مجھے ڈائری میں لکھے نمبر زیادہ اچھے لگتے ہیں کیونکہ یہ روایت اس وقت سے چلی آتی ہے جب موبائل فون ابھی ہمارے ہاں نہیں آیا تھا۔ پھر یوں ہوتا رہا کہ جب کوئی ہم عصر گزر جاتا تو میں دُکھی دل کے ساتھ اس کا نمبر ڈائری سے کاٹ دیتا۔ سو‘ ان کٹے ہوئے نمبروں میں اے حمید‘ عادل منصوری‘ ڈاکٹر شہریار‘ حمید اختر‘ حنیف رامے‘ عبداللہ حسین‘ اظہر جاوید‘ احمد ہمیش‘ افتخار نسیم‘ جمیل الدین عالی‘ منیر نیازی‘ احمد فراز‘ عباس نجمی‘ وزیر آغا‘ ندیم قاسمی‘ شہزاد احمد‘ ثمینہ راجا‘ محمد علی صدیقی‘ شفق خواجہ‘ وحید قریشی‘ محمود واجد‘ شفقت تنویر مرزا‘ علی افتخار جعفری‘ انیس ناگی‘ اے جی جوش‘ عباس اطہر‘ شبنم شکیل… کئی نام ڈائری سے ایسے ہی مٹ یا بُجھ گئے ہیں اور پڑھے نہیں جاتے۔ یہ اس لیے لکھے ہیں کہ دل میں ان کی یاد بھی تازہ ہو جائے۔ اس لیے بھی کہ انتظار صاحب کا نام میں نے نہیں کاٹا۔ کاٹ ہی نہیں سکا اور میری زندگی تک یہ نام اور نمبر اسی طرح جگمگاتا رہے گا۔
ماضی میں چھلانگ لگاتا ہوں تو اوکاڑہ سے کبھی لاہور آنا ہوتا تو ٹی ہائوس کا چکر ضرور لگتا۔ داخل ہوتے ہی دائیں کونے پر انتظار حسین‘ ناصر کاظمی‘ حنیف رامے‘ شیخ صلاح الدین‘ ریاض احمد اور احمد مشتاق کی منڈلی لگی ہوتی۔ کرسی کھینچ کر طالب علموں کی طرح میں بھی بیٹھ جاتا۔ ان کی باتیں سنتا‘ کچھ سمجھ میں آتیں کچھ نہ آتیں۔ پھر بسلسلہ تعلیم لاہور آ گیا تو ان صحبتوں سے فیضاب ہونے کا مزید موقعہ ملا۔ شعر کہنا میں نے بھی شروع کر دیا تھا۔ بے استاد تو شروع ہی سے تھا‘ بہت جونیئر ہونے کے باوجود ناصر کاظمی کے ساتھ خواہ مخواہ ماتھا لگا بیٹھا کہ اس کی انتہا درجے کی میر پرستی مجھے اچھی نہ لگی؛ چنانچہ شاعری میں اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا ایک سلسلہ جاری رہا اور مجھے اس گروپ کا باقاعدہ مخالف سمجھا جانے لگا‘ حالانکہ میری بساط ہی کیا تھی۔ انتظار حسین بھی ظاہر ہے کہ میرے اس رویّے سے خوش نہیں تھے‘ تاہم وہ روزنامہ ”آفاق‘‘ میں میری غزلیں چھاپتے رہے جس میں وہ کالم بھی لکھتے تھے اور اس کے ادبی سیکشن کے انچارج بھی تھے ”آبِ رواں‘‘ شائع ہوئی تو انہوں نے ”سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ اخبار میں اس پر تبصرہ بھی کیا۔
میں نے کالم لکھنا شروع کیا تو انتظار صاحب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو آخر تک جاری رہا۔ ناصر کاظمی کی وجہ سے وہ مجھے دل سے پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کے باوجود جب میرا مجموعہ ”عیب و ہنر‘‘ شائع ہونے کو تھا تو میں نے ان سے اس کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کر دی اور کہا کہ جو وہ لکھیں گے حرف بحرف چھپ جائے گا لیکن انہوں نے بڑی محبت سے لکھا اور مجھے حیران بھی کر دیا اور شرمندہ بھی۔ بعد میں ایک یا دو مضامین میری شاعری پر اور بھی لکھے جو ان کی کتابوں میں شامل ہیں۔ میں نے بھی ”انتظار حسین کی نثر‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا جس کے بارے میں محمودالحسن کی رائے ہے کہ یہ انتظار حسین پر لکھے جانے والے مضامین میں سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔ چنانچہ نوک جھونک بھی چلتی رہتی تھی اور
ٹیلی فون پر گپ شپ اور ملاقاتیں بھی‘ ان کے گھر بھی آنا جانا رہا‘ ان کی اہلیہ کی زندگی کے دنوں میں بھی‘ ایک کالم میں انہوں نے غالب کے مصرعے کو عنوان بنایا یعنی ‘چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے‘ غصہ تو مجھے کیا آنا تھا‘ البتہ جوابِ آں غزل کے طور پر کچھ خدمت میں بھی کر دیتا۔ اصل معرکہ آرائی اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے محفلوں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ شمس الرحمن فاروقی نے ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر قرار دیا تو اس کا ہاضمہ اس قدر تیز تھا کہ وہ اسے ہضم کر گیا۔ حالانکہ میں نے بھی سنا ہی تھا‘ مثلاً مُشفق خواجہ نے مجھے ایک خط میں بتایا کہ فاروقی نے ایک ریڈیو ٹاک میں ایسا کہا ہے۔ لیکن جب انتظار صاحب نے یہ بات بار بار کہہ کر میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا تو میں نے اپنی تحریروں میں لاکھ دہائی دی کہ یہ کوئی مصّدقہ بات نہیں ہے اور نہ ہی میں ایسا سمجھتا ہوں‘ لیکن موصوف کی سُوئی آخر تک اسی بات پر ٹکی رہی۔ حتیٰ کہ تنگ آ کر فاروقی صاحب کو بھی میدان میں کُودنا پڑا کہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا۔ تاہم بات پھر بھی ختم نہ ہوئی اور انہوں نے اِدھر اُدھر یہ بیان جاری رکھا۔
چند ماہ پہلے ان کی ایک تحریر واقعتاً شکر رنجی کا باعث بنی اور رابطہ منقطع ہو گیا۔ آخر میں نے خود ہی ایک روز انہیں فون کیا اور کہا کہ ہم آپس میں رُوٹھے بھی رہیں تو بھی ہمارا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ میرا تو ہرگز نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ میرا بھی نہیں ہوتا اور تمہاری آواز سن کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ اس کے بعد وہ اچانک بیمار پڑ گئے۔ محبّی افضال احمد سے ان کی صحت کے بارے میں پوچھتا رہا۔ پھر انتہائی غیر متوقع طور پر اُن کا انتقال ہو گیا۔ برادر آصف فرخی کو تعزیتی فون کیا تو انہیں بھی بتایا کہ ناراضی کے باوجود میں نے انہیں اس لیے فون کیا تھا کہ اب عمر رہ ہی کتنی گئی ہے کہ اسے بھی لڑائی بھڑائی ہی میں گزار دیا جائے۔ آصف نے بتایا کہ آپ کے فون کے بارے میں انتظار صاحب نے خود بھی مجھے بتایا تھا۔
میں اپنے آپ کو اس بات کا کریڈٹ دے سکتا ہوں کہ میرے دل میں بُغض نہیں رہ سکتا اور میری نیت ہمیشہ صاف رہتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنا ردعمل بھی ظاہر کیا کرتا ہوں اور کدورت اگر ہو بھی تو اپنے آپ ہی صاف ہو جاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے۔ کہتے ہیں کہ انتظار صاحب کے اولاد نہیں تھی۔ کیسے نہیں تھی؟ بلکہ وہ تو کثیرالعیال تھے کہ ان کی اتنی ساری کتابیں ان کی اولاد ہی تو ہیں۔ اولاد اگر آپ کا نام روشن کرتی ہے تو
مرحوم کو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ ان کا نام ان کی اس اولادِ معنوی نے ہی اتنا روشن کر دیا ہے کہ اس کے سامنے ہم سب اندھیرے ہی کے سفیر لگتے ہیں۔ یہ خراج پیش کرنے میں تاخیر اس لیے ہو گئی کہ شاید
انتظار حسین کو اس کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ ان کے ساتھ تو ہلکی پھلکی لڑائیاں لڑی ہی تھیں‘ کچھ لڑائیاں ان کے حق میں بھی لڑی گئیں۔ ہمارے دوست انیس ناگی نے جب لکھا کہ انتظار حسین کو اگر اپنے چھوڑے ہوئے شہر کی یاد اتنا ستاتی ہے تو واپس بھارت کیوں نہیں چلے جاتے؟ مجھے فخر ہے کہ میں نے اس کا سختی سے نوٹس لیا اور کچھ لوگ اس پر حیران بھی ہوئے۔ لوگ بھریا میلہ چھوڑ کر جاتے ہیں لیکن یہ شخص تو میلہ ہی خالی کر گیا‘ ساری رونقیں ہی ساتھ لے گیا۔
میرے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بھائی‘ اس کو اس طرح نہ پڑھو جیسے دوسرے شاعروں کو پڑھتے ہو‘ یہ تو چیز ہی کوئی اور ہے‘ حالانکہ یہ بات خودان کے بارے میں زیادہ شدومد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انہیں اس طرح نہ پڑھا جائے جس طرح دوسرے افسانہ نگاروں کو پڑھا جاتا ہے۔ باقی سب کچھ کے علاوہ اساطیر کو دوبارہ زندہ کر دینا ان کا خاص کارنامہ ہے‘ پھر یہ ہے کہ اُن جیسی نثر کوئی کہاں سے لائے گا‘ یہ اشعار دوبارہ پیش خدمت ہیں:
صبح کو سوگ منائیں گے تو شب روئیں گے
جو کبھی پہلے نہ روئے تھے وہ اب روئیں گے
نوحہ گر کون نہیں ہو گا یہاں تیرے لیے
تُو ہے محبوب سبھی کا تُجھے سب روئیں گے
آج کا مطلع
جرمِ دل کی سزا نہیں دیتا
کیوں کوئی فیصلہ نہیں دیتا