منتخب کردہ کالم

انتخابات کی اشرافیائی تیاری…ظہیر اختر بیدری

انتخابات کی اشرافیائی تیاری...ظہیر اختر بیدری

انتخابات کی اشرافیائی تیاری…ظہیر اختر بیدری

جمہوری معاشروں میں ایک ’’خوبی‘‘ یہ ہوتی ہے کہ عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے لیے حکمران منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے، اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام اپنی مرضی کے نمایندے منتخب کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے عوام میں اتنا سیاسی شعور بہرحال موجود ہوتا ہے کہ وہ کسی امیدوار کو ووٹ دینے سے پہلے امیدوار کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں، اس کی اہلیت، قومی مسائل سے اس کی جانکاری، اس کی عوام کے لیے خدمات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان معلومات کی روشنی میں اپنے ووٹ کا ممکنہ حد تک درست استعمال کرتے ہیں۔

دنیا میں جتنی برائیاں اور خرابیاں موجود ہیں وہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں۔ دنیا جس غیر منصفانہ اور ظالمانہ طبقاتی نظام کے پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے اور دنیا کے چپے چپے پر کرپشن جس طرح مسلط ہے، اس کا ماخذ بھی سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے، لیکن کسی جمہوری ملک کے انتخابات میں کوئی امیدوار اس شیطانی نظام کے خاتمے کو انتخابی مہم کا حصہ نہیں بناتا، البتہ جن ملکوں میں بائیں بازو کی طاقتیں مضبوط ہوتی ہیں وہاں انتخابی مہموں میں سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

اس طرز فکر کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے دنیا بھر کے عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی متبادل نہیں اور یہی ایک ایسا نظام ہے جو فطری بھی ہے اور دنیا کے مسائل بھی حل کرسکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اپنے اس پروپیگنڈے میں اس لیے کامیاب ہو رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کا جو ایک بہتر متبادل تھا اسے انھوں نے اپنی سازشوں سے ختم کردیا ہے۔

پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں تو صورت حال یہ ہے کہ یہاں عوام اپنا ووٹ امیدوار کی اہلیت، اس کی خدمات وغیرہ پر نظر ڈالنے کی زحمت ہی نہیں کرتے، بلکہ سیاسی قیادت سے اپنی وفاداری کے حوالے سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں، اس کے علاوہ ذات، برادری، قومیت، لسانیت جیسے عوامل بھی عام انتخابات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور چالاک لوگ ان حوالوں سے عوام کو اپنا اسیر بناکر رکھتے ہیں۔

یہ ایجنٹ اپنی اپنی کمیونٹیوں پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں، جس کی وجہ اشرافیہ کو عوام پر زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، وہ ان ایجنٹوں کو خرید لیتے ہیں، یوں اشرافیہ عوام کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اشرافیہ نے انتخابی دھاندلی کو اس قدر مستحکم اور روایتی بناکر رکھ دیا ہے کہ یہ کلچر بھی انتخابات میں اشرافیہ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس حوالے سے تازہ مثال 2013ء کے الیکشن ہیں۔

70 سال سے پاکستان میں اشرافیہ ہی برسر اقتدار ہے، 35 سال کے جمہوری دور میں اشرافیہ بلاواسطہ اقتدار میں رہی اور 35 سال کے دوران وہ فوجی حکومتوں میں شامل رہ کر بالواسطہ اقتدار کا حصہ بنی رہی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری کے باوجود غیر سیاسی قوتوں کی مخالفت کا ڈرامہ کرکے اشرافیہ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ بہتر حکمرانی صرف اشرافیہ ہی کرسکتی ہے، اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اہل علم، اہل دانش، اشرافیہ کی اربوں کی کرپشن اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اس کی حمایت کرتے ہیں۔

2018ء کا آغاز ہوچکا ہے، 2018ء کو انتخابات کا سال قرار دیا جا رہا ہے، اگر کوئی انہونی نہ ہو تو 2018ء میں الیکشن ہوجائیں گے اور امید واثق ہے کہ روایت کے مطابق اشرافیہ یہ انتخابات جیتنے کی کوشش کرے گی۔ ایسا ہوا تو یہ 70 سالہ ایسا تسلسل ہوگا جس میں عوام کی زندگی، ان کے مسائل میں کوئی تبدیلی یا کمی نہیں آئے گی۔

اشرافیائی جماعتیں پوری توانائیوں کے ساتھ میدان سیاست میں متحرک ہیں اور اس منافع بخش کاروبار میں بھرپور سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ پبلسٹی پروپیگنڈے کا منظم سلسلہ جاری ہے، میڈیا میں اشرافیہ کی ’’عوامی خدمات‘‘ کے بڑے بڑے اشتہارات پورے خاندانوں کی تصاویر کے ساتھ شایع ہو رہے ہیں، اربوں روپوں کے خرچ سے بڑے بڑے جلسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور ان جلسوں سے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ کس قدر مقبول ہیں۔

اس بار پاناما لیکس کا شکار بننے والی اقتداری جماعت بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ 2018ء کے الیکشن اس کے اقتدار کی ضمانت نہیں بن پائیں گے۔ اس صورتحال کی وجہ سے روایتی انتخابات ڈسٹرب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ افواہ ہے کہ زیر عتاب سیاسی جماعت کسی نئے این آر او کی کوشش کر رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس بار سعودی عرب کو اس حوالے سے مرکز بنایا جا رہا ہے۔

دنیا کے مختلف ملکوں کے حکمران طبقوں کے مفادات مشترکہ ہوتے ہیں، اگر کسی ’’برادر ملک‘‘ کا حکمران طبقہ کسی ناگہانی صورتحال کا شکار ہوجاتا ہے تو دوسرے برادر ملکوں کے حکمران طبقات اس کی مدد کو آجاتے ہیں۔ آج کل سعودی عرب میں برادر ملکوں کی کاوشوں کو اسی حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔

اشرافیہ کے درمیان حصول اقتدار کی کوششوں میں اختلافات کا جو کلچر ابھرتا نظر آتا ہے اس میں عوام کی خدمات کے حوالے سے مقابلے کی ایک مصنوعی صورتحال تو پیدا کردی جاتی ہے لیکن عوام کے مسائل کا حقیقی معنوں میں حل ’’خیال است و محال است و جنوں‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

اس گمبھیر صورتحال میں عوام کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ اول تو وہ اپنی بستیوں، اپنے طبقات کے اندر سے اپنی قیادت پیدا کریں اور اپنے طبقے کے اہل ایماندار لوگوں کو آگے لائیں اور مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل عوام سے مخلص اور اشرافیہ جمہوریت کو ختم کرنے کا عزم رکھنے والی جماعتوں کی حمایت کریں، تاکہ ہمارے ملک کی سیاست اور اقتدار پر سے اشرافیہ کی اجارہ داری اور ناجائز قبضہ ختم ہوسکے اور بھارت کی طرح سیاست اور اقتدار پر مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی بالادستی قائم ہوسکے۔ انتخابات کا کم ازکم اتنا فائدہ تو ہو۔