’’انٹرویو‘‘ کے بعد۔۔۔۔۔رئوف طاہر
ہمارا خیال تھا کہ نااہل وزیر اعظم اب چند روز میڈیا (اور عوام) کا سامنا کرنے سے گریز کریں گے۔ اُدھر انڈین میڈیا نے (حسبِ معمول اور حسبِ عادت) آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ اِدھر اپنے ہاں بھی ایک ہنگامہ سا برپا تھا۔ زندہ باد، مردہ باد ریلیاں اور غداری کے الزام میں مختلف شہروں میں ایف آئی آرز۔ مخالفین کو ایسا موقع خدا دے؛ چنانچہ وہ بھی زبان و بیان کی تلواریں لہراتے میدان میں اتر آئے ۔ بنی گالہ میں عمران خان نے پریس کانفرنس بلائی اور مطالبہ کیا کہ سابق وزیر اعظم کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور ان کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے۔ پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کے دیگر قائدین بھی موجود تھے۔ ایسے میں عموماً کرسیوں کی ترتیب پارٹی پروٹوکول کے حساب سے ہوتی ہے‘ لیکن یہاں خان کے دائیں ہاتھ ملک غلام مصطفیٰ کھر تھے اور ان کے بعد شاہ محمود قریشی۔ ملتان کے سجادہ نشین کی خود پسندی، خود پرستی کی حد تک جا پہنچتی ہے۔ وہ اپنے مقام و مرتبے کے حوالے سے ہمیشہ بہت حساس رہے ہیں۔ بعض لوگ اسے احساس کمتری اور احساس عدم تحفظ کا نام بھی دیتے ہیں۔ جاوید ہاشمی جب تک تحریک انصاف میں رہے‘ ملتان کے مخدوم کا یہ احساس بہت شدید اور سنگین رہا۔ یہ مسئلہ جہانگیر ترین کے حوالے سے بھی رہتا۔ ہاشمی 2014ء کے دھرنوں میں سازش کی بو پا کر علیحدہ ہو گئے، قریشی صاحب کے لئے یہ سکھ کی گھڑی تھی۔ جہانگیر ترین 62/1/F کا شکار ہو گئے۔ اب وہ پی ٹی آئی کی مستقبل کی حکومت میں قریشی صاحب کے حریف نہیں، لیکن پارٹی میں ان کے مرتبے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ان کے نام سے سیکرٹری جنرل کا سابقہ یا لاحقہ ہٹ گیا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ گاندھی جی تو کانگریس کے دو آنے کے ممبر بھی نہیں رہے تھے۔ اس روز ترین صاحب یقینا اسلام آباد میں نہیں ہوں گے۔ ورنہ خان کے بائیں شفقت محمود کی جگہ ہوتے۔
کھر صاحب کی یاد اپنے ساتھ کیا کچھ نہیں لاتی۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد، بھٹو کے نئے پاکستان میں سب سے بڑے صوبے کے گورنر۔ یہ ان کا عہدِ شباب تھا اور اپوزیشن کی قیادت اور کارکن ان کے عتاب کا خصوصی نشانہ۔ جاوید ہاشمی اور ان کے نوجوان ساتھی ستم رسیدگان میں سرفہرست تھے۔ شاعر نے تو کسی اور مفہوم میں کہا تھا؎
ان کے عہدِ شباب میں جینا
جینے والو! تمہیں ہوا کیا ہے
لیکن نوجوان کھر کے عہد میں سیاسی کارکنوں کے لئے زندگی واقعی عذاب ہو گئی تھی۔ کھر کی سیاست (خصوصاً ان کا عہدِ ستم) پوری کتاب کا موضوع ہے۔ بھٹو سے Love And Hate ریلیشن شپ، ادلتی بدلتی سیاسی وفاداریاں، بھٹو کی صاحبزادی کی کبھی حمایت، کبھی مخالفت۔ پھر ایسا وقت بھی آیا جب شہباز صاحب کے ساتھ ان کی گاڑھی چھنتی تھی۔ خان کی پریس کانفرنس میں وہ ایک اور حوالے سے یاد آئے۔ پانچ جولائی 1977ء کے بعد وہ جرنیلوں کو چکمہ دے کر بیرون ملک چلے گئے تھے کہ بھٹو کے بہت سے راز باہر پڑے ہیں۔ وہ انہیں یہ راز لانے کا موقع دیں تو بھٹو کو کیفر کردار تک پہنچانا آسان ہو گا۔ پھر جرنیل ان کا انتظار ہی کرتے رہے۔ مرتضیٰ اور شاہنواز نے باپ کے ”قتل‘‘ کا انتقام لینے کے لئے ”الذوالفقار‘‘ بنائی تو کھر ان کے ساتھ ہو لئے۔ (محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر نے کبھی ”الذوالفقار‘‘ اور اس کی سرگرمیوں کو ”اون‘‘ نہ کیا) پی آئی اے کے طیارے کے اغوا سے چودھری ظہور الٰہی کے قتل تک ”الذوالفقار‘‘ تمام کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی۔ وسائل کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ لیبیا اور شام نے کسی چیز کی کمی نہ آنے دی۔ ایک موقع پر مرتضیٰ ہندوستان آئے۔ کھر بھی ساتھ تھے۔ اخبار نویسوں نے پوچھا: کیا آپ پاکستان بھی جائیں گے؟ کھر آن ریکارڈ ہیں کہ ”ہندوستانی ٹینکوں پر بیٹھ کر جائیں گے‘‘۔ تب ضیاء الحق اور ان کے رفقا کھر کا نام تک سننا گوارا نہ کرتے۔ جتوئی صاحب مرحوم نے جرنیلوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر لئے تھے۔ (17 اگست کا سانحہ نہ ہو جاتا، تو ایک آدھ دن میں وہ نگران وزیر اعظم کا حلف اٹھانے والے تھے) لیکن کھر کے لئے معافی تلافی کی صورت وہ بھی پیدا نہ کر سکے۔ وہ تو بہت بعد میں ان کے لئے گنجائش پیدا ہوئی۔ ضیاء الحق کے بعد نئے سیاسی/ جمہوری عمل کا آغاز ہوا تو مرتضیٰ بھٹو بھی وطن لوٹ آئے اور آئین پاکستان سے وفاداری کے عہد کے ساتھ نئی سیاست کا آغاز کیا۔ ماں کی ہمدردیاں بیٹی کے مقابل بیٹے کے ساتھ تھیں۔ مرتضیٰ ایک بڑے سیاسی کردار کے لئے کوشاں تھے کہ خود اپنی بہن کے عہدِ اقتدار میں قتل کر دیئے گئے۔
عمران خان، اپنے سخت جان سیاسی حریف کے خلاف غداری کے مقدمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہمیں بھارتی صحافی کرن تھاپر سے خان کا طویل انٹرویو یاد آیا۔ مسئلہ کشمیر پر ان کا مختلف مؤقف، اپنے بھارتی دوستوں کے صدقے واری جانے کی باتیں، کیا کچھ اس انٹرویو میں نہ تھا۔ ایک مرحلے پر شیریں مزاری کا ذکر ہوا، جو ان دنوں انڈیا کے خلاف خاصی تلخ ترش باتیں کیا کرتی تھیں، تو خان کا کہنا تھا، وزیر اعظم میں ہوں گا، تو پالیسی بھی میری ہو گی‘ شیریں مزاری کی نہیں۔
سوموار کی دوپہر نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا (باضابطہ) رد عمل سامنے آ چکا تھا۔ نیب کورٹ کے باہر سابق وزیر اعظم حسبِ معمول میڈیا کے سامنے تھے۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے رد عمل کے حوالے سے سوال پر جیب سے موبائل فون نکالا اور انٹرویو کی ”متنازع‘‘ سطور پڑھنا شروع کیں۔ چالیس پنتالیس الفاظ پر مشتمل اس گفتگو میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پچاس ہزار سے زائد جانوں کی قربانی کے ذکر کے ساتھ سوال کہ اس سب کے باوجود دنیا ہمارا بیانیہ کیوں قبول نہیں کرتی؟ افغانستان کا بیانیہ جسے قبول ہے، پاکستان کا نہیں۔ اور پھر نان سٹیٹ ایکٹرز پر مشتمل ملی ٹینٹ تنظیموں اور ممبئی حملے کا ذکر۔ معزول وزیر اعظم کا کہنا تھا: کیا نئی بات ہے جو میں نے کہی؟ یہی کچھ تو جنرل پرویز مشرف، جنرل شجاع پاشا، جنرل محمود درانی اور رحمن ملک بھی کہتے رہے ہیں۔
اسی شام بونیر میں جلسہ عام تھا۔ ہم پھر ”خوش گمانی‘‘ کا شکار تھے کہ نواز شریف یہاں کچھ لیپا پوتی کا اہتمام کریں گے۔ اس سے پہلے مریم اپنے خطاب میں سابق وزیر اعظم کے مختلف اقدامات اور پالیسیوں کے ذکر کے ساتھ یہ سوال کر رہی تھیں کہ کیا ”غدار‘‘ ایسے ہوتے ہیں؟
نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی اور عوام کی خوش حالی کے لئے پڑوسی ملکوں کے ساتھ نارملائزیشن کی خواہش اپنی جگہ، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنے قومی مفادات سے انحراف کیا ہو۔ کشمیر کے معاملے میں بھی وہ کسی طبقے، کسی ادارے، کسی تنظیم اور کسی بھی جماعت سے کم حساس نہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ تھے تو 5 فروری کو یوم کشمیر منانے کا اعلان کیا (وزیر اعظم بے نظیر نے بھی اسے ”اون‘‘ کر لیا) بابائے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں، وزارت عظمیٰ سے برطرفی کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا کہ سرکاری وکیل نے بند کمرے کے اجلاس میں نواز شریف کی برطرفی کا بنیادی سبب یہ بتایا کہ امریکہ (اور بھارت) ان سے خوش نہیں تھے۔ تمام تر عالمی دبائو کے باوجود ایٹمی دھماکے، تیسری بار وزیر اعظم بنے تو یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں کشمیر کا مقدمہ اس زور سے پیش کیا کہ عالمی مبصرین کا کہنا تھا: برسوں بعد پاکستان کے کسی حکمران نے کشمیر کا کیس اس طرح پیش کیا ہے۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ اگلی صبح چائے کا پروگرام خطرے میں پڑ گیا تھا۔ سی پیک وزیر اعظم مودی کے سینے پر سانپ کی لکیر ہے لیکن ”مودی کا یار‘‘ اس کی تکمیل کے لئے سرگرم رہا۔ بونیر کے جلسے میں اسی باعث وہ پُراعتماد تھا اور ایک ایسے کمیشن کی تجویز پیش کر رہا تھا جو فیصلہ کرے کہ غدار کون ہے؟ کس کس نے اپنے اقتدار کے لئے قومی مفادات سے غداری کی؟ اور اس کی تائید میں چاروں طرف ہزاروں بازو لہرا رہے تھے۔