اندر فوج، باہر فوج…ہارون الرشید
کتاب میں یہ لکھا ہے ” لیس للانسان الا ما سعیٰ ‘‘ آدمی کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی اس نے تدبیر کی ، سعی کی ، غور و فکر کیا ، خواب دیکھا اور اسے متشکل کرنے میں لگا رہا… اے اہلِ دانش،اے اہلِ دانش !
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے اخبارات کی ایک ہی شہ سرخی ہو۔ گزرا ہوا کل وہ یومِ سعید تھا ۔ رمضان المبارک کا آخری دن ۔ شیطان جس میں بندھے رہتے ہیں اور اہلِ ایمان صراطِ مستقیم کی تمنا پالتے ہیں ۔
الیکشن کے دن کا انتظام و انصرام فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہے ۔ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کیا ہے۔ اگرچہ اپنا اختیار کم ہی استعمال کرتا ہے۔ کرتا بھی ہے تو تامل اور تذبذب کے ساتھ ۔
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے
ستر برس بیت گئے، ایک ایسا الیکشن کمیشن تشکیل نہ پا سکا ، جو واقعی کچھ کر دکھائے ۔کیا یہ غلامی کے طویل مہ و سال سے گزرنے والے معاشرے کا المیہ ہے ؟ سب جہاں ایک دوسرے کا سہارا چاہتے ہیں ۔ غیب سے پشت پناہی کی امید ۔ دوسروں سے کارنامے انجام دینے کی توقع کرتے اور استدعا کرتے رہتے ہیں ۔
خوشخبری یہ ہے کہ پولنگ سٹیشن پر دھاندلی سہل نہیں ہو گی ۔ اکثر اردو اخباروں نے سرخی جمائی ہے ”اندر فوج، باہر فوج‘‘ اخبار پہ نگاہ پڑتے ہی معلوم نہیں کیوں، 60 برس پہلے کے وہ دن یاد آئے ، جب ملک کو پہلا مارشل لا نصیب ہوا تھا ۔ چک نمبر42 جنوبی سرگودہا کی خاموش زندگی میں اکتوبر کی اس صبح عجیب ایک ہمہ ہمی تھی۔ خوف اور اندیشے ، کچھ افواہیں اور ایک بے سمت سا جوش و جذبہ مگر ایک موجیں مارتی ہوئی مسرت اور اطمینان کی کیفیت بھی ۔ سرکاری پرائمری سکول کے طلبہ کے لیے سب سے اہم واقعہ یہ تھا کہ دوات میں ڈالنے کی سیاہی دو کی بجائے ایک پیسے کی ہو گئی تھی ۔ بڑے بوڑھوں سے سن سنا کر چوتھی پانچویں کے طالبِ علم ایک دوسرے کو بتاتے رہے کہ دکانوں پر چیزیں سستی ہو گئی ہیں۔ پھر پانچویں جماعت کا ایک لمبا تڑنگا لڑکا خبر لایا کہ دکاندار شب کی تاریکی میں کچھ سودا سلف نہر میں پھینک آئے ہیں۔
8، 9 سال کی عمر میںسیاست ، اقتدار اور حکومت کا کیا ادراک ہوتا۔ مگر ایک تاثر حافظے کی لو ح پر تازہ ہے کہ اچھا نہیں ہوا۔ بے شک سیاہی سستی اور گاڑھی ہو گئی۔ ہو سکتا ہے کہ ٹانگری ، مرونڈا اور مونگ پھلی بھی آسان اور ارزاں ہو جائے، مگر یہ افراتفری سی کیوں ہے؟ ایسا تو نہیں ہونا چاہئے تھا ۔
18 ماہ ہوتے ہیں، اتفاق سے راولپنڈی کی ایک تقریب میں نئے نویلے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تو نصف صدی پہلے کے تاثر کی ایک پرچھائیں شاید ذہن کے کسی گوشے میں گونج رہی تھی۔ جنرل حضرات اخبار نویسوں سے گپ شپ نہیں کیا کرتے اور نازک حالات میں تو قطعاً نہیں۔ جنرل باجوہ لیکن قدرے مختلف ہیں۔ گوجرانوالہ کا ایک جاٹ ، جو بے تکلفی سے بات کرنے کا عادی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بچّے کی آدھی سے زیادہ شخصیت پانچ برس کی عمر تک مرتب ہو جاتی ہے، باقی ماندہ بھی اگلے سات آٹھ برس میں اعصابی نظام جب مکمل ہو چکتا ہے ۔ اس کے بعد بھی سیکھا جا سکتا ہے۔ بالعموم تبدیلی مگر اتنی ہی آتی ہے، جتنی کہ ایک شکن آلود کپڑے کو استری کرنے سے۔ رجحانات تشکیل پا چکتے ہیں اور مزاج بھی ۔ اکثر کے اعتقادات اور نظریات بھی ۔ ماں باپ، ماحول اور اوّلین اساتذہ کے زیر اثر مذہبی عقائد اور زندگی کے بارے میں عمومی رویہ بھی ۔ یہی تقدیر ہے اور تقدیر سے کسی کو مفر نہیں ۔
اہلِ علم یہ کہتے ہیں، روایتی زندگی کے اس گنبدِ بے در سے باہر آدمی جھانک تو سکتا ہے ۔ نیلے آسمان پر پھیلے منور ستاروں ، سحر دم صبح کاذب کے بطن سے پھوٹتے صبح صادق کے نور اور فلک پر دمکتے ، دہکتے سورج کے بارے میں سوچ تو سکتا ہے ۔ غور تو کر سکتا ہے کہ بادل کہاں سے آتے اور کیوں برستے ہیں ۔ ہر سو یہ ہریالی کیا ہے۔ پانی، ہوا اور اناج، حافظہ، توانائی اور تدبیر کی صلاحیت، ہر وہ چیز جو ابنِ آدم کو درکار ہے ، اتنی فراوانی سے کیوں میسر ہے ۔ یہی تو فطرت چاہتی ہے ، جاننے کی آدمی کوشش کرے کہ یہ کائنات کیا ہے ، زندگی کیا ہے ، آدمی کیا ہے اور ان سب کا خالق کون ہے ۔ انسانوں کے پروردگار کو اصرار ہی اس پہ ہے۔ اس کی مگر کون سنتا ہے ۔ کون اس کی کتاب پڑھتا ہے… اور جو پڑھتے ہیں ، وہ بھی تدبر کی فرصت کہاں پاتے ہیں۔ شاید اس کرّۂ خاک پہ آدمی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ پامال راستوں کا مسافر ہے ۔ بنی بنائی آسان پگڈنڈیوں کا ۔ کھانے کو مل جائے ، اوڑھنے اور پہننے کو مل جائے اور زندگی محفوظ رہے ۔ خود زندگی کیا ہے اور اس کا انجام کیا ۔ بہت کم سراغ لگانے کی سعی کرتے ہیں ۔ دعوے دار اگرچہ بہت ہوتے ہیں مگر دعویدار ہی ۔ اکثر سطحی، اکثر سوداگر ، اکثر خود فریبِ نفس کا شکار۔ خبطِ عظمت کے مارے اساتذہ کے قیدی ، مکاتبِ فکر کے ۔
خیر یہ الگ موضوع ہے اور اخباری کالم کا تو بہرحال نہیں ۔ اس تقریب میں جنرل باجوہ سے اچانک ملاقات نے، جو آف دی ریکارڈ تھی، ملاقاتی کو حیرت زدہ کر دیا۔ ان کی خوش طبعی اور حسنِ اخلاق نے۔ اس رسان سے بات کرنے والا آدمی کم ہوتا ہے ، بہت کم۔ کنٹرول لائن اور بھارت سے ملنے والی دوسری سرحدوں پر آگ اور لوہے کی بارش تھی ۔ ”کوئی دن میں ٹھہرائو پیدا ہو جائے گا‘‘ جنرل نے کہا اور اس کے لہجے میں یقین تھا ۔ عمومی صورتِ حال پہ سرسری سی گفتگو میں ، عجیب ایک بات انہوں نے کہی : الیکشن کمیشن نے اگر کوئی ذمہ داری ہمیں سونپی تو پاک فوج منصفانہ الیکشن کی ضمانت دے گی ۔
اس جھجک کے ساتھ ، جو اس طرح کی ملاقاتوں میں ہونا چاہئے، ناچیز نے ان سے جو کچھ عرض کیا، اس کا خلاصہ یہ ہے : پوری انسانی تاریخ میں دنیا کے کسی ملک اور معاشرے نے سول اداروں کے بغیر سرفرازی کا منہ نہیں دیکھا ۔ پولیس، عدلیہ اور افسر شاہی اگر مضبوط نہ ہو ۔ آئین اور قانون کے دائرے میں ، پوری آزادی کے ساتھ اگر بروئے کار نہ ہوں ۔ انتظامیہ ملک کو اگر امن عطا نہ کر سکے ۔ پورا ٹیکس اگر وصول نہ کر سکے ، کرپشن اگر نہ روک سکے ، جزا و سزا کا اگر نظام نہ ہو۔ سیاسی استحکام اور اس استحکام کے نتیجے میں جدید تعلیم اگر فروغ نہ پاتی ہو ۔ ہسپتال ڈھنگ سے اگر کام نہ کر رہے ہوں ۔ مجبوروں اور محتاجوں کو عدل اگر عطا نہ ہوا تو سب منصوبے خواب ہیں اور سب خواب بے ثمر۔
مشکل شاید وہی ہے ، انحصار کی نفسیات ۔ ایوب خان ہی ملک کا بھلا کریں گے ، جنرل محمد ضیاء الحق یا جنرل مشرف ۔ بھٹو ہمارا نجات دہندہ ہے ، اس کی نورِ نظر یا نواسا۔ ایشیا کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری کی خیرہ کن ذہانت گرہ کھولے گی یا قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کا جوشِ عمل ۔ اگر وہ نہیں تو فاتحِ اعظم عمران خان … نیلسن منڈیلا اور مہاتیر محمد کو بھی کپتان مات کر دے گا۔
دس برس کی سلطانیٔ جمہور کے باوجود، سول ادارے اگر اس قابل بھی نہیں کہ ڈھنگ سے پولنگ کا بندوبست ہی کر سکیں تو الیکشن کے بعد وہ کیا بھاڑ جھونکیں گے ۔ اندر بھی اگر فوج ہی ہو گی اور باہر بھی تو قوم کہاں ہو گی ؟ سیاسی پارٹیاں اور سول ادارے کہاں ہوں گے ؟ اللہ نے یہ دنیا کشکول برداروں اور بھک منگوں کے لیے پیدا نہیں کی ۔ کتاب میں یہ لکھا ہے ” لیس للانسان الا ما سعیٰ‘‘ آدمی کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی اس نے تدبیر کی ، سعی کی ، غور و فکر کیا ، خواب دیکھا اور اسے متشکل کرنے میں لگا رہا… اے اہلِ دانش، اے اہلِ دانش!