منتخب کردہ کالم

انقلاب کے خواب … بلال غوری

انقلاب کے خواب … بلال غوری

پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ملک میں بیک وقت دو وزرائے اعظم ہیں۔ ایک نومنتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دوسرے نااہل قرار دیئے گئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کیونکہ وہ خود کو اب دلوں کا وزیر اعظم کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں مروجہ سیاست کا کمال یہ ہے کہ یہاں کبھی کسی کو شکست نہیں ہوتی۔ اگر کوئی امیدوار سرتوڑ کوشش کے باوجود الیکشن میں ہار جائے تو اس کے چاہنے والے بدترین شکست سے دوچار ہونے کے باوجود یہ کہتے ہوئے بھنگڑے ڈالنے لگتے ہیں کہ ہمارے مخالفین نے الیکشن جیتا‘ مگر ہم عوام کے دل جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب اصل فاتح تو وہی ہوا ناں جس نے دلوں کو مسخر کیا۔ اب ایسی نرالی سیاسی منطق پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ ایک اور دلچسپ مگر انوکھی اصطلاح ہے بیس کروڑ عوام کی۔ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ جیتنے والی تانگہ پارٹیوں کے سربراہ بھی کسی پس و پیش کے بغیر بلا تردد اور ببانگ دہل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بیس کروڑ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ سیاست کے بازار میں بیک وقت ایسے بیسیوں دعویداروں کی موجودگی سے محکمہ شماریات والے بھی کنفیوز ہو جاتے ہیں کہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تخمینہ لگانے میں کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی کیونکہ اگر ہر ایک لیڈر کے ساتھ بیس کروڑ عوام ہیں تو پھر پاکستان کی آبادی تو دو ارب سے بھی متجاوز ہو گئی ہو گی۔ خود عوام کو ایسے طرحدار بیانات کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دراصل کس کس کے ساتھ ہیں۔
اگر آپ اپنی لڑائی سیاست کے میدان سے احاطہ عدالت لے جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب وکلا کی قانونی موشگافیوں کے رحم و کرم پر ہیں تو بھی پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ عدالت کوئی بھی فیصلہ صادر کرے، مٹھائیوں کے ٹوکرے تیار رکھیں کیونکہ ہر دو صورتوں میں جیت آپ کی ہی ہو گی۔ اگر تو عدالت سے آپ کے حق میں فیصلہ آ گیا تو وارے نیارے، ناں
بھی آئے تو کچھ نہیں ہارے۔ آپ سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ ایک فیصلہ ان معزز جج صاحبان نے دیا ہے مگر ایک فیصلہ مورخین دیں گے، ایک فیصلہ عوام کا ہو گا، یقینا یہ عوامی اور تاریخی فیصلے ہمارے حق میں ہوں گے۔ اگر اس تاویل سے بھی کارکنوں کی تسلی اور تشفی نہ ہو تو اخلاقی فتح کی صورت میں ایک اور زوردار اور اثر آفریں منطق حاضر خدمت ہے۔ اگر قانونی فیصلہ آپ کے سیاسی مخالفین کے حق میں آیا ہے تو آپ بلا تاخیر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ کو اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے کیونکہ اخلاقی فتح کی تردید کہاں سے آئے گی بھلا۔ جس طرح آلو ایسی سدا بہار سبزی ہے کہ اسے کسی بھی دوسری سبزی، گوشت یا چاول کے ساتھ پکایا جا سکتا ہے، اسی طرح کسی بھی قانونی یا سیاسی میدان میں شکست کی صورت میں اپنے ہیٹ سے اخلاقی فتح کا کبوتر برآمد کرکے عزت بچائی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ انتخابات میں ضمانت ضبط ہو جانے پر بھی اخلاقی فتح کا ڈھنڈورا پیٹا جا سکتا ہے۔
سیاست گری میں بہت سی اصطلاحات اور کئی الفاظ بے معنی ہونے کے بعد اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر وسیع تر قومی مفاد کا لفظ رفتہ رفتہ لطیفہ گوئی کی سطح پر آ گیا۔ ملکی یا قومی سلامتی کو ایسے گرگٹ میں بدل دیا گیا جو ضرورت پڑنے پر کوئی بھی شکل اختیار کر سکتا ہے، نظریاتی سرحدوں نے غیر معمولی اور غیرمتوقع وسعت اختیار کر لی اور جمہوریت کو یوں موم کی ناک بنا دیا گیا جسے اپنی مرضی سے تروڑ مروڑ کر پیش کیا جا سکتا ہے، مگر جو بے توقیری ”انقلاب‘‘ کے حصے میں آئی، وہ شاید ہی کسی اور لفظ کا مقدر بنی ہو۔ نواز شریف صاحب کی نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے پر میں اپنے رائے کا برملا اظہار کر چکا ہوں‘ مگر تکلف برطرف جب نواز شریف جیسے لوگ انقلاب کے خواب بیچنے لگیں تو اسے سال کا سب سے بڑا لطیفہ کیوں نہ سمجھا جائے۔ ظلم کی چکی میں پستا عام آدمی تو سالہا سال سے یہ دہائی دے رہا ہے کہ یہ نظام گل سڑ چکا ہے، اس سسٹم میں محض دولت، طاقت، دھونس اور دھاندلی سے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے‘ لہٰذا ملک کی تقدیر بدلنا ہے تو اس نظام کو بدلا جائے۔ جب دھرنوں کے دوران شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری نے اچانک پانسہ پلٹ کر انقلاب کا راگ الاپنا شروع کیا تو حسب توقع میڈیا نے اس کا مذاق اڑایا اور عوام نے بھی اسے چھوٹے اور بڑے ”انقلاب‘‘ سے تشبیہ دے کر دل کی بھڑاس خوب نکالی۔ ارباب سیاست کی مضحکہ خیزی ملاحظہ کیجئے کہ شیخ رشید سے مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری سے نواز شریف تک سب انقلاب کے خواہاں ہیں، سب متفق ہیں کہ اس ظالمانہ نظام سے نجات حاصل کی جائے۔ سراج الحق سے عمران خان اور اسفند یار ولی سے محمود اچکزئی تک سب کا اجماع ہے اس بات پر کہ سسٹم کو بیخ و بن سے اکھاڑے بغیر معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تو اٹھتے بیٹھتے حبیب جالب کے انقلاب آفریں اشعار سے لوگوں کے دل گرماتے رہتے ہیں اور یہاں تک کہ خونیں انقلاب کی نوید دے چکے ہیں۔ اور اب میاں نواز شریف قوم کو انقلاب کے خواب دکھا رہے ہیں۔ خاکم بدہن کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جسے انقلاب کی بات زیب دیتی ہو؟ یا تو ان سب کے ہاں انقلاب کی تعریف الگ الگ ہے یا پھر یہ رہنمایانِ قوم اپنی سیاست چمکانے اور ہتھیلی پر سرسوں اگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آصف زرداری سندھ کے مختارِ کُل ہیں، خیبر پختونخوا کی باگ ڈور جناب عمران خان کے ہاتھ میں ہے، محمود اچکزئی کے بھائی بلوچستان کے گورنر ہیں اور ان کا پورا خاندان اہم عہدوں پر متمکن ہے، پنجاب میں شہباز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ ہیں اور ان کا دورِ اقتدار لگ بھگ 12 سال پر محیط ہے، وفاق میں میاں نواز شریف کا نامزد کردہ شخص وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہے اور وہ خود نہ صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے بلکہ عوام نے تین مرتبہ انہیں انقلاب برپا کرنے کا مینڈیٹ بھی دیا۔ سراج الحق کی جماعت اسلامی نے ضیاء الحق کے دور میں وزارتیں لیں، پرویز مشرف کے دور میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے صوبائی حکومت چلائی اور اب بھی خیبر پختونخوا میں شریک اقتدار ہے۔ شیخ رشید احمد نواز شریف کے دور میں وفاقی وزیر تھے اور پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بھی اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ مولانا فضل الرحمان ہر دور میں شریک اقتدار رہے تو یہ سب آخر کس کے خلاف انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں؟ کیا انہیں معلوم بھی ہے کہ انقلاب کس چڑیا کا نام ہے؟ عوام بھی انقلاب چاہتے ہیں، حکام بھی انقلاب کی بات کرتے ہیں تو پھر رکاوٹ کیا ہے؟
طرفہ تماشہ دیکھیں کہ جو اس نظام کے پتھارے دار ہیں، جن کی روزی روٹی اس نظام سے وابستہ ہے، وہ بھی سسٹم بدلنے کا منجن بیچ رہے ہیں۔ عوام جن کے خلاف انقلاب برپا کرنے کا سوچ رہے ہیں، وہ خود انقلاب کے خواب بیچ رہے ہیں۔ جو اقتدار سے رُخصت ہو گئے اور جو اقتدار میں آنے کے خواہش مند ہیں، ان سب نے بازار سیاست میں انقلاب کی دکانیں سجا رکھی ہیں اور تمام دکانوں پر ایک ہی بورڈ آویزاں ہے ”انقلاب کے خواب، سب سے قدیمی اور اصلی دکان‘‘۔

طرفہ تماشہ دیکھیں کہ جو اس نظام کے پتھارے دار ہیں، جن کی روزی روٹی اس نظام سے وابستہ ہے، وہ بھی سسٹم بدلنے کا منجن بیچ رہے ہیں۔ عوام جن کے خلاف انقلاب برپا کرنے کا سوچ رہے ہیں، وہ خود انقلاب کے خواب بیچ رہے ہیں۔ جو اقتدار سے رُخصت ہو گئے اور جو اقتدار میں آنے کے خواہش مند ہیں، ان سب نے بازار سیاست میں انقلاب کی دکانیں سجا رکھی ہیں اور تمام دکانوں پر ایک ہی بورڈ آویزاں ہے ”انقلاب کے خواب، سب سے قدیمی اور اصلی دکان‘‘۔
….
اگلا کالم … منیر بلوچ