انصاف کرنے کا حق….مجیب الرحمٰن شامی
پاکستان میں پہلے عام انتخابات اس کے قیام کے تیرہ سال بعد 1970ء میں منعقد ہوئے تھے۔ پچاس کی دہائی میں صوبوں میں تو ان کا انعقاد ہوا، لیکن مرکز تک نوبت نہیں پہنچی۔ دستور سازی کا عمل مکمل نہ ہو سکا اور یوں معاملہ لٹکتا چلا گیا۔ اگر دستور جلد بن جاتا اور انتخابات ہر پانچ سال کے بعد ہوتے چلے جاتے تو آج ہماری سیاست یکسر مختلف ہوتی۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 1954ء میں جب (خدا خدا کر کے) دستور سازی کا عمل مکمل ہوا اور دستوری مسودے کی پہلی خواندگی بھی ہو گئی تو یہ الزام لگا کر دستور ساز اسمبلی کو توڑ دیا گیا کہ یہ سات سال کے دوران دستور نہیں بنا سکی۔ 54ء کا دستور‘ جو محمد علی بوگرہ مرحوم کی وزارت عظمیٰ کے دوران مرتب ہوا، پاکستان کے جغرافیائی اور سماجی حالات میں بہترین تھا۔ آج بھی اسے پڑھئے تو سر دھننا پڑتا ہے۔ اس میں صوبوں اور ریاستوں کا الگ تشخص بھی برقرار تھا۔ آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے کو نمائندگی بھی حاصل تھی اور دو ایوانی مقننہ کے ذریعے طاقت کا توازن بھی قائم رکھا گیا تھا۔ مشرقی بنگال کی عددی اکثریت ایوانِ زیریں میں موجود تھی، لیکن ایوانِ بالا میں وہ دوسرے چار صوبوں کی طرح ایک صوبے کے طور پر نمائندگی رکھتا تھا۔ دونوں ایوان مل کر مشرق اور مغرب کے درمیان مساوات (Parity) قائم کر دیتے تھے۔ ایوان زیریں کے ارکان کی تعداد 300 تھی، جس میں مغربی اور مشرقی ارکان بالترتیب 135 اور 165 تھے۔ ایوانِ بالا میں ہر صوبے کے دس ارکان تناسب 40 اور 10 بنا دیتے تھے۔ مشترکہ ایوان میں دونوں خطے 175 کے ہندسے میں ڈھل کر مغربی صوبوں کو مشرقی صوبے کی بالا دستی سے تحفظ فراہم کرتے تھے۔ بہاول پور، خیر پور اور کئی دوسری ریاستوں کا وجود بھی قائم تھا۔ بد قسمتی سے گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی کو توڑ دیا۔ اسے اس کا کوئی حق حاصل نہیں تھا، وہ قانونی طور پر تاجِ برطانیہ کا نمائندہ تھا، جبکہ دستوریہ عوام کے ان منتخب نمائندوں پر مشتمل تھی، جن کے ہاتھوں پاکستان کی نئی ریاست نے جنم لیا تھا، گویا انہیں مجموعی طور پر بانیانِ پاکستان کہا جا سکتا تھا۔ وفاقی عدالت نے گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ دے کر پاکستان میں فردِ واحد کی بالا دستی کی ابتدا کر دی اور ایک ایسا فیصلہ سنایا جسے ایک سیاہ دستاویز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان کی آزادی کا مذاق اڑایا اور قانونی بابوئوں نے اسے غلامی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ پاکستان کی آئندہ سیاست کو مسخ کرنے میں اس فیصلے کا بنیادی کردار تھا، اس سے فردِ واحد کی پوجا کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو کسی نہ کسی رنگ میں آج بھی جاری ہے اور پارلیمنٹ کا رعب قائم کرنے میں رکاوٹ بنا رہتا ہے۔
پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے بعد گورنر جنرل اپنی مرضی کا آئین دینے کے لئے کوشاں تھا کہ عدالت کے ضمیر نے آنکھیں کھولیں اور اسے مجبور کیا کہ نئی دستوریہ کا انتخاب کرائے۔ پہلی دستوریہ کی طرح اس کا حلقۂ انتخاب بھی صوبائی اسمبلیاں قرار پائیں۔ چودھری محمد علی کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران 1956ء میں بالآخر دستور تیار ہو گیا۔ مشرقی حصے سے شیرِ بنگال مولوی فضل الحق ان کے اتحادی تھے اور اس دستور کے خالقوں میں شامل۔ چودھری صاحب مولوی صاحب کو پاکستان کا پہلا صدر بنوانا چاہتے تھے، لیکن دستوریہ کی تحلیل پر مہر تصدیق ثبت کرنے والے فیصلے نے ان کے ہاتھ باندھ دیئے۔ وفاقی عدالت نے دستوری بل پر گورنر جنرل کے دستخط لازم قرار دے دیئے تھے۔ میجر جنرل اسکندر مرزا گورنر جنرل تھے اور خدشہ تھا کہ اگر ان کو صدر نہ بنایا گیا تو وہ دستوری مسودے میں مین میخ نکال کر اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیں گے۔ نتیجتاً یہ عہدہ ان کے حصے میں آ گیا۔ 1956ء کا دستور نافذ ہوا۔ بعد ازاں حسین شہید سہروردی اس کے تحت وزیر اعظم بنے اور یوں مشرقی حصے میں بھی اس پر اجماع ہو گیا۔ اس کے تحت فروری 1959ء میں انتخابات کا انعقاد ہونا تھا کہ اکتوبر 1958ء میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
نا تجربہ کار سیاست دانوں نے جنرل ایوب خان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر کے انہیں اپنی جڑیں مضبوط کرنے اور قوم کی مسیحائی کے خبط میں مبتلا ہونے کا موقع دے دیا۔ وہ اس بات کا ادراک نہ کر پائے کہ ان کا حقِ حکمرانی ختم کیا جا سکتا ہے۔ طاقت مملکت کے بنیادی قانون کو ٹھوکر پر رکھ سکتی ہے۔ وہ دن جانے اور آج کا آئے، پاکستان میں طاقت اس اس طرح اپنا اظہار کرتی اور اس اس طرح کے بھیس بدل کر وار کرتی ہے کہ الحفیظ و الامان… بعد از خرابیٔ بسیار بننے والے 1973ء کے دستور میں دستور شکنی کی سزا موت رکھنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو مطمئن ہو کر بیٹھ گئے تھے کہ اب طاقت کو ہمیشہ کے لئے قانون کے تابع کر دیا گیا ہے، اس لئے چین کی بانسری جس جس طرح چاہو بجائو۔ اس کا خمیازہ انہوں نے بھگتا۔ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اپنا پرانا کردار دہرایا‘ اور تاریخ نے کئی کروٹیں لے لیں۔
1999ء میں نواز شریف اس خیال میں تھے کہ سپریم کورٹ آئین کا تحفظ کرے گی۔ آئین توڑنے والے نے عدالت ہی توڑ ڈالی، سینئر ججوںکو نکال باہر کیا اور نئی عدالت بنا کر اپنے حق میں مہر لگوا لی۔ 2007ء میں تاریخ الٹی گئی اور جنرل پرویز مشرف کو ججوں سے الجھائو مہنگا پڑا، لیکن پھر طاقت نے بھیس بدل لیا۔ گوریلا کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ ملک میں انتخاب ہو رہے ہیں، امیدواروں کی فہرستیں حتمی شکل اختیار کر چکیں۔ یومِ انتخاب میں ایک ماہ سے کم مدت رہ گئی… لیکن نہ نیب کی کارروائیاں تھمنے میں آ رہی ہیں، نہ عدالتوں میں درخواستیں دائر کرنے والوں کو چین آ رہا ہے، نہ ان کی سماعتیں رک رہی ہیں۔ ایک سے ایک نکتہ نکالا جا رہا ہے۔ نا اہلیاں جاری ہیں، گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ٹیلی فون کھڑک رہے ہیں، دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ مذہب کے نام پر انتخابی جتھے بن رہے ہیں، ٹکٹ واپس دلائے جا رہے ہیں۔ آزاد امیدواروں کی بھرمار ہے۔ ”قابلِ انتخاب‘‘ مہروں کو اس طرح اٹھایا بٹھایا، لٹایا جا رہا ہے کہ وہ خود چکرا کر رہ گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی سمجھ میں کچھ آ رہا ہے، نہ تحریک انصاف اپنے آپ کو سمجھ پا رہی ہے۔ ع
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
آنکھیں اب 25 جولائی کے پار دیکھنے کی کوشش میں ہیں۔ خدشے اور وسوسے، ڈس رہے ہیں۔ ع
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
کئی نامی گرامی تبصرہ نگار معلق پارلیمنٹ کی نوید سنا رہے ہیں، کئی نئے کرداروں کے ساتھ پرانے ہتھکنڈوںکی دھمک سن رہے ہیں۔ یومِ انتخاب کو یومِ احتساب کہا جاتا ہے کہ اس دن عوام اپنے نمائندوں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ دھوکہ دینے والوں کو گردن سے پکڑتے اور خدمت کرنے والوں کو مالا مال کر دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان فیصلہ کرنے، بلکہ دونوں کے ساتھ انصاف کرنے کا حق عوام ہی کے پاس رہنا چاہیے۔
جس کا کام اسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔
]یہ کالم روزنامہ ”دنیا‘‘ اور روزنامہ ”پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے[