انتظار….ھارون الرشید
حکم ابھی نہیں لگایا جا سکتا۔ قدرت کے ان دیکھے ہاتھ کو بروئے کار آنا ہے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس انداز میں بروئے کار آئے گا۔ ابھی انتظار کرنا ہوگا۔
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
اخبار نویس اندازے قائم کرتے ہیں۔ کرکٹ کے ان مبصرین کی طرح‘ جن میں سے بعض‘ جواں سال کھلاڑیوں سے کھیل کو زیادہ سمجھتے ہیں‘ جن کا طوطی بول رہا ہو۔ وہ کرکٹ نہیں کھیل سکتے‘ الیکشن نہیں لڑ سکتے مگر بعض اوقات ان کے تجزیے سیاست دانوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ باایں ہمہ اتنے پیچیدہ عوامل گاہے سیاست میں کارفرما ہوتے ہیں کہ بہترین کے اندازے بھی غلط ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پہ ایک بدلتی ہوئی صورتِ حال میں۔
وطنِ عزیز میں صورتِ حال تغیر پذیر ہے۔
کس کو خبر تھی کہ لاہور کے افق پر برسنے والی بارشیں‘ شریف اقتدار کا غازہ دھو ڈالیں گی۔ اس قدر بے رحمی سے شہبازشریف کے طرزِ فکر اور اندازِ اقتدار کو بے نقاب کر دیں گی۔ یہ ناچیز خود کو ان لوگوں میں شمار نہیں کرتا‘ جو سیاسی حرکیات کا پوری طرح ادراک رکھتے ہیں۔ اس لیے کسی بھی نئی یا پیچیدہ صورتِ حال میں وہ ماہرین سے مشورے کی راہ اختیار کرتا ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ پر ان دنوں غور کیا ”وامرھم شورٰی بینہم‘‘۔ کچھ نئے پہلو روشن ہوئے۔ کھلا کہ مشورہ کرنے والا کبھی خسارے کا شکار نہیں ہوتا۔ شرط یہ ہے کہ مشاورت حسنِ نیت کے ساتھ ہو‘ باصلاحیت اور اہل لوگوں کے ساتھ ہو۔ پندارکا مارا ہوا مغالطے کا شکار ہو کر رہے گا‘ خواہ جہاندیدہ اور تجربہ کار ہو۔
تجزیہ کرنے والے کچھ زیادہ متوازن اور زیادہ عملی ہوتے ہیں۔ کچھ میں غلبہ قوّت تخیلہ کا زیادہ ہوتا ہے۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا: سودا سلف خریدنے سے پہلے تین جگہ سے نرخ پوچھ لیا کرو۔ میرے خیال میں ایک جہت اس فرمان کی یہ ہے کہ الجھی ہوئی صورتِ حال میں کم از کم تین صاحبِ ادراک لوگوں کی رائے ضرور معلوم کرنی چاہیے۔ پوری توجہ سے بات ان کی سننی چاہیے۔ جذبات سے مغلوب‘ ہیجان کے مارے مسلمانوں میں بالعموم یہ قرینہ اب باقی نہیں۔ مغرب اور مشرقِ بعید کی بعض اقوام میں ہم سے زیادہ ہے۔ چین میں اس کی مثالیں ہیں‘ سنگاپور اور ملائیشیا میں بھی۔
رئوف کلاسرا بھاگ دوڑ اور دماغ سوزی دوسروں سے زیادہ کرتے ہیں مگر میرے خیال میں عامر متین اور محمد مالک زیادہ گہرائی سے تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ عامر متین اگر یہ کہتے ہیں کہ بارشوں نے جمے جمائے تاثر کو دھو ڈالا ہے تو ان کی بات پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ رہا محمد مالک کا یہ خیال کہ آصف علی زرداری نے اپنی بساط دوسروں سے بہتر بچھائی ہے‘ صدرِ پاکستان کے منصب کی ٹرافی جیت سکتے ہیں تو ناچیز نے کچھ دیر‘ اس پہ غور کیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ مشکل ہوگا۔ ایسا کیا گیا تو بہت بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔ اتنی کہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ یہ صرف قائداعظم محمد علی جناح کے مرتبے کا مدبّر ہی کر سکتا تھا کہ انتہائی اہم وزارتیں غیر مسلموں کو سونپ دے…اور خلقِ خدا گوارا کرے۔ ان کی نگراں آنکھوں اور کردار پہ اعتماد اتنا تھا کہ شبہ پیدا نہ ہوتا۔ ناروا فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرنے والا‘ سو بار سوچتا۔ حسنِ نیت ہی نہیں‘ پروردگار نے انہیں غیرمعمولی بصیرت اور اخلاقی جرأت سے بھی نوازا تھا۔ الجھی ہوئی ڈور کو وہ سلجھا سکتے اور الجھانے والے ہاتھوں کو روکنے کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ کوئی فرد تو کیا‘ آج کوئی ادارہ بھی‘ اس غیرمعمولی اعتبار سے بہرہ ور نہیں۔
زرداری نیک نام نہیں کہ گوارا کیے جا سکیں۔ کسی نے ان کی پشت پناہی کرنا چاہی تو وہ اپنا اعتبار کھو دے گا۔
امریکی ایما پر‘ چھپ چھپ کر‘ بہت احتیاط اور چالاکی سے قادیانیت والے قانون میں‘ معمولی سی ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ کیا نکلا؟… ابھی کچھ مزید نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
خبر فقط یہ نہیں کہ فواد حسن فواد گرفتار ہوگئے بلکہ یہ ہے کہ عصرِ حاضر کے شیرشاہ سوری کے خلاف تحقیقات کا ڈول ڈال دیا گیا ہے… اور یہ واقعہ دو تین ہفتے قبل ہوا۔ سرکاری افسروں سے کہہ دیا گیا ہے کہ ٹھوس معلومات فراہم کرنے والوں کے ساتھ نرمی برتی جا سکتی ہے۔ جناب شہبازشریف نے اپنا آشیانہ شاخِ نازک پہ بنایا ہے… اور یاللعجب‘ دوشاخوں پر۔ وہ دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ بڑے بھائی کو وہ ترک نہیں کرنا چاہتے اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پوری طرح ان پر اعتبار کرے۔ اس قدر کہ حصولِ اقتدار میں ان کی مدد کرے۔
سیاست بھی جنگ کی طرح ہوتی ہے۔ اس میں جیت وہی سکتا ہے‘ جس کے پائوں میں زنجیریں نہ ہوں۔ اپنے فیصلے صادر کرنے کے لیے جو آزاد ہو۔ انحصار کرنے والا فیصلہ کن معرکے میں فاتح نہیں ہو سکتا۔
سبھی کی محدودات ہوتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی محدودات زیادہ ہیں‘ لہٰذا ان کا کردار بھی نسبتاً کم ہوگا۔ مجبوریاں ہیں اور ان کی اپنی تخلیق کردہ۔ سروے کچھ ہی کہتے ہوں‘ ناچیز کا احساس یہ ہے کہ نون لیگ اب کسی طرح اقتدار میں واپس نہیں آ سکتی۔ وفاق میں صدارت تو کجا سندھ میں پیپلزپارٹی کی واپسی بھی سہل نہیں۔ زرداری صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست کو وہ اداکاری کا میدان سمجھتے ہیں۔ ان کا طرزِ فکر یہ ہے کہ ایک خاص تاثر اجاگر کرکے مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ جی ہاں‘ ممکن ہوتا ہے‘ جب دوسرے عوامل مددگار ہوں۔ کرپشن ہی نہیں‘ سندھ‘ بالخصوص دیہی سندھ میں‘ ان سے ظلم وجور کی شکایت ہے۔ سفاکی اور بے رحمی کے ارتکاب کی۔ موصوف کی اعانت کرکے‘ سندھ کو ان کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ تین چار کروڑ انسانوں کو بھیڑیوں کے حوالے کردیا گیا۔ غلط طور پر وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پیر صاحب پگارہ شریف کی قیادت میں کارفرما جی ڈی اے کو وہ رام کر لیں گے۔ پیر صاحب سے اس ناچیز کو نیاز حاصل ہے۔ عمل سے زیادہ وہ اپنے محبوب خیالات کی دنیا میں بسر کرنے والے آدمی ہیں۔ مادی سے زیادہ روحانی اور رومانی آدمی۔ اس شاخ کو وہ کیوں کاٹیں گے‘ جس پہ ان کا بسیرا ہے۔ اسی طرح دوسرے کھلاڑی بھی۔ جہاں تک مصطفیٰ کمال اور عمران خان کا تعلق ہے‘ وہ بھی جناب زرداری کو گوارا نہ کرنا چاہیں گے۔ دونوں کو اپنی نیک نامی کی کچھ نہ کچھ فکر رہتی ہے۔ جوڑتوڑ سیاست میں اہم ہوتا ہے مگر عوامی احساسات کی بھی ایک قوّت ہے… اور کبھی کبھی اس طوفانی ریلے کی طرح‘ جو پلوں اور آبادیوں کو بہا لے جاتا ہے۔ راولپنڈی والوں کا اگر کوئی عمل دخل ہے اور یقیناً بہت ہے تو اس اہم پہلو کو انہیں ملحوظ رکھنا ہوگا۔
حبیب اکرم نے ٹھیک کہا‘ سروے مئی کے مہینے میں ہوئے تھے۔ جون کے اوائل میں مکمل کر لیے گئے۔ تب صورتِ حال دوسری تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں نون لیگ کی گرفت غیرمعمولی ہے۔ مغالطہ یہ ہے کہ ان کی عوامی تائید اخلاقی اساس رکھتی تھی۔ جی نہیں‘ بلکہ مافیا کی طرح‘ خوف کا عنصر اس میں زیادہ تھا۔ سندھ میں بلاول بھٹو کے بظاہر مرعوب کر دینے والے جلوس سے غلط نتائج اخذ نہ کیے جائیں۔ جلوس غیرمعمولی نہیں تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا زرداری صاحب کو من مانی کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ پولیس اور افسر شاہی کو آزادی سے استعمال کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں … سوال یہ ہے کہ کیوں ہوگی؟۔
عمران خان نے پہاڑ ایسی غلطیاں کی ہیں مگر حالات اب ان کے لیے زیادہ سازگار ہیں۔ اب بھی یقین سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یقینا وہ وزیراعظم بن جائیں گے مگر اب اس کے امکانات بڑھے ہیں۔ ان کی اپنی بھرپور مہم سے زیادہ‘ تبدیلی کی تمنا کا دخل اس میں زیادہ ہے۔ مخالفین کے بے نقاب ہونے کا زیادہ۔
حکم ابھی نہیں لگایا جا سکتا۔ قدرت کے ان دیکھے ہاتھ کو بروئے کار آنا ہے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس انداز میں بروئے کار آئے گا۔ ابھی انتظار کرنا ہوگا۔
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا