے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا سے ملاقات میں انتخابات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ملکی انتظامیہ شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے میں الیکشن کمیشن کو مکمل تعاون فراہم کرے گی۔ میرے خیال میں نگران وزیر اعظم کی یقین دہانیاں آئینی تقاضے کے زمرے میں آتی ہیں۔ پروفیسر حسن عسکری کو نجم سیٹھی کی طرح شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ نگران وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہوئے وہ اپنے جم خانہ کے ساتھیوں کو‘ جو الیکشن کی شفافیت کی مہم میں ان کے ہم خیال تھے‘ نگران کیبنٹ میں لے آئے۔ دانشور حلقوں کو پروفیسر حسن عسکری سے یہ توقع نہیں تھی۔ نجم سیٹھی تو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت سامنے آئے تھے‘ لیکن حسن عسکری کو کسی مخصوص پروگرام کی تکمیل کے لئے آگے نہیں لایا گیا۔ ان کی نامزدگی تو عمران خان کے تھنک ٹینک نے کروائی تھی۔ نگران وزیر اعلیٰ اپنے بھانجے کو وزیر خزانہ لا کر آئین کے آرٹیکل 65 سے انحراف کر چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی خاموشی معنی خیز ہے۔
انتخابات کے حوالے سے تمام متعلقہ اداروں کو خاصی مشکلات درپیش ہیں؛ تاہم ان چیلنجز کو جب ہم الیکشن کمیشن‘ عدلیہ اور فوج کے عزم کے مقابل لاتے ہیں تو ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ خاص طور پر الیکشن کمیشن اس سلسلے میں نمایاں کردار کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے عدالتی افسروں کو ریٹرننگ افسران بنایا اور بیوروکریسی تک کو تبدیل کر دیا۔ قصہ مختصر یہ کہ الیکشن کے بروقت انعقاد کے حوالے سے کوئی فروگزاشت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ انتخابات کے التوا کی سابقہ حکمران جماعت نے کوششیں کیں اور قومی احتساب بیورو اور عدالتوں میں مقدمات کے التوا کے لیے عذر تراشیاں بھی کیں۔ اسی طرح ریٹرننگ افسران کے فیصلوں سے بھی عوام میں مایوسیاں پھیلیں۔ اربوں روپے کی جائیدادوں کے گوشوارے ان کے سامنے ہیں اور انہوں نے امیدواروں سے ذرائع وسائل کے بارے میں دریافت کرنا گوارا ہی نہیں کیا۔ اسی طرح بیوروکریسی میں تبدیلیاں کرکے ملکی ایڈمنسٹریشن کا ڈھانچہ زمین بوس کر دیا گیا۔ بیوروکریسی چونکہ شہباز شریف کی بیوروکریسی کا روپ دھار چکی تھی‘ اس لیے ان کا تبادلہ کرنا ضروری تھا‘ لیکن جو بیوروکریٹس ادھر سے ادھر کئے گئے وہ سب سابقہ حکمران جماعت ہی کا تسلسل ہیں۔ اسی طرح سندھ‘ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بعض با اثر جماعتیں اپنی پسند کے بیوروکریٹس تعینات کرانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ نگران وزیر اعظم اور چیف الیکشن کمشنر کو بیوروکریسی کے وسیع تبادلے کروانے سے بیشتر حساس اداروں سے مشاورت کرنا چاہیے تھی۔ لوکل گورنمنٹ کے ادارے ابھی تک متحرک اور فعال ہیں‘ حالانکہ پاکستان کی بلدیاتی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے حکم کے تحت جماعتی سطح پر ہی کروائے گئے تھے‘ ان کی سیاسی وابستگیاں اپنی اپنی جماعتوں سے برقرار ہیں اور ان کے ماتحت محکموں سے ہی پولنگ عملہ تعینات کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ بلدیاتی اداروں کا عملہ ان آقائوں کے احکامات ماننے پر مجبور ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کے تمام ملازمین کا تقرر انہیں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے توسط سے ہوا۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ ٹی وی پر جن خرابیوں کا ذکر برملا کرتے تھے‘ وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ان کے حوالے سے عملی اقدامات ابھی تک کیوں نہیں کئے اور ان کی کابینہ کے ارکان نے الیکشن کے عملے کی طرف دھیان کیوں نہیں دیا؟
الیکشن ملتوی کرانے میں بین الاقوامی سازش تک کی بات کی گئی اور سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد‘ جو ملکی اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں‘ نے بلوچستان کے حوالے سے چشم کشا رپورٹ بھی پیش کی تھی کہ پورے ملک میں حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں کیونکہ نگران سیٹ اپ میں کوئی بھی ذمہ داری سنبھالنے کا اہل نہیں۔ لہٰذا 25 جولائی کی تاریخ جوں جوں قریب آ رہی ہے حالات پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔ ان حالات میں نواز شریف کے دستِ راست پرویز رشید کے بیانیہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا تھا کہ آرمی کو پولنگ سٹیشنوں پر تعینات کرنے سے خوف کی فضا میں الیکشن ہوں گے۔ اب اگر پرویز رشید کی جماعت کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو مریم نواز‘ نواز شریف اور ان کا ہم خیال میڈیا گروپ یہی تاثر پھیلائے گا کہ خلائی مخلوق پولنگ سٹیشنوں پر براجمان تھی‘ لہٰذا خوف کی فضا میں ان کے ووٹرز کو پولنگ سٹیشنوں پر آنے سے روکا گیا۔ اس سے ملتے جلتے ریمارکس خورشید شاہ بھی دیتے چلے آ رہے ہیں۔ تحریک انصاف اپنے اندرونی اختلافات میں پھنس چکی ہے اور ان کا ووٹر پولنگ سٹیشن آنے سے گریز کرے گا‘ کیونکہ عمران خان اپنے 30 اکتوبر 2011ء کے اعلامیہ سے یُوٹرن لے کر قوم کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ الیکشن کی سائنس ان کے نامزد کردہ امیدواروں کو معلوم ہے‘ گویا کرپٹ افراد کو پارلیمنٹ میں لانے کے لئے ملکی دولت کو لوٹنے والوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے ووٹروں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس طرح مخصوص نشستوں پر جن خواتین کو نظر انداز کیا گیا ہے‘ اس سے بھی تحریکِ انصاف کے ووٹروں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان حالات میں کوئی جماعت پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی اور اگر وسیع تر اتحاد کی صورت میں قومی حکومت تشکیل دی گئی تو عمران خان کرپٹ سیاسی راہنمائوں کے رحم و کرم پر ہوں گے‘ جن کو خاص حکمت عملی کے تحت تحریک انصاف میں شامل کرایا گیا ہے۔ میں تحریک انصاف میں طاقتور فارورڈ بلاک بنتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ چیف جسٹس آف پاکستان بڑی چابکدستی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کراچی کی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے متنازع فیصلوں کو نظر انداز کرکے الیکشن کمیشن کی قانونی معاونت کی اور اس طرح انتخابات مقررہ وقت پر کرانے کی راہ ہموار کر دی گئی۔ خوش کن بات یہ ہے کہ ملکی اداروں اور انتظامیہ نے آئین پر عمل درآمد یقینی بنانے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا‘ اور اب کم و بیش تمام سیاستدانوں کے خدشات میں کمی کا احساس دکھائی دیتا ہے۔ خوش آئند پیش رفت یہ ہے کہ امیدواروں کے لئے اب اثاثے چھپانا ممکن نہ ہو گا۔ حلف نامے کی خلاف ورزی کی تلوار ہمیشہ ان پر لٹکتی رہے گی۔ کامیابی کی صورت میں ان کے مخالفین سپریم کورٹ سے رجوع کرنے میں عار محسوس نہیں کریں گے۔ جس طرح نواز شریف کاغذات نامزدگی کے فارم میں حلف کی خلاف ورزی کرکے تا حیات نا اہل ہو گئے تھے‘ اسی طرح پارلیمنٹ کے ارکان بھی کسی وقت لپیٹ میں آ سکتے ہیں؛ لہٰذا عوام اور ووٹرز مطمئن رہیں کہ ریٹرننگ افسران کے دائرہ کار سے نکلنے کے باوجود ان پر نااہلیت کا خوف طاری رہے گا۔ اس طرح شفافیت کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں‘ البتہ انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کے لئے الیکشن کے بعد کی صورتحال پر غوروخوض کرنا ضروری ہے کہ انتخابات سے پہلے جو باتیں کی جا رہی ہیں‘ انہیں پیش نظر رکھتے ہوئے یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابات کے بعد اس نوع کی باتیں دہرائی نہیں جائیں گی۔ متعلقہ اداروںنے اس حوالے سے کوئی حکمت عملی بھی وضع کر رکھی ہوگی۔ اب دھونس‘ دھاندلی اور غنڈہ گردی کی حکمت عملی ناکام رہے گی‘ کیونکہ فوج کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں۔ ملکی اور عالمی حالات کے پیش نظر 25 جولائی کے انتخابات ملک کے محفوظ مستقبل کے ضامن ہیں؛ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنی سیاسی سرگرمیوں پر توجہ دیں اور منشور کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی کے لئے عوام کی ہمدردیاں حاصل کریں۔ ان کے رویے میں بھی جمہوری اقدار کی جھلک دکھائی دینی چاہیے۔ آرمی کو آئین کے آرٹیکل 220 کے بجائے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت طلب کیا جائے جس کے مطابق پولیس‘ رینجرز‘ ایف سی اور الیکشن کا عملہ قانونی طور پر آرمی کے ماتحت ہوں گے اور آرمی کو بھی قانونی تحفظ حاصل رہے گا۔