منتخب کردہ کالم

انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا سہرا ؟…مرزا اشتیاق بیگ

انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا سہرا ؟

انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا سہرا ؟…مرزا اشتیاق بیگ

یہ کوئی زیادہ عرصے پہلے کی بات نہیں جب کراچی کا شمار دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں ہوتا تھا، شہر میں دہشت گردی کے واقعات، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور ہڑتالیں روز کا معمول تھیں، شہر کو منٹوں میں یرغمال بناکر دکانیں و کاروبار بند کروادیا جاتا تھا، کراچی کے شہری جب صبح گھر سے نکلتے تو اُنہیں یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ شام کو بخیریت واپس لوٹیں گے، شام ہوتے ہی کراچی کی سڑکیں سنسان ہوجاتی تھیں مگر گزشتہ دنوں پوری دنیا نے اِسی لہولہان کراچی کو نئے روپ میں دیکھا جہاں جشن اور میلے کا سماں تھا، یہ میلہ پاکستان سپر لیگ (PSL) فائنل میچ کا تھا جس میں شرکت کیلئے پورے پاکستان سے لوگ کراچی آئے۔ اس موقع پر کراچی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا، شہر بھر میں پی ایس ایل کے ہورڈنگز، بینرز اور کھلاڑیوں کے قد آور پوسٹرز آویزاں کئے گئے تھے۔
میچ سے ایک رات پہلے کراچی میں چاند رات کا سماں تھا، لوگ بڑی تعداد میں بلاخوف و خطر اپنے گھروں سے پیدل اور گاڑیوں میں شہر کی رونقیں دیکھنے کیلئے نکلے اور اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے پوسٹرز کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے مگر ساتھ ہی بے یقینی کا شکار کراچی کے کچھ شہری ایک دوسرے کی طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ کیا کراچی کی رونقیں واقعی واپس لوٹ آئی ہیں؟ پی ایس ایل

فائنل کا دن بھی کسی عید کے دن سے کم نہ تھا۔ کراچی کے مختلف علاقوں بالخصوص وہ علاقے جو کبھی نوگوایریاز تصور کئے جاتے تھے، سے سینکڑوں خواتین کرکٹ کیپ پہنے اور ہاتھوں میں جھنڈیاں اٹھائے نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی طرف رواں دواں تھیں جو پی ایس ایل فائنل میں شرکت کرکے اس تاریخی دن کا حصہ بننا چاہتی تھیں اور آج انہوں نے اپنے ذہنوں سے اُس خوف کو نکال پھینکا تھا جس کا وہ ماضی میں کئی عشرے تک شکار رہی تھیں۔ کرکٹ کا جنون اِس حد تک تھا کہ لوگوں نے 1,000روپے کا ٹکٹ 10,000روپے اور 12,000روپے کا وی آئی پی ٹکٹ 50,000 روپے میں بلیک میں خریدا۔
کرکٹ سے میری دلچسپی کی ایک وجہ میرے بہنوئی سابق ٹیسٹ کرکٹر سلیم یوسف بھی ہیں جن کا شمار ملک کے معروف وکٹ کیپر بیٹسمینوں میں ہوتا تھا اور اکثر اُن کے ساتھ دوسرے ٹیسٹ کرکٹرز سے بھی ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں بھی پی ایس ایل فائنل کے تاریخی دن کا حصہ تھا اور اپنے بھائی اختیار بیگ، بھابھی اور فیملی کے دوسرے افراد کے ہمراہ اسٹیڈیم میں موجود تھا جہاں مجھ سمیت ہزاروں شہریوں کی موجودگی دہشت گردوں کو پیغام دے رہی تھی کہ آج ہم اُن کے خوف سے آزاد ہوگئے ہیں۔ 33,000 ہزار افراد کی گنجائش رکھنے والا نیشنل اسٹیڈیم لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، آج یہاں فیسٹیول کا سماں تھا، پاکستان کے ہر صوبے اور شہروں کے ہر عمر کے افراد کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی اسٹیڈیم میں موجود تھی جو میچ دیکھنے کیلئے بیرون ملک سے خصوصی طور پر اپنے وطن آئے تھے۔ میری برابر والی نشست پر براجمان ایک فیملی نے بتایاکہ وہ میچ دیکھنے کیلئے لندن سے خصوصی طور پر کراچی آئے ہیں۔ میچ دیکھنے کیلئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، گورنر سندھ محمد زبیر، گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ار وفاقی وزراء بھی اسٹیڈیم میں موجود تھے لیکن تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جن کی وجہ شہرت کرکٹ ہے، نے فائنل میچ میں شرکت کرنا ضروری نہ سمجھا حالانکہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اُنہیں خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان سپر لیگ (PSL) بھارت کی انڈین پریمیر لیگ (IPL) کے مقابلے میں زیادہ کامیاب جارہی ہے اور پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی مقبول ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ کراچی میں ہونے والا پاکستان سپر لیگ کا فائنل بھارت میں کئی ٹی وی چینلز نے براہ راست نشر کیا۔ کرکٹ ویب سائٹ ’’آن لائن کرکٹ‘‘ کے مطابق بھارت میں پی ایس ایل کا فائنل 28 فیصد بھارتی شہریوں نے ٹی وی چینلز پر براہ راست دیکھا جبکہ پاکستان میں یہ شرح 21 فیصد رہی جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور یہ ریکارڈ آج تک کسی پاکستانی نشریات کو حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، یورپ اور خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے پی ایس ایل فائنل میچ ٹی وی چینلز پر براہ راست دیکھا۔
آرمی پبلک اسکول پشاور کا جب سانحہ پیش آیا تو خوف سے نہ مائوں نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چھوڑا اور نہ ہی مسجدوں پر خود کش حملوں کی وجہ سے کسی نے نماز پڑھنا چھوڑی کیونکہ ہم کبھی دہشت گردوں سے خوفزدہ نہیں ہوئے اور پی ایس ایل فائنل کا کراچی میں کامیاب انعقاد بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی جس نے پوری دنیا کو بتادیا کہ پاکستانی قوم دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے خوفزدہ ہونے والی نہیں۔ پی ایس ایل فائنل میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی فتح کسی ٹیم کی نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی فتح ہے جس میں سب سے بڑا فاتح کراچی بن کر ابھرا جو ماضی میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار تھا اور یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کبھی کراچی میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس لوٹے گی۔ پی ایس ایل میچز کا کراچی اور لاہور میں کامیابی سے انعقاد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی میں اہم کردار ادا کررہی ہے اور پی ایس ایل فائنل کے فوراً بعد ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے ساتھ پاکستان کے تین ٹی ٹوئنٹی میچز کا کامیابی سے انعقاد اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب دنیا کی دیگر کرکٹ ٹیمیں بھی پاکستان آئیں گی۔ اب جبکہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز ہوچکا ہے، ضرورت اِس امر کی ہے کہ آئندہ پی ایس ایل میچز پاکستان کے اُن تمام بڑے شہروں میں منعقد کئے جائیں جن کے نام سے پی ایس ایل ٹیمیں منسوب ہیں کیونکہ پی ایس ایل اِسی کا نام ہے۔کراچی میں پی ایس ایل فائنل میچ کے کامیابی سے انعقاد پر حکومت سندھ، پاکستان کرکٹ بورڈ اور سیکورٹی فورسز یقیناََمبارکباد کی مستحق ہیں لیکن میرے نزدیک خراج تحسین کے اصل حقدار مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف ہیں جن کی بدولت کراچی میں پی ایس ایل فائنل اور بعد ازاں ویسٹ انڈیز کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز کا انعقاد ممکن ہوا مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ وہ شخص جسے کراچی میں امن و امان قائم کرنے اور شہر کی رونقیں واپس لانے کا سہرا جاتا ہے، آج اپنی بیٹی کے ساتھ عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ کچھ مخالفین کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان رینجرز کی مرہون منت ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رینجرز تو جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کے دور میں بھی تھی تو اُس وقت کراچی میں امن قائم کیوں نہیں ہوا؟ کاش کہ نواز شریف کی خدمات کے صلے میں اُنہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے کراچی اور نیشنل اسٹیڈیم میں اُن کے ہورڈنگز بھی نصب کئے جاتے جن پر تحریر ہوتا کہ ’’پی ایس ایل فائنل کے کراچی میں انعقاد کے اصل ہیرو نواز شریف‘‘ اور ’’امن و امان بحال کرنے پر کراچی کے شہری نواز شریف کے احسان مند ہیں۔‘‘