منتخب کردہ کالم

انسان بھی کتنا ناشکرا ہے!…حسنین جمال

انسان بھی کتنا ناشکرا ہے!…حسنین جمال

میں ایک ایسے کمرے میں رہتا ہوں جس کا سائز دس ضرب دس فٹ ہے۔ میرے پانچ بچے ہیں۔ میرے بھائی اور بہن بھی میری طرف ہی کھانا کھاتے ہیں۔ آپ ذرا میرے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائیں۔ دیواروں کو ہی دیکھ لیں۔ آپ کو بعض جگہ بہت سے اخبار چپکے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ ہمارے گھر کی واحد سجاوٹ ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ معلوم ہے کیا ہوتا ہے؟ دیواروں پہ چلنے والے کیڑے مکوڑے، چھپکلیاں، لال بیگ، کچھ بھی ہو سامنے نظر آ جاتا ہے۔ آپ کم از کم اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔ پھر یہی اخبار دیواروں کے وہ نشان بھی چھپا دیتا ہے جو برسوں سے وہیں جمے ہوئے ہیں۔ میں کچھ عرصے بعد انہی پہ نئے اخبار چپکا دیتا ہوں، میرا کمرہ پھر سے نیا ہو جاتا ہے۔ پھر یہاں دل بھی لگا رہتا ہے۔ میں دو تین جماعتیں پڑھ گیا تھا تو میں تھوڑے بہت حرف جوڑ لیتا ہوں۔ فارغ وقت میں دیواریں پڑھنے کا مزہ آتا ہے۔
اس گھر میں ایک گڑ بڑ ہے۔ ہم کل ملا کے دس لوگ اس ایک کمرے میں رہتے ہیں اور پلنگ ہمارے پاس ایک ہی ہے۔ ہم میں سے کچھ تو جیسے تیسے اسی بیڈ پہ لیٹ جاتے ہیں، کچھ اس پلنگ کے نیچے ٹانگیں سیدھی کر لیتے ہیں۔ تین لوگ ٹانگیں موڑ کے اس میز پہ سو جاتے ہیں جو ہم نے اسی مقصد کے لیے رکھی ہوئی ہے۔ میز کے نیچے بھی ہم نے بستر بچھایا ہوا ہے۔ باقی وہاں لیٹ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس فوم بھی نہیں ہے۔ بس یہ تکیے ہیں اور دو تین چادریں ہیں۔ اسی سامان کو سوتے جاگتے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا بھی ہے گزارہ مزارہ ہو جاتا ہے۔ بس ایک چیز مجھے بہت پریشان کرتی ہے۔ میرے کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں ہے۔ ویسے تو ہم آرام سے رہ ہی لیتے ہیں لیکن اگر ایک کھڑکی ہوتی تو کم از کم بچوں کو تازہ ہوا مل جاتی، ادھر وہ بڑی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ میں اس وجہ سے بہت ڈرتا ہوں کہ بچوں کو یہاں رہتے رہتے کوئی بیماری نہ ہو جائے یا کسی رات وہ گھٹن کا شکار نہ ہو جائیں۔ پرانا پنکھا خراب ہو چکا ہے اور گرمیاں آنے پہ سب سے بڑا خرچہ میرے لیے ایک پنکھا خریدنا ہو گا۔ چار سو روپے دیہاڑی میں آپ کتنا پنکھے کے لیے کتنے پیسے بچا سکتے ہیں؟ لیکن خدا کا شکر ہے بھائی، میں بہت سے لوگوں کے مقابلے میں عزت سے رہتا ہوں۔ مجھے کسی اور سے کچھ مانگنا نہیں پڑتا۔ میرے گھر میں اکثر صبح ناشتہ اور رات کو کھانا بھی نصیب ہو جاتا ہے۔ برابر والے بے چارے تو یہ بھی نہیں کر پاتے۔ میرے پاس یہ موبائل بھی ہے۔ فارغ وقت میں اس پہ ریڈیو سنتا رہتا ہوں، مجھے پتہ لگتا رہتا ہے کہ ملک میں کیا چل رہا ہے۔ اس علاقے میں دو وقت کی روٹی اور موبائل جسے مل جائے وہ خوش نصیب سمجھا جاتا ہے۔
یہ نذیراں کا گھر ہے۔ اس کا باپ دس سال پہلے مر گیا تھا۔ ماں کے ساتھ وہ اس جگہ آئی تھی۔ وہ چار بہن بھائی تھے۔ یہ سب میرے کمرے سے آگے چوتھے کمرے میں رہتے ہیں۔ یہاں آنے کے بعد نذیراں کی ماں نے اس کی شادی ایک کوڑا چننے والے سے کر دی تھی۔ وہ بھی اسی کمرے میں آ کے رہنے لگ گیا تھا۔ شادی کے چند ماہ بعد ہی وہ بیمار پڑ گیا۔ وہ ہر وقت کھانستا رہتا تھا۔ جو دوائیں ہسپتال سے ملتی تھیں وہ ساری کھانے کے بعد بھی اس کی کھانسی نہیں جاتی تھی۔ وہ دوبارہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکا۔ لوگ اسے دور سے دیکھ کے ہی بھاگ جاتے تھے۔ سب جان چکے تھے کہ اسے ٹی بی ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کمرے کی بجائے اسے کسی کھلی جگہ پہ رہنے دو تو شاید یہ بہتر ہو جائے۔ سامنے گلی کافی کھلی تھی۔ چوتھی صبح سردی لگنے سے وہ مر چکا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد لوگ نذیراں کو ملنے سے بھی گھبراتے تھے۔ ٹی بی ان کمروں کی سب سے بدنام بیماری ہے۔ وہ جن گھروں میں کام کرتی تھی آہستہ آہستہ اسے وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔ باقی بہن بھائی جو کما کے لاتے تھے اس میں جیسے تیسے نذیراں اور اس کے دو بچوں کا گزارہ چلتا رہا لیکن وہ غیر محسوس طریقے سے کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے خوراک پہ دھیان دو، پھل فروٹ کھاؤ، ادھر مفت کا کھانا مل جائے بڑی بات ہوتی ہے، پھل فروٹ کدھر سے آتے۔ دو برس پہلے اسے بھی وہی مرض ہو گیا جس میں اس کا شوہر گیا تھا۔ اس کے بچے اب سکول جانے کی عمر میں ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ بچوں کو سکول بھیجو، وہ سکول جائیں گے تو کوڑا کون چنے گا؟ وہ آج کل اپنے باپ والا کام سیکھ رہے ہیں۔ ان کے کمرے میں بھی دیواروں پہ اخبار ہی لگے ہوتے ہیں۔ یہ سجاوٹ ہمارے یہاں سب لوگ کرتے ہیں۔ اس سے سستا اور صاف ستھرا کام کوئی نہیں ہو سکتا۔
نذیراں کے بچوں کا ہاتھ دیوار پہ اوپر نہیں جا رہا تھا۔ وہ چند نئے اخبار لے کے آئے تھے اور انہیں پوری دیوار پہ چپکانا چاہتے تھے۔ گھر میں کوئی اور بڑا نہیں تھا تو وہ مجھے بلا کے لے آئے۔ میں بہت کاہلی سے اٹھا لیکن یہ سوچا کہ شاید کچھ اخبار بچ جائیں گے تو میں اپنے کمرے کے لیے اٹھا لاؤں گا۔ اس خیال سے میرے قدم تیز ہو گئے۔ آٹے سے تیار لئی میں لتھڑے ہوئے ہاتھ لے کے میں تقریباً سارا کام مکمل کر چکا تھا۔ نکلنے سے پہلے میں نے ایک آخری نظر ان دیواروں پہ ڈالی تو ایک تصویر نے مجھے چونکا دیا۔ وہ کسی شادی کی تصویر تھی اور ساتھ امریکی ڈالر کا نوٹ بنا ہوا تھا۔ میں تھوڑا قریب ہو کے دیوار پڑھنے لگا۔ اس میں لکھا تھا کہ میرے علاقے سے نزدیک ہی ایک جگہ ایسی بھی تھی کہ جہاں بارات میں شریک لوگوں نے ڈالر، ریال اور موبائل فون دولہا دلہن پہ نچھاور کیے۔ مجھے اپنی شادی یاد آ گئی۔ اس کمرے میں جہاں اب میں رہتا ہوں، اس وقت بھی وہیں رہتا تھا۔ میرے بہن بھائیوں کو اس رات باہر گلی میں سونا پڑا تھا۔ ایک ڈالر کا نوٹ کیسا ہوتا ہے، میں نے کبھی ہاتھ میں لے کر نہیں دیکھا۔ ریال میں جانتا ہوں کیسے ہوتے ہیں، وہ ایک مرتبہ سامنے والوں کے بیٹے نے مجھے دکھائے تھے۔ اسے پتہ نہیں کس نے دئیے تھے۔
میں اپنے کمرے میں آ چکا ہوں۔ میں بہت شکر ادا کر رہا ہوں کہ قسمت نے یہ اخبار میری دیوار پہ نہیں چپکایا۔ میں نے جب سے وہ خبر پڑھی ہے میرے دماغ میں ایک عجیب سی پریشانی آ گئی ہے۔ اگر وہ دیوار پہ میرے سامنے چپکی ہوتی تو میں شاید سو بھی نہ سکتا۔ میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ سارے ڈالر اور ریال جو وہاں بارات میں پھینکے گئے، ان میں سے آدھے بھی مجھے اور نذیراں کو مل جاتے تو ہم لوگ آج کس حال میں ہوتے۔ میرے گھر میں گوشت پک جاتا، نذیراں کا شوہر شاید کچھ عرصے اور زندہ رہ جاتا، اس کے بچے پڑھ رہے ہوتے، میرے کمرے کی دیواروں پہ چونا ہوا ہوتا، ہم سب فوم کے گدے خرید لیتے، شاید میں کچھ پیسے بچا کے اپنا پنکھا بھی خرید لیتا۔ اگر یہ پیسے پھر بھی بچ جاتے تو میں کھڑکی کے بجائے چھت کی طرف کوئی روشن دان نکالنے پہ بھی غور کر سکتا تھا۔ لوگوں کے پاس اس سے بھی زیادہ پیسے واقعی ہوتے ہیں کہ وہ فوم خرید لیں، کھڑکی بنا لیں، چونا کروا لیں، گوشت پکا لیں، دوائیں خرید لیں، بچے پڑھا لیں اور پھر بھی پیسے بچ جائیں؟ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے؟ کوئی اتنا زیادہ کیسے کما سکتا ہے؟ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو میں ان آدمیوں میں کیوں نہیں تھا؟ قسمت میری طرف آ کے ہی خراب کیوں ہو گئی؟
جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا، میں شکر ادا کر رہا ہوں کہ وہ اخبار میری دیوار پہ نہیں لگا ہوا، وہ ادھر نذیراں والے کمرے میں ہے اور اس کی طرف پڑھنا کوئی نہیں جانتا۔ وہ اخبار اگر مستقل یہاں ہوتا تو میں پتہ نہیں ناشکری میں کیا کیا بات کر جاتا۔ حافظ جی کہتے ہیں انسان کو اپنے حال پہ خوش رہنا چاہئے۔ دو وقت کا کھانا مل جائے اور گھر والی ساتھ ہو تو بس شکر کرو، ورنہ یہ سب بھی چھن سکتا ہے۔ میں اپنے حال پہ دوبارہ خوش ہونے جا رہا ہوں لیکن نذیراں کے کمرے سے وہ اخبار کل میں پھاڑ کے پھینک دوں گا۔ کیا خبر کوئی اور حرف جوڑنے والا ادھر آ پہنچا تو اس کی ناشکری کا گناہ بھی میرے سر ہو گا۔ توبہ توبہ۔ انسان بھی کس قدر ناشکرا ہے