انتخابی مجاہد….خورشید ندیم
”مجاہدِ ختمِ نبوت… شیخ رشید احمد، امیدوار حلقہ این اے 60-62‘‘
کل میں راولپنڈی کی مرکزی شاہراہ مری روڈ سے گزرا تو ایک رکشے پر آویزاں یہ اشتہار دیکھا۔ آج بروز جمعہ، صبح اخبار اٹھایا تو اسی مضمون کا اشتہار اس میں بھی چھپا ہوا تھا۔ چند روز پہلے کراچی سے ایک مبینہ ڈاکٹر صاحب کا انتخابی پوسٹر کسی نے دکھایا۔ انہوں نے بھی ووٹ مانگتے ہوئے اپنا تعارف کرایا تھا: ”محافظِ ختمِ نبوت… سفیرِ ناموسِ رسالت‘‘۔ یہ اشتہارات کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آنے والے انتخابات میں ایک بار پھر مذہب کو استعمال کیا جائے گا؟
”ختمِ نبوت‘‘ اسلام کے مسلمات میں سے ہے۔ میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جو اس کا انکار کرتا ہو۔ رسالت مآب سیدنا محمدﷺ پر نبوت کا باب بند ہو گیا۔ ان کے بعد کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ مامور من اللہ ہے۔ نبوت کی کوئی صورت اب باقی نہیں۔ نہ ظلی نہ بروزی۔ ہر مسلمان محافظِ ختمِ نبوت ہے۔ جب وہ اس عقیدے کا اقرار کرتا ہے تو اس کا وجود سراپا شہادت بن جاتا ہے۔ گویا وہ اب مجاہدِ ختمِ نبوت ہے اور محافظِ ختمِ نبوت بھی۔ سوال یہ ہے کہ کسی مسلمان کو اسے اپنا امتیاز بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ گمان یہی رکھنا چاہیے کہ ہر مسلمان نماز پڑھتا ہے۔ دفعہ 62,63 پر وہ اسی وقت پورا اترتا ہے جب وہ نماز کا پابند ہو۔ میں نے آج تک کوئی انتخابی اشتہار نہیں دیکھا جس پر کسی نے اپنا تعارف نمازی کے طور پر کرایا ہو۔
لوگ اپنے آپ کو حاجی لکھتے ہیں لیکن یہ بھی خود کو مشتبہ بنانا ہے۔ اگر نمازی تعارف نہیں بنتا تو حاجی کیسے بن سکتا ہے؟ دونوں فرائض میں شامل ہیں اور جب ایک مسلمان مکلف ہو جاتا ہے تو لازم ہے کہ وہ ان کا اہتمام کرے۔ عقائد، عبادات سب اللہ کے لیے ہیں۔ مسلمان ان کو کبھی اشتہار نہیں بناتا۔ اشتہار بنانے کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ آپ دنیا میں اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ آپ اپنے رب سے نہیں، بندوں سے اجر چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ رویہ باعثِ شرمندگی ہونا چاہیے نہ کہ باعثِ شرف۔
اگر کسی نے دین کی کوئی خدمت کی بھی ہے تو وہ اسے اشتہار نہیں بناتا۔ تشہیر کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ دین آپ کے لیے جنسِ بازار ہے۔ معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو یہ انفرادی سطح پر ایک اخلاقی مسئلہ تھا۔ سیاست میں جب دینی شعائر کو اشتہار بنایا جاتا ہے تو اس کا ایک اور مقصد ہوتا ہے اور وہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ میں اسی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
سیاست میں خود کو ختمِ نبوت کا مجاہد ثابت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس باب میں دوسروں کے کردار اور عقیدے کو مشتبہ بنایا جائے۔ امتیاز اسی طرح قائم ہوتا ہے۔ شیخ رشید صاحب ایسی تقریریں کر چکے ہیں جن میں یہی بات کہی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جب مذہب کو سیاسی امتیاز کے لیے استعمال کیا گیا تو دوسروں کے ایمان کو مشتبہ بنا دیا گیا۔ 1970ء میں اسلامی نظام کی سیاست ہوئی تو سوشلزم کو کفر ثابت کرنا پڑا۔ 1977ء میں نظامِ مصطفیٰ کی سیاست کی گئی تو انتخابی معرکے کو غزوۂ تبوک کے مترادف قرار دیا گیا۔ مجلسِ عمل کے راہنما بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ سیکولر قوتوں کے خلاف انتخابی معرکہ لڑ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک سیکولر سے مراد دین مخالف طبقہ ہے؛ تاہم وہ ابھی تک یہ نہیں بتا سکے کہ ان کے نزدیک اس لفظ کا مصداق کون ہے؟ نون لیگ؟ تحریکِ انصاف؟
پاکستان کی ستانوے فی صد آبادی مسلمان ہے۔ انتخابات جس آئین کے تحت ہو رہے ہیں، وہ ایک اسلامی آئین ہے۔ ختمِ نبوت اس آئین کا حصہ ہے۔ پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون بن ہی نہیں سکتا۔ آج اگر پارلیمنٹ کی سو فی صد اراکین غیر مسلم ہوں تو بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائیں جو اسلام کے خلاف ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت کام کرنے والا ادارہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ آئین کے خلاف ایک قدم بھی ا ٹھا سکے۔
اسی بنا پر میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ پاکستان میں اب مذہبی سیاست کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ یہ بات مذہبی جماعتیں بھی جانتی ہیں۔ رہے شیخ رشید یا اس طبقے کے سیاست دان تو ان کی سیاست کا اسلام سے کتنا تعلق ہے، پاکستان کا ہر شہری اس سے باخبر ہے۔ یہ لوگ ہر اُس چیز کو انتخابی معرکے میں استعمال کرنا چاہتے ہیں جس سے انہیں فائدہ اور ان کے مخالفین کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ ان میں مذہب بھی شامل ہے۔ انہیں مذہب سے ذرہ برابر بھی دلچسپی ہوتی تو وہ اس احساس ہی سے لرز اٹھتے کہ دنیاوی مقاصد کے لیے اللہ کی آیات کو بیچنے کی کیا سزا ہے۔
باوجود کوشش کے، نون لیگ کی ا نتخابی قوت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جا سکا۔ آج بھی وہ سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی فتح کو شکست میں بدلنے کے لیے مخالف قوتیں سر توڑ کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ سب عوامل کو اپنی گرفت میں لینے پر قادر نہیں ہیں۔ عالمِ اسباب میں دوسروں کے لیے بھی امکانات موجود ہوتے ہیں۔ پھر کچھ باتیں ماورائے اسباب بھی ہوتی ہیں‘ جیسے عدالتِ عظمیٰ کا شیخ رشید کو انتخابات کے لیے اہل قرار دینا نون لیگ کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ راولپنڈی میں تحریکِ انصاف کا ایک کارکن ایسا نہیں جو انہیں ووٹ دینا چاہتا ہو۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس دل کے ساتھ ان کی انتخابی مہم کا حصہ بنے گا۔
اگر راولپنڈی شہر سے تحریکِ انصاف کا اپنا امیدوار ہوتا تو اس جماعت کے کارکنوں کا جوش و خروش یقیناً اسے ایک بڑا انتخابی معرکہ بنا دیتا۔ پھر عمران خان کی سخاوت کا یہ عالم ہے کہ ایک نہیں، انہوں نے دو حلقے شیخ رشیدکے حوالے کر دیے۔ دوسری طرف نون لیگ کے تمام دھڑے غیر متوقع طور پر مجتمع ہو گئے ہیں۔ راولپنڈی شہر میں تحریکِ انصاف کا کل اثاثہ شیخ رشید اور عامر کیانی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس صورتِ حال نے نون لیگ کے لیے اس معرکے کو بہت سہل بنا دیا ہے۔ یہ ایک مثال ہے جو بتا رہی ہے کہ کوئی انسانی کاوش اس پر قادر نہیں ہے کہ عالمِ اسباب کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ اس طرح کی کوششیں نون لیگ کی انتخابی قوت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکیں۔
اس پس منظر میں یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ خدشات کے عین مطابق مذہب کو نون لیگ کے خلاف انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ میں اسے ملک کی سلامتی اور امنِ عامہ کے لیے بہت خطرناک سمجھتا ہوں۔ سیاسی انجینئرنگ کے نقصانات بھی کم نہیں ہوتے مگر جب مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے معاشرے کی بنیادیں تک ہل جاتی ہیں۔ اس ملک میں پہلے ہی مذہب کے نام پر بہت فساد برپا کیا گیا۔ یہ ملک مزید اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس انتخابی معرکے میں دلچسپی رکھنے والے تمام سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں سے میری درخواست ہو گی کہ خدا را، مذہب کو سیاست کے لیے استعمال نہ کریں۔ نون لیگ کی شکست کیا ملکی سلامتی سے زیادہ اہم ہے؟
عوام کو بھی متنبہ رہنا ہو گا۔ جو لوگ انتخابات میں مذہب کو استعمال کر رہے ہیں یہ دینی مجاہد نہیں، انتخابی اور سیاسی مجاہد ہیں۔ ان کا جہاد دین کے لیے نہیں، اقتدار کے لیے ہے۔ ان کو اسی نظر سے دیکھیں۔ اگر کوئی خود کو دین کا مجاہد بنا کر پیش کرے اور اسے اپنی وجۂ شہرت بنائے تو خبردار ہو جائیے کہ یہاں خطرہ ہے۔ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو ختمِ نبوت کا انکار کرنے والی ہے۔ عوام اگر ایسے کرداروں کو مسترد کر دیں گے جو دین کو اقتدار کے کھیل میں استعمال کرنا چاہتے ہیں تو انشااللہ دین کے دنیاوی استعمال کا ایک بڑا راستہ بند ہو جائے گا۔ اسی میں پاکستان کا بھلا ہے اور اسلام کا بھی۔