منتخب کردہ کالم

ان کی آنکھیں بھی کیا میری طرح کمزور ہو چکی ہیں؟ نصرت جاوید

ان کی آنکھیں بھی کیا میری طرح کمزور ہو چکی ہیں؟۔۔۔۔نصرت جاوید

عمر بڑھنے کے ساتھ یا تو میری نظر کمزور ہوگئی ہے یا Status Quoکی محبت نے بصیرت سے قطعاََ محروم کردیا ہے۔
اپنی کوتاہی نگاہ پر غور کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہورہی ہے کہ نواز شریف کے گزشتہ دونوںادوار میں موصوف کے زوال کی نشانیاں دریافت کرنے میں ہمیشہ میں اپنے کئی انتہائی باخبر صحافی دوستوں سے بازی لے جایا کرتا تھا۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے بالآخر آج صبح آنکھ کھلتے ہی احساس ہوا کہ موصوف کے ”چل چلاﺅ“ کی بات درحقیقت قومی اسمبلی کے ا یوان میں نظر آنا شروع ہوا کرتی تھی۔ میری نگاہِ دور بین کا اس میں کوئی کمال نہیں تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں فیصل آباد سے منتخب ہوکر آئے رکن قومی اسمبلی میاں زاہد سرفراز واپوزیشن کی صفوں میں سب سے نمایاں اور متحرک ہوا کرتے تھے۔ وہ خود کو ”سائنٹیفک (Scientific)سیاستدان“ کہتے تھے اور ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے کہ سیاست ریاضی کے علم کی طرح ہے۔ اسے ناپ تول کے اعشاری نظام کے ذریعے منطقی ذہن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کسی سیاستدان کے مستقبل کا ہمیشہ انتہائی درست انداز میں تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
میاں صاحب مجھ سے بہت شفقت فرماتے۔ اگرچہ انہیں گلہ مجھ سے یہ بھی رہتا کہ میرا دل محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں اکثر ”نرم“ رہتا ہے۔ دل کی اس کمزوری کے ہاتھوں میں دیکھ ہی نہیں پاتا کہ وہ اور ان کے خاوند -آصف علی زرداری- کس ”وحشیانہ انداز“ میں ایک قطعی نااہل اور بدعنوان حکومت چلارہے ہیں۔ان کا اصرار رہا کہ ”پاکستان کو بچانے“ کے لئے محترمہ کی حکومت کا جلد از جلد خاتمہ ضروری ہے۔ اپنے بلند آہنگ رویے کی وجہ سے وہ نہ صرف اپوزیشن میں موجود اراکین اسمبلی کے محبوب بن گئے بلکہ ایوانِ صدر میں بظاہر خاموشی سے بیٹھے صدر غلام اسحاق خان کو بھی اکثر ان سے ملاقات کی ضرورت محسوس ہوتی۔
بالآخر میاں زاہد سرفراز جیسے افراد کی کاوشوں سے صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی آٹھویں ترمیم کی بدولت ملے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے 6اگست 1990کے دن محترمہ کی پہلی حکومت کو فارغ کردیا۔ غلام مصطفےٰ جتوئی نئی قومی اسمبلی کے لئے انتخابات کروانے والی نگراں حکومت کے وزیر اعظم بن گئے۔میاں صاحب کا ”سائنسی تجزیہ“ اس بات پر بضد رہا کہ انتخابات مکمل ہوجانے کے بعد بھی غلام مصطفےٰ جتوئی مرحوم ہی وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہیں گے۔ ایسا مگر ہونہ سکا۔ انتخابات کی تکمیل کے بعد لاہور کے ایک صنعت کار گھرانے سے ابھرے نواز شریف کو وزیر اعظم بنادیا گیا۔ میاں صاحب کی ”سائنس“ فیل ہوگئی۔ ہماری ایک دوسرے کے ساتھ گرم جوشی اگرچہ اپنی جگہ قائم رہی۔ ذاتی طورپر مجھے اس دوستی کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ مجھے نواز شریف کے خلاف خبریں جمع کرنے کی لگن رہتی تھی اور میاں صاحب ایک حوالے سے ”گھر کے بھیدی“ تھے۔
میاں زاہد سرفراز ہی مسلم لیگ کی صفوں میں براجمان اراکین میں سے وہ پہلے شخص ثابت ہوئے جنہوں نے لاہور اور اسلام آباد کے درمیان موٹروے کی تعمیر کے منصوبے کو قومی اسمبلی کے ایوان میں بارہا کھڑے ہوکر ایک ”بوگس اور غیر ضروری“ منصوبہ بیان کرنا شروع کیا جس کا اصل مقصد،ان کی نظر میں،صرف ”کمیشن اور کک بیکس“ کا حصول تھا۔
نواز شریف کی پہلی حکومت کی اپنائی پالیسیوں نے غلام اسحاق خان کو بھی ناراض کردیا جو کئی برسوں تک ریاستی خزانے کے نگہبان رہے تھے اور اپنی اس حیثیت میں بہت محتاط اورجزرس سمجھے جاتے تھے۔ دریں اثناءصدام حسین نے کویت پرقبضہ بھی کرلیا۔ کویت کو ”آزاد“ کروانے کے لئے امریکہ متحرک ہوا تو ہمارے اس وقت کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ صاحب نے دہائی مچادی۔ اعلان کردیا کہ عراق امریکہ کا ویت نام ثابت ہوگا۔ میاں زاہد سرفراز کو پورا یقین تھا کہ امریکہ کے خلاف اٹھے اسلم بیگ صاحب بہت جلد نواز شریف کا تختہ الٹ دیں گے۔
ان کا یہ اندازہ بھی لیکن غلط ثابت ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم نے بلکہ صدر کو مجبور کردیا کہ وہ ایک آرمی چیف کی معیادِ ملازمت ختم ہونے سے تین ماہ پہلے ان کے جانشین کا تقرر کردیں۔ جنرل آصف نواز مرحوم کا بطور جانشین نام فائنل ہوگیا تو بیگ صاحب ”عسکری کلب“ میں تنہا رہ گئے اور نواز شریف بچ نکلے۔
جنرل آصف نواز کے ساتھ بھی لیکن نواز شریف کی سندھ آپریشن کی وجہ سے بدگمانیاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ میاں صاحب مرحوم جنرل کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران ”اچانک“ محمد خان جونیجو مرحوم نے بھی تسلسل کے ساتھ قومی اسمبلی کے ایوان میں آنا شروع کردیا۔ وہ ایوان میں آتے تو مسلم لیگ کے کئی اراکین اسمبلی ان کی نشست کے گرد جمع ہونا شروع ہوجاتے۔ گویا ایک گیم تیار ہونا شروع ہوگئی۔ اس گیم میں حامد ناصر چٹھہ کوجونیجو مرحوم نے آئندہ کا وزیر اعظم بنانا چاہا۔ مسلم لیگ کے کئی اراکین خفیہ طورپر ان سے ملاقاتیں کرنا شروع ہوگئے۔ ان ملاقاتوںکے طفیل بالآخر غلام اسحاق خان نے اپریل 1993میں نواز شریف حکومت کو فارغ کردیا۔
جسٹس نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے ا گرچہ حکومت اور قومی اسمبلی کو بحال کردیا مگر نواز شریف اور ان کے مخالفین کے درمیان تناﺅ کا تدارک سوائے نئے انتخابات کے ممکن ہی نہ رہا۔ جنرل وحید کاکڑ نے مداخلت کی۔ غلام اسحاق خان اور نواز شریف نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ معین قریشی واشنگٹن سے بلواکر نگراں وزیر اعظم بنادئیے گئے۔ ان کی نگرانی میں ہوئے انتخابات کی بدولت محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔ ان کی حکومت کو صدر فاروق خان لغاری کے ہاتھوں رخصت کروانے کے لئے اپوزیشن کو مزید 3سال انتظار کرنا پڑا۔ نئے انتخابات ہوئے اور نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بن گئے۔
دوسری بار وزیر اعظم کے دفتر پہنچنے کے چند ہی ماہ بعد نواز شریف نے فاروق لغاری اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو فارغ کردیا۔ آئین میں سے آٹھویں ترمیم بھی نکال دی گئی۔ ہر شخص کو یقین آگیا کہ ”ہیوی مینڈیٹ“ سے منتخب ہوئے نواز شریف اب کی بار ”پانچ سال“ پورے کریں گے۔ میرا دل مگر مان کر نہیں مانتا تھا۔ اگرچہ اکتوبر1998میں جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے کر نواز شریف مزید طاقت ور نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ میں بدستور ان کے زوال کی نشانیاں تلاش کرتا رہا۔ بالآخر ایک دن میرے دوست خورشید قصوری مسلم لیگ ہی کی صفوں میں سے بغاوت کا اعلان کر بیٹھے۔ ”شریعت بل“ کی مخالفت ان کا جواز تھا جسے میں نے نواز شریف کی جانب سے خود کو ہمارا ”امیر المومنین“ بنانے کی خواہش ٹھہرایا تھا۔
خورشید قصوری کی لگائی آگ بھڑک اُٹھی تو میاں اظہر بھی نمایاں ہوگئے۔ ”کارواں“ بنتا چلا گیا اور پھر 12اکتوبر 1999ہوگیا۔ اب نواز شریف کو پاکستان کا تیسری بار وزیر اعظم بنے چار سال گزر چکے ہیں۔ مجھ بدنصیب کو مگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں سے کوئی ایک بھی میاں زاہد سرفراز، حامد ناصر چٹھہ، میاں اظہر یا خورشید قصوری جیسا نظر نہیں آرہا۔
ہمارے چند دوستوں کوامید تھی کہ شاید چودھری نثار علی خان اپنی شہرہ¿ آفاق دیانت کی وجہ سے پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد اپنے ایچی سن کالج کے دوست عمران خان کی جانب سے کرپشن کے خلاف برپا کئے جہاد میں شریک ہوجائیں گے۔ چند ہی روز قبل مگر نوازشریف کی JITمیں پیشی کے بعد وزیر اعظم ہاﺅس میں ہوئے ایک اجلاس میں وہ ان کے ساتھ اپنی وفاداری کا جذباتی انداز میں ذکر کرتے پائے گئے ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ نواز شریف کا ممکنہ زوال جو ہمارے میڈیا پر چھائے تمام حق گو افراد کو روزِ روشن کی طرح دِکھ رہا ہے اس وقت کی مسلم لیگ نون میں بیٹھے اراکینِ قومی اسمبلی کو نظر کیوں نہیں آرہا۔ ان کی آنکھیں بھی کیا میری طرح عمر کے ساتھ کمزور ہوچکی ہیں؟